ایرانی فلم "علت مرگ: نامعلوم” Cause of death : Unknown

ذوالفقار علی زلفی

سال : 2024
ہدایت کار: علی زرنگار

کہانی کا خلاصہ

صبح کازب کے وقت 7 مسافر ایک وین میں شہداد سے کرمان کی جانب سفر شروع کرتے ہیں ـ راستے میں انہیں پتہ چلتا ہے آٹھواں مسافر جو ان سے پہلے وین میں بیٹھا ہوا تھا مرچکا ہے ـ وہ ایمبولینس کے لئے ایمرجنسی میں فون کرتے ہیں وہاں سے کہا جاتا ہے چوں کہ ابھی ڈاکٹر نہیں ہے اس لئے وہ ایمبولینس بھیجنے سے معذور ہیں ـ فیصلہ کیا جاتا ہے مردے کو آگے ہائی وے پولیس کی چوکی کے حوالے کیا جائے ـ اس دوران مردہ شخص کے کوٹ کے اندر سلا ہوا پیکٹ ملتا ہے ـ مشکوک پیکٹ سے ایک لاکھ ڈالر ملتے ہیں ـ یہاں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے ـ مختلف پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے مسافروں سمیت وین ڈرائیور کے درمیان کش مکش شروع ہوجاتی ہے جو ایک غیر متوقع نتیجے پر آکر ٹھہر جاتی ہے ـ

تجزیہ

شہداد ایران کے مشرقی صوبے کرمان کے انتہائی مشرق میں ، صحرائے لوت کے دامن میں ایران کے زیرِ انتظام بلوچستان سے متصل خطہ ہے ـ شہداد کی وجہِ شہرت "کلوت” ہے ـ کلوت صحرا میں بنے تصوراتی شہر کو کہتے ہیں ـ

خطہِ شہداد میں صحرائے لوت کے اندر پانی اور مٹی کے ملاپ سے قدرتی طور پر مینار اور عمارتیں بنی ہوئی ہیں ـ دور سے ایسا لگتا ہے جیسے صحرا کے اندر قرون وسطی کا کوئی شہر بسا ہوا ہو ـ ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق یہ "کلوت” قریب 20 ہزار سال پرانے ہیں ـ

"کلوت” دو الفاظ کا مجموعہ ہے ـ "کَل” اور "لوت” ـ "کل” دراصل "کلات” کا مخفف ہے جو قدیم فارسی اور موجودہ بلوچی زبان میں قلعے کو کہتے ہیں جب کہ "لوت” دشت و بیابان کو کہتے ہیں ـ گویا "کلوت” کا مطلب دشت و بیابان کے قلعے ـ بلوچستان سے لے کر تہران کے قریب اختتام پزیر ہونے والے وسیع بیابان کو "دشت لوت” کہا جاتا ہے ـ

بلوچستان سے متصل کرمان ایران کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا صدر مقام کرمان شہر ہے ـ

فلم کا جغرافیہ شہداد اور کرمان کی درمیانی سڑک ہے جس کے برابر میں دور دور تک پھیلا "کلوت” ہے جو فلم میں بار بار نظر آتا ہے ـ

فلم میں آٹھ زندہ کردار ہیں جو مختلف طبقات و پسِ منظر سے تعلق رکھتے ہیں ـ ان کی یہ طبقاتی حیثیت ان کے درمیان تضادات و اتفاقات کی وجہ بنتی ہے ـ

1- متضاد تفکر

اس فلم میں دو گروہ واضح ہیں ـ ایک لبرل نوجوان پیمان جو اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے غیرقانونی طور پر سرحد پار جانا چاہتا ہے ـ اسے اتفاقاً ملنے والے پیسوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ـ صرف دلچسپی ہی نہیں وہ سماج کے ان اکثریتی اراکین سے بھی شاکی ہے جو ملک کے سیاسی نظام کو بدلنے کی کوشش کرنے کی بجائے اس میں رہ کر چور راستوں سے اپنے معاشی مشکلات حل کرنے کے خواہش مند ہیں ـ یہ نوجوان ریاستی پولیس کو جبر کی علامت مان کر اس سے کسی سمجھوتے کا قائل نہیں ہے چاہے اس کی اسے جتنی بھی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے ـ تاہم یہ باشعور مڈل کلاس طبقہ سماجی شعور کی سطح بلند کرنے میں کوئی کردار بھی ادا نہیں کرنا چاہتا ـ وہ اجتماعیت پر انفرادیت کو ترجیح دے کر ان سرمایہ دارانہ ریاستوں کی جانب بھاگا چلا جا رہا ہے جو چند لبرل حقوق دے کر سماج کی اجتماعی محنت پر قابض ہیں ـ

دوسرے گروہ میں وہ پانچ افراد ہیں جو بدترین معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ـ ایک سرکاری ملازم جو اپنی تنخواہ سے بیمار بیوی کا علاج کرنے سے قاصر ہے ـ انسانی اسمگلروں کا کارندہ جو اچھے جوتے تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتا ـ وین ڈرائیور جس کی پوری زندگی کسی اور کے وین کو شہداد کرمان سڑک پر گھسیٹتے گزر گئی ـ تازہ جیل سے چھوٹ کر آنے والا "مجرم” جسے اپنے قریبی دوست کی سزائے موت رکوانے کے لئے دیت کے رقم کی ضرورت ہے ـ یہ سب مختلف معاشی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں مگر وہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کوشش کرنے کو تیار نہیں وسائل سے مالا مال ملک کے شہری اس حالت میں کیوں ہیں ـ اجتماعی سیاسی شعور سے محروم یہ طبقہ موقع پرستیوں کا شکار ہوکر قبضہ اور چھینا جھپٹی کو ہی درست راستہ سمجھتا ہے ـ

ان دو گروہوں کے درمیان ایک گونگی بہری عورت ہے ـ وہ نہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے پر قادر ہے اور نہ ہی دوسروں کی چیخ سننے کی صلاحیت رکھتی ہے ـ اپنے دو یتیم بچوں کو روٹی کا ٹکڑا دینے کی غرض سے وہ اپنے باپ کی عمر کے ایک سادیت پسند شخص سے صیغہ (وقتی نکاح) کرنے پر مجبور ہے جو اسے مار پیٹ کر جنسی تسکین حاصل کرتا ہے ـ اس عورت کو بھی اتفاقاً ملے پیسوں میں دلچسپی نہیں ہے ـ یہ سماج کا وہ سادہ دل طبقہ ہے جس کی نگاہ میں سب کچھ آسمانوں سے ہوتا ہے ـ تصوراتی اخلاق کی قیدی ـ

2 – علتِ مرگ

وین موجودہ ایران کی علامت ہے ـ گرد سے اٹا ، مختلف اندرونی خرابیوں سے الجھتا ، بے آب و گیاہ خشک میدانوں پر چلتا ہوا ـ وین کا مالک پرتعیش زندگی گزار رہا ہے جب کہ اس کو چلانے والا اور اس کے مسافر مختلف سماجی مسائل سے ناکام جنگ لڑ رہے ہیں ـ

فلم میں موجود تمام افراد میں ایک قدر مشترک ہے ـ وہ مردہ سماج کے علتِ مرگ سے لاعلم ہیں ـ لبرل نوجوان جہاں حکومت کو موردِ الزام ٹہراتا ہے وہاں وہ کچلے ہوئے لوگوں پر بھی اعتماد نہیں رکھتا ـ پولیس سے لڑنے کے دوران یہی لوگ درمیان میں آکر اسے پولیس کے ممکنہ جبر سے بچاتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ سخت معاشی مسائل سے نبرد آزما لوگوں کی زندگی اور ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ـ وہ اس قدر خود پسند ہے اپنی گرل فرینڈ کو بھی اس پر معاف نہیں کرتا کہ اس نے پیسوں میں سے حصہ لینے کی بات کی ہے ـ وہ عین اس وقت وین سے فرار ہوجاتا ہے جب مسافر ایک جگہ جمع ہوکر لاش اور رقم کے متعلق حتمی فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ـ

معاشی مسائل کے گرداب میں پھنسے افراد کو بھی علتِ مرگ جاننے سے علاقہ نہیں ہوتا ـ وہ جلد از جلد ساتھی مسافر کی لاش جو دراصل ان کی اپنی زندہ لاش کی علامت ہے کو دفن کرکے رقم پر قبضہ جمانے کی حریصانہ خواہش میں مبتلا ہیں ـ

ریاکار سرکاری ملازم جسے پاکستانی دانش ور حمزہ علوی نے تنخواہ دار طبقے سے شناخت کیا ہے؛ بالخصوص سماج کی تنزلی و مشکلات کی وجوہات کے سامنے آنا سے گھبراتا ہے ـ ایک جگہ وہ کہتا ہے "اگر اس مردے کو ڈاکٹر کے حوالے کیا گیا تو وہ اس کی چیر پھاڑ کرنے کے بعد کہیں گے؛ علتِ مرگ نامعلوم ـ تو بہتر یہی ہے اس کو دفنا دیا جائے” ـ یہ کردار یعنی تنخواہ دار طبقہ دراصل اپنی منافقت کا پردہ چاک ہونے سے ڈرتا ہے ـ وہ سماج کو درپیش ہر مشکل کے حل میں اپنا مفاد تلاش کرتا ہے ـ جدوجہد سے کتراتا ہے ـ مسائل کو دفن کرکے اپنے فوری ذاتی مفادات کے تحفظ پر یقین رکھتا مگر ظاہر ایسے کرتا ہے جیسے وہ اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر کھڑا ہے ـ

3- بلوچ اسٹیریو ٹائپ پیش کش

فلموں میں کسی مخصوص لسانی گروہ، قوم ، مذہب، جغرافیائی خطے یا جنس کی اسٹیریوٹائپ شبیہ عام ہے ـ اسی طرح بعض ثقافتوں اور تصورات کو بھی اسٹیریوٹائپ انداز میں پیش کیا جاتا ہے ـ

کسی نسلی و لسانی گروہ، قوم ، مذہبی فرقے، عورت یا فرد کے متعلق معاشرے میں وسیع سطح پر پھیلے ہوئے متعصب رویے اور رجحان کو بنا تحقیق و تفتیش من وعن پیش کیا جائے تو وہ شبیہ پختہ ہوکر جاننے اور سمجھنے کے راستوں کو بند کرتا جاتا ہے ـ فلم چوں کہ عام طور پر معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو ہدف بناتی ہے جو معاشرے کا اکثریتی حصہ ہے اس لئے یہ افراد فلم میں پیش کئے گئے اسٹیریوٹائپ کو ناقابلِ تردید حقیقت مان لیتے ہیں ـ

ایرانی سینما کم از کم پچاس سالوں سے مسلسل بلوچ قوم کی اسٹیریوٹائپ عکاسی کر رہا ہے ـ بلوچ اور بلوچستان پر بننے والی پہلی فلم "بلوچ” ہے جو شاہ ایران کے دور میں 1972 کو ریلیز کی گئی ـ اس فلم میں بلوچ کے حوالے سے نہایت ہی غلط تصورات پھیلائے گئے ـ اس فلم کے ہدایت کار ایرانی سینما کے روشن فکر فرد سمجھے جانے والے مسعود کیمیائی ہیں جب کہ بلوچ کا کردار افسانوی شہرت رکھنے والے سپراسٹار بہروز وثوقی نے ادا کیا ـ دو اہم شخصیات کے انسلاک نے فلم کو ہٹ اور اس میں پیش کردہ اسٹیریوٹائپ تصورات کو حقیقت کا لباس پہنا دیا ـ

ایرانی فلم ناقدین نے اس زمانے کی فلموں کو "فارسی فلم” کا نام دے کر شدید تنقید کرکے انہیں کچرا قرار دیا لیکن انہوں نے بلوچوں کی اسٹیریوٹائپ پیشکش کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا ـ ایران میں جب سنجیدہ فلم سازی کا آغاز ہوا تو فلموں سے بڑی حد تک سماجی تعصبات کا بھی خاتمہ ہوگیا تاہم بلوچ کے حوالے سے سینما کا نظریہ سرِ مو بھی نہ بدلا ـ

"علت مرگ: نامعلوم” بھی بلوچ کے حوالے سے پھیلے ہوئے سماجی تعصبات کو ہی آگے بڑھاتی ہے ـ وین میں مرنے والے شخص کے مختلف لباس (شلوار قمیض) اور جیب سے برآمد ہونے والے ایک لاکھ ڈالر سے نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ ایک افغان اسمگلر ہے ـ وین کے دیگر مسافر اس کی افغان شناخت پر سوال اٹھاتے ہیں مگر تہران نشین سرکاری ملازم انہیں باور کراتا ہے کہ وہ افغانوں کی رگ رگ سے واقف ہے لہذا یہ مردہ شخص یقینی طور پر افغان ہے ـ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ اعلان بھی کرتا ہے یہ ایک اسمگلر ہے ـ

وین کے دیگر مسافر جو بلوچ ہمسایہ خطے شہداد کے رہائشی ہیں تہرانی سرکاری ملازم کی دونوں باتوں پر یقین کر لیتے ہیں ـ صوبہِ کرمان کا جنوب مشرقی خطہ مکمل طور پر بلوچ سرزمین ہے اس لئے کرمانیوں کے لئے تہرانیوں کی نسبت بلوچ اور ان کی ثقافت کوئی اجنبی شے نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ ایک تہران نشین سرکاری ملازم کے دعوی پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں ـ

بلوچ کو افغان سمجھنا فلم کو ڈرامائی موڑ دینے کی وجہ سے قابلِ ہضم ہے مگر اسے قطعیت کے ساتھ اسمگلر قرار دینا مرکزی ایران کی تعصب پسند ذہنیت کا آئینہ دار ہے ـ

کرمان بس ٹرمینل میں جب دوسرا ڈرائیور وین ڈرائیور سے پوچھتا ہے تمہارا بلوچ مسافر کہاں ہے، اس کے بیوی بچے اس کے منتظر ہیں؟ ـ یہاں بلوچ شناخت کا مکمل انکار سامنے آتا ہے ـ ڈرائیور قطعیت سے کہتا ہے وین میں ایک افغان تھا جو اتر گیا ـ

ٹرمینل کے دروازے پر روایتی بلوچی لباس میں ایک عورت اپنے معصوم بچے کے ساتھ حسرت و یاس کی تصویر بنی کھڑی نظر آتی ہے ـ بلوچ مسافر کے پیسوں کو بانٹنے والے مسافر ضمیر کی خلش کے ساتھ عورت اور بچے کو دیکھتے تو ہیں مگر یہ خلش اس بیچاری عورت کے لئے ہے جس کے شوہر کو انہوں نے "کلوت” میں دفنا دیا تھا ـ وین میں مرنے والا شخص ایک اسمگلر تھا اس حتمی فیصلے پر نہ انہیں کوئی ندامت ہوتی ہے اور نہ ہی فلم کے پورے متن میں اس قطعی فیصلے پر کسی شک کا کوئی معمولی سا اشارہ نظر آتا ہے ـ بلوچی لباس اور بڑی رقم اسمگلنگ کی علامتیں بنا کر پیش کی جاتی ہیں ـ

اس نکتے پر البتہ ایران افغان تضاد بھی ابھر کر سامنے آتا ہے ـ جب تک مسافروں کو یقین ہوتا ہے مردہ شخص افغان ہے تب تک انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر جب کھلتا ہے لاش ایک ایرانی بلوچ کی ہے تو ان کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں ـ یہ افسوس تاہم صرف اس حد تک ہے انہوں نے ایک ایرانی کو افغان سمجھ کر دفنایا اور اس کے مال و متاع پر قبضہ کرلیا ـ

فلم کا ایک کردار جیل سے چھوٹ کر آیا ہے اور اس کا دوست قتل کے جرم میں پھانسی چڑھنے والا ہے ـ فلم اس کردار کو ایک انسان کے روپ میں پیش کرتا ہے جو نیکی و بدی کا مجموعہ ہے مگر بلوچ شناخت کے حامل لاش کے متعلق ایسا ہم دردانہ رویہ متن سے عنقا ہے ـ وہ ایک ایرانی بلوچ تھا جسے افغان سمجھا گیا؛ اس پر افسوس ہے لیکن وہ ایک اسمگلر تھا؛ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے ـ

نوٹ: یہ فلم اس سال آسکر ایوارڈ کے لئے بجھوائی گئی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button