
دنیا بھر میں ذیابیطس کو عموماً ایک بالغوں کی بیماری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب سائنس دانوں نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ذیابیطس کی ایک ایسی نئی قسم دریافت ہوئی ہے جو صرف نوزائیدہ بچوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ بیماری اتنی نایاب ہے کہ اب تک دنیا میں اس کے صرف چند ہی کیسز سامنے آئے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بیماری لبلبے کے ساتھ دماغ پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔
تحقیق کے مطابق، سائنس دانوں نے ایک واحد جین TMEM167A کی نشاندہی کی ہے، جو اس بیماری کا باعث بنتا ہے۔ اس جین میں پیدا ہونے والا معمولی سا تغیر لبلبے کے اُن خلیوں کو متاثر کرتا ہے، جو انسولین بناتے ہیں۔ جب یہ خلیے متاثر ہوتے ہیں تو وہ اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں، نتیجتاً جسم میں انسولین بننا بند ہو جاتی ہے، اور یہی عمل ذیابیطس کی ابتدا بن جاتا ہے۔
انسولین وہ ہارمون ہے جو ہمارے جسم کو خوراک میں موجود شکر (glucose) کو توانائی میں تبدیل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر انسولین نہ بنے، تو شکر خون میں جمع ہوتی رہتی ہے، جس سے ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
یہ نئی دریافت صرف لبلبے تک محدود نہیں۔ ماہرین کے مطابق TMEM167A جین دماغ کے افعال پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جین میں خرابی صرف ذیابیطس ہی نہیں، بلکہ دماغی نشوونما کے مسائل بھی پیدا کر سکتی ہے۔
بیلجیم کی فری یونیورسٹی آف برسلز سے تعلق رکھنے والی ماہرِ ذیابیطس ڈاکٹر میریم کنوپ (Miriam Cnop) کہتی ہیں، ”اسٹیم سیلز کے ذریعے انسولین پیدا کرنے والے خلیے تیار کرنے سے ہمیں یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ نایاب اقسام کے مریضوں میں بیٹا خلیے کیوں ناکام ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف بیماری کو سمجھنے کا نیا طریقہ ہے بلکہ ممکنہ علاج کی تلاش میں بھی مددگار ہے۔“
بین الاقوامی سائنس دانوں کی ٹیم نے چھ ایسے نوزائیدہ بچوں کے جینز کا تجزیہ کیا، جن میں چھ ماہ کی عمر سے پہلے ہی ذیابیطس اور مائیکروسیفلی (microcephaly) یعنی چھوٹے دماغ کی بیماری پائی گئی تھی۔ ان میں سے پانچ بچوں کو مرگی (epilepsy) بھی تھی۔
یہ تینوں بیماریاں مل کر ایک انتہائی نایاب حالت بناتی ہیں جسے MEDS (microcephaly, epilepsy, and diabetes syndrome) کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اب تک صرف گیارہ افراد میں اس سنڈروم کی تصدیق ہوئی ہے، یعنی یہ واقعات انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
پہلے دو جینز IER3IP1 اور YIPF5 کو اس بیماری سے جوڑا جا چکا تھا۔ لیکن اب محققین نے تیسرے جین TMEM167A کو بھی اس فہرست میں شامل کیا ہے۔
یہ جین بچوں کو اپنے والدین سے وراثت میں ملتا ہے، اور اگر ماں اور باپ دونوں میں یہ جین تبدیل شدہ حالت میں موجود ہو تو بچے میں یہ بیماری ظاہر ہو جاتی ہے۔
سائنس دانوں نے انسانی اسٹیم سیلز سے تجرباتی طور پر TMEM167A جین ہٹا کر اس کی جگہ وہ تغیر شدہ جین شامل کیا جو ایک MEDS مریض کے DNA میں موجود تھا۔ پھر ان سیلز کو بیٹا خلیوں میں تبدیل کیا گیا، یعنی وہ خلیے جو انسولین پیدا کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ خلیے بن تو گئے، لیکن کام نہیں کر رہے تھے۔ جب انہیں گلوکوز دیا گیا، تو انہوں نے انسولین خارج نہیں کی۔ مزید یہ کہ خلیوں کے اندر موجود ایک نازک حصہ اینڈوپلازمک ریٹیکولم (endoplasmic reticulum) بھی متاثر ہو گیا اور اس خرابی کی وجہ سے بیٹا خلیے مرنے لگے۔
برطانیہ کی ایکزٹر یونیورسٹی سے وابستہ جینیاتی ماہر الیزا ڈی فرانکو (Elisa de Franco) کہتی ہیں، ”جب ہم نوزائیدہ بچوں میں ذیابیطس پیدا کرنے والے جینیاتی تغیرات کو تلاش کرتے ہیں، تو ہمیں وہ جینز بھی سمجھ میں آتے ہیں جو انسولین کی تیاری اور اخراج میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔“
ان کا مزید کہنا ہے، ”چھ بچوں میں ذیابیطس کی اس نایاب قسم کے پیچھے موجود مخصوص جین کی نشاندہی نے ہمیں ایک کم معروف جین — TMEM167A — کی اصل کارکردگی سمجھنے میں مدد دی۔ اب ہم جانتے ہیں کہ یہ جین انسولین کے اخراج میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔“
یہ تحقیق The Journal of Clinical Investigation میں شائع ہوئی ہے، اور ماہرین کے مطابق اس سے مستقبل میں ذیابیطس کے علاج کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بیماری نایاب ہے، لیکن اس کی دریافت نے سائنس کی دنیا میں ایک نئی سمت متعین کی ہے، ایک ایسا راستہ جو شاید آنے والے برسوں میں ذیابیطس کے کئی دوسرے راز بھی آشکار کر دے۔
ذیابیطس کے بارے میں ہماری معلومات ہمیشہ بڑھتی جا رہی ہیں۔ کبھی ہم اسے صرف خوراک اور طرزِ زندگی سے جوڑتے تھے، مگر اب سائنس ہمیں بتا رہی ہے کہ کبھی کبھی اس کے پیچھے ایک چھوٹا سا جینیاتی تغیر بھی پوری کہانی بدل دیتا ہے، اور شاید، زندگی بھی۔




