
پاکستان کے جنرل ہیڈکوارٹرز کے اندھیروں میں، جہاں طاقت اپنے آپ کو حب الوطنی کا نقاب پہنا کر پیش کرتی ہے، ایک سنہرا ناسور اُگا، بحریہ ٹاؤن، جو قوم کے سکڑتے لہو اور خاکی اشرافیہ کی لالچ سے پھیلتا گیا۔
ملک ریاض حسین، زمین کا یہ بادشاہ، کسی تخلیقی ذہانت سے نہیں بلکہ محروم اور بے دخل کیے گئے لوگوں کی پیٹھ توڑ کر اُٹھا، اور ان جرنیلوں کی چپ میں پروان چڑھا جو زوال کے معمار بنے۔ کنکریٹ اور چوری شدہ پانی کی اس سلطنت نے اسلام آباد، کراچی اور لاہور کو لپیٹ میں لیا، اور اس کی بنیاد زبردستی زمین چھیننے کی آگ پر رکھی گئی۔
دیہاتی اور کسان بے بسی سے دیکھتے رہے کہ ان کی آبائی زمینیں چند سکوں میں چھینی گئیں اور پھر چمکتی بستیوں میں ڈھل کر اشرافیہ کو بیچی گئیں۔ خاص طور پر کراچی کے ساحل، جہاں آصف علی زرداری کی سیاسی سرپرستی نے بحریہ کے قبضوں کو جواز دیا، ایک ایسی یلغار کا منظر بنے جس نے ماحول اور معاشرہ دونوں اجاڑ دیے۔ درمیانہ طبقہ، جدیدیت کے خوابوں میں بہک کر، اپنی نسلوں کی جمع پونجی اس فریب میں جھونک بیٹھا، اور آخرکار جانا کہ ان کے کاغذات اتنے ہی کھوکھلے ہیں جتنی جرنیلوں کی عزت۔
یہ ترقی نہیں تھی، یہ ایک منظم لوٹ مار تھی، جس کا حکم اعلیٰ ترین ایوانوں سے آتا رہا۔ ریٹائرڈ فوجی افسران، جن کے کندھوں پر اب مدھم پڑ چکے ستارے تھے، بھاری تنخواہوں پر بحریہ کے انتظام میں لائے گئے، اور ان کا کام یہ تھا کہ لوٹ مار کا پہیہ بے روک ٹوک چلتا رہے، چاہے اس کے نیچے زمین کچلی جائے یا زندگیاں۔
ماحولیاتی تباہی کی داستان گویا جنگی جرائم کی فہرست ہو: وہ ندیاں جو صدیوں سے تہذیبوں کو سیراب کرتی تھیں، سواں، تھدو، مول۔۔ کنکریٹ کے نالوں میں جکڑ دی گئیں، تاکہ بحریہ کے فوارے چل سکیں، جب کہ کسانوں کی زمینیں پیاس سے پھٹ گئیں۔ کھیرتھر نیشنل پارک کے قدیم پہاڑ بارود سے اُڑائے گئے، پرندوں کے صدیوں پرانے راستے کاٹ دیے گئے اور وہ چشمے خشک کر دیے گئے، جو پورے خطے کو زندگی دیتے تھے۔ اسلام آباد میں سواں ندی کا بہاؤ تنگ کر دینا، جو ڈی ایچ اے (بحریہ کا فوجی ہمزاد) نے کیا، مون سون کی بارش کو انہی اشرافیہ کی بستیوں پر قہر بنا لایا جو ماحول کے قتل پر تعمیر کی گئی تھیں۔
سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے نے چوری کی قلعی کھول دی۔ 3,035 ایکڑ محفوظ جنگلات پر غیر قانونی قبضہ۔۔ مگر وہ تباہی، جو کبھی واپس نہ آئے گی، اس پر زبان بند رہی: خشک ہوتے زیرِ زمین پانی کے ذخائر، بگڑتا موسمی توازن اور مستقبل گروی رکھ دینا۔
جرنیل محض تماشائی نہ تھے، وہ اس بڑے ڈاکے کے اصل مہرہ ساز تھے۔ وہی خود ساختہ محافظ، جو آج سیاسی بدعنوانی پر تقریریں جھاڑتے ہیں، بشمول اس شہباز شریف حکومت کے جسے انہوں نے متنازع فارم 47 کے ذریعے بٹھایا، دراصل دہائیوں سے قوم کے زوال کے ڈرامے کے کٹھ پتلی باز ہیں۔ 2022 کی ایک رپورٹ میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کے بھائی اربوں کے اسلام آباد ہاؤسنگ اسکینڈل میں ملوث نکلے، جنرل راحیل شریف کو ریٹائرمنٹ پر لاہور کی سو ایکڑ قیمتی زمین ملی۔ اسی سال کریڈٹ سوئس کے انکشافات سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل اختر عبد الرحمٰن کی افغان جنگ کے دوران اربوں کی خرد برد سامنے لے آئے۔
کرپشن صرف زمین تک محدود نہیں تھی: جرنیل عبیداللہ خٹک اور عاصم سلیم باجوہ نے منشیات کی اسمگلنگ سے لے کر امریکی پیزا فرنچائزز تک اربوں کمائے، سب فوجی فاؤنڈیشنز جیسے فوجی اور بحریہ کے ٹیکس چور ڈھانچوں میں چھپا کر۔ عائشہ صدیقہ کی ’ملٹری اِنک‘ کے مطابق سینئر جرنیلوں کی جائیدادیں پندرہ سے چالیس کروڑ تک ہیں اور یہ تخمینہ غیر قانونی کمائی کے بغیر ہے۔
یہ ناپاک گٹھ جوڑ دور دور تک پھیلا۔ بیوروکریٹس، جج، واپڈا، پولیس، نیب۔۔ سب کے ہاتھ ملک ریاض کی چکنی دولت سے بھرے گئے۔ برطانیہ کی این سی اے کے ذریعے ضبط شدہ 19 کروڑ پاؤنڈ تو محض ایک جھلک ہے، اصل دولت نجی طیاروں، لانچوں اور خفیہ کرنسی شپمنٹس سے مشرقِ وسطیٰ منتقل ہوئی۔ پوری ریاستی مشینری- سیکورٹی ادارے، انٹیلی جنس نیٹ ورک، کسٹمز، سول ایوی ایشن- سب نے قانونی جواز، لاجسٹک مدد اور تحفظ دیا۔ 2012 کا میڈیا گیٹ اسکینڈل عدلیہ کی گراوٹ کا پردہ چاک کرتا ہے، جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے پر بحریہ کے حق میں فیصلوں کے لیے رشوت کے الزامات لگے۔ پولیس، جو عوام کی محافظ تھی، لوٹ مار کی نگران بن گئی۔ اور زرداری نے بھی اپنا حصہ وصول کیا، لاہور میں بحریہ ٹاؤن کی ایک شاندار حویلی، اس کی ملی بھگت کی یادگار۔
77 برسوں سے جرنیل ادارے توڑتے اور عوام کو دھوکہ دیتے آئے ہیں۔ حکومتیں گرا کر، مارشل لا لگا کر، انتخابات مسخ کر کے۔۔ اور یہ سب ”نجات دہندہ“ بن کر کیا۔ 2023 میں عمران خان کی گرفتاری اور عوامی احتجاج اس جمی ہوئی آمریت کے خلاف غصے کا لاوا تھے، مگر جواب میں صرف وہی پرانا وعدہ آیا: ”سخت کارروائی“۔
اب بحریہ ٹاؤن، یہ ڈوبا ہوا سنہری جہاز، اپنی آخری سانسوں پر ہے۔ اس کی جھیلیں سڑ چکی ہیں، مصنوعی جزیرے سمندر میں بہہ رہے ہیں، اکاؤنٹس منجمد ہیں، منصوبے ڈھانچوں میں بدل گئے ہیں۔ فضا میں دھوکے کی بُو ہے۔ جرنیل، ہوا کا رخ بھانپ کر، ملک ریاض سے دُور ہو رہے ہیں اور ڈی ایچ اے کے ذریعے اس کی لاش کو اونے پونے داموں کھا جانے کی تیاری میں ہیں، عوام کی جیبوں سے دولت کی آخری زبردستی منتقلی!
بیوروکریسی اب حیرت کا ڈرامہ کر رہی ہے ان خلاف ورزیوں پر، جو انہی کی رشوت سے منظور ہوئیں۔ ملک ریاض کو شاید اکیلا مجرم بنا کر قربان کر دیا جائے، مگر اصل فوجی اور سیاسی گماشتے، زرداری سمیت، حسبِ روایت ریاستی نقاب کے پیچھے فرار کی راہ پر ہیں۔
یہ کسی ایک منصوبے کی موت نہیں، بلکہ پاکستان کے ڈوبتے کوئلے کی کان میں قید ایک کینری ہے۔ بحریہ ٹاؤن نے کھربوں، تقریباً دو فیصد جی ڈی پی، مردہ سرمایہ میں دفن کر دیے: غیر پیداواری زمین جو صرف قیاس آرائی کے بلبلے بناتی رہی۔ جب یہ سنہری جہاز ڈوبتا ہے، تو اپنے ساتھ خوشحالی کا فریب بھی لے ڈوبتا ہے، اور دکھاتا ہے کہ پورا نظام گلا سڑا ہے: عدلیہ بکی ہوئی، بیوروکریسی بکی ہوئی، فوج لٹیروں کا ٹولہ، معیشت آزاد زوال میں۔ سرمایہ وہی کرتا ہے جو چوہے کرتے ہیں، ڈوبتے جہاز سے بھاگ جانا!
زمین مگر سب جانتی ہے۔ جہاں بارود نے پہاڑوں کو چیرا اور کنکریٹ نے دریاؤں کا گلا گھونٹا، وہاں زمین آہستہ آہستہ اپنا لوٹا ہوا جوہر واپس لے رہی ہے۔ کوئی سنگِ مرمر کی چمک یا نیون کی روشنی اس سچ کو نہیں چھپا سکتی: یہ کبھی قوم سازی نہیں تھی، یہ صرف تاخیر سے آنے والی بربادی تھی، جسے غدار اور جابر جرنیلوں نے اپنے سیاسی گماشتوں کے ساتھ مل کر بُنا۔ ان کی میراث ایک ٹوٹا ہوا وطن ہے، جس کی روح لوٹ لی گئی، اور جس کے مناظر برباد ہو گئے۔
”سنہری جہاز ہمیشہ سب سے پہلے ڈوبتا ہے، کیونکہ وہ چوری شدہ سونے سے سب سے بھاری ہوتا ہے۔“ بالزاک نے کہا تھا۔ اب ملک کا پورا بیڑا ڈوب رہا ہے۔ اور جرنیل، بیوروکریٹ، جج، سینیٹر اور سیاست دان ہمیشہ کی طرح لائف بوٹس پر سوار ہو چکے ہیں، پیچھے صرف ایک اجڑا ہوا ڈھانچہ اور ایک سوال چھوڑ کر: کیا یہ قوم آخرکار ان درندوں سے نجات پائے گی، یا انہی کے لُوٹے ہوئے بوجھ تلے ڈوب جائے گی؟
یہ محض ایک حاشیہ نہیں، بلکہ ایک لٹے پٹے وطن کا کتبہ ہے:
اور باقی کیا؟ صرف سچ: بحریہ ٹاؤن کبھی محض ایک ریئل اسٹیٹ منصوبہ نہیں تھا، بلکہ ایک سنہری انجن تھا چوری کے اس نظام کا۔۔۔ جہاں جرنیل زمین ہڑپتے، جاسوس پیسہ دھوتے، سیاست دان حویلیاں لیتے، اور پوری قوم چوری شدہ دریاؤں اور مسمار پہاڑوں کی دھول میں دم گھٹ کر رہ جاتی۔
انجن رک چکا ہے۔
سونا ختم ہو چکا ہے۔
دھول باقی ہے۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)