یہاں غربت کے کفن پر ترقی کا اشتہار چَھپتا ہے۔۔

امر گل

بچپن میں ہم ایک کھیل کھیلتے تھے، جس میں ایک اور پھر دوسرے ہاتھ کا انگوٹھا، جو اس وقت ابھی محض ٹھینگا ہی ہوا کرتا تھا، کسی کو دکھا کر ترنم سے کہتے تھے، ”اسے کھا لو، اسے رکھ لو۔۔“ آج یہی کھیل ہمارے ساتھ حکمراں اشرافیہ، ایلیٹ کلاس کھیل رہی ہے جو اعداد و شمار کے کھیل میں ہمیشہ کمال کی کاریگری دکھاتی ہے۔

حکمرانوں کے اعداد و شمار کے لحاظ سے ترقی کے سفر پر رواں دواں ایشیا کا چہرہ آج دنیا کے نقشے پر روشنیوں میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے، مثال کے طور پر ”چمکتا دمکتا بھارت“ اور ”اڑان پاکستان“ ۔۔۔ لیکن اشتہارات کی دنیا سے نکلیں تو چمکتے دمکتے بھارت میں غریب کی زندگی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور معاشی اڑان بھرتے پاکستان میں غریب کی زندگی روٹی کے گول پہیے کے پیچھے رینگ اور سسک رہی ہے۔۔

یہ ترقی کی اڑانیں اور روشنیاں سب کے لیے نہیں۔ یہ وہ چمک ہے جو اونچی عمارتوں کی کھڑکیوں سے باہر نہیں آتی، جو ڈیجیٹل اسکرینوں کی نیون روشنی میں جلتی ہے لیکن گلیوں میں اندھیرا چھوڑ جاتی ہے۔ یہ وہ ترقی ہے جس کی رفتار ناپنے کے لیے اکنامک رپورٹیں چَھپتی ہیں، لیکن اس کی اصل تصویر کسی مزدور کی پسلیوں کے بیچ اٹھتے درد اور پیٹ میں تڑپتی بھوک میں دکھائی دیتی ہے۔

فلک بوس عمارتوں کے سائے میں اب بھی بچے ننگے پاؤں دوڑتے ہیں۔ ان کے خواب مٹی میں گم ہیں، لیکن اس مٹی سے ہی اربوں کی سلطنتیں کھڑی ہو رہی ہیں۔ یہی ہے آج کا ایشیا۔۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی، سب سے تیز معیشت اور شاید سب سے گہرا زخم۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں ترقی کی دوڑ میں صرف امیر کے قدموں کے نشان نظر آتے ہیں، اور غریب کے خون کی لکیریں ان کے پیچھے مٹتی چلی جاتی ہیں۔

حال ہی میں آکسفیم کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، جو محض اعداد نہیں، ایک ماتم ہے۔ یہ رپورٹ حکمران اشرافیہ کے دعووں کا نقاب نوچ کر حالات کا اصل چہرہ دکھاتی ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ امیر ترین 10 فیصد کے ہاتھوں میں 77 فیصد دولت ہے، اور نیچے آدھی آبادی وہ ہے جو دن کے تین ڈالر پر زندہ تو ہے، لیکن جی نہیں رہی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رپورٹ کے مطابق، ایشیا کے ارب پتیوں کی مجموعی دولت تقریباً 1.5 سے 2 کھرب امریکی ڈالر سے بڑھ کر 3.4 سے 4 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے (سال 2025 تک)۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دولت میں اس شدید مرکزیت نے ایشیا کو دنیا کے امیر ترین حلقوں میں کھڑا کردیا ہے، لیکن ترقی کے فوائد بڑے پیمانے پر تقسیم نہیں ہوئے، مزید سمٹ اور سکڑ گئے ہیں۔

مزید برآں استحکام سے کم ترقی یافتہ ٹیکس نظام، براہِ راست ٹیکس کی کمی، قرضوں کا بوجھ، سماجی تحفظ کا نظام کمزور ہونا، عوامی خدمات کی ناقص صورتحال، یہ سب عوامل عدم مساوات کو گہرا کر رہے ہیں۔

پاکستان، اس کہانی کا وہ صفحہ ہے جہاں تضاد اپنے عروج پر ہے۔ یہاں ٹیکس کا نظام نچلے طبقے کے لیے سزا اور بالا طبقے کے لیے رعایت بن چکا ہے۔ یہاں قرض معاف ہوتے ہیں، لیکن فیسیں، دوائیوں اور آٹے کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ یہاں سبسڈی سرمایہ دار کی بھری ہوئی تجوریوں کے لیے ہے، لیکن مزدور اور کسان کی جھونپڑی کے لیے نہیں۔ یہاں ترقی ایک استعارہ ہے، جو میڈیا کے اشتہارات میں سجایا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

یہ خطہ گرم اور آلودگی کا شکار ہو رہا ہے، صرف موسمی لحاظ سے نہیں، بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی۔ یہاں زمین کی تپش بڑھ رہی ہے، لیکن حکمرانوں کے دلوں کی سرد مہری اور بے حسی ختم نہیں ہو رہی۔ یہاں سیلاب آتے ہیں، مگر انصاف کی بوند نہیں برستی۔ یہاں زلزلے گرجتے ہیں، لیکن طاقتوروں کے محل اپنی بنیادوں پر قائم رہتے ہیں۔

ڈیجیٹل دنیا میں بھی فاصلے کم نہیں ہوئے، وہ صرف بدل گئے ہیں۔ اب امیری اور غریبی اسکرین کے پکسلز میں چھپی ہے۔ ایک طرف ”آن لائن کلاس“ کا زمانہ ہے، دوسری طرف ایک باپ ہے جو اپنے بچے کے اسکول کی فیس دینے کے بجائے اپنا پرانا موبائل بھی بیچ دیتا ہے۔ یہ نئے دور کی ڈیجیٹل غلامی ہے۔

سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ دولت چند ہاتھوں میں ہے، بلکہ یہ ہے کہ اس نا انصافی پر ہر سو موت کی سی خاموشی ہے۔ اشرافیہ نے غریب کی محرومی کو اعداد و شمار میں بدل کر اس کا درد ہضم کر لیا ہے اور ہمیں اب کسی کی فاقہ کشی پر حیرت نہیں ہوتی، ہم کسی ماں یا باپ کی طرف سے بھوک سے بلکتے اپنے ہی بچوں کو مارنے کے بعد خودکشی کرنے کی خبر پڑھ لیتے ہیں اور اسکرول کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہم نے ناانصافی کو معمول بنا لیا ہے اور ہم بے حسی کو اوڑھ کر بے خواب نیند سو رہے ہیں!

یہی خاموشی اصل جرم ہے۔ یہ وہ مجرمانہ سکوت ہے جس نے ایشیا کو امیروں کا نیا کھیل کا میدان بنا دیا ہے، جہاں ہر غریب ایک ”مہرہ“ ہے اور ہر امیر ایک "کھلاڑی“ ۔۔
یہ کھیل شطرنج کا نہیں، سیاست کا ہے۔ جہاں چال ہمیشہ اشرافیہ کے ہاتھ میں رہتی ہے اور عوام بس بساط کے نیچے رکھی میز کی دھول بنتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ اس خطے کے ہر ملک کے عوام اپنی ترقی کے نعرے نہیں، اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔ اب انصاف کو جغرافیے سے نہیں، احساس سے ناپا جائے۔ اب دولت کے بجائے ضمیر کے گراف بنائے جائیں۔ اگر یہ دنیا واقعی ”جڑی ہوئی“ Wired ہے، تو اس کا درد بھی مشترک ہونا چاہیے، ورنہ یہ گرم ہوتی دنیا ایک دن اپنی حرارت میں خود جل جائے گی۔۔ اور راکھ میں صرف سوال بچیں گے:
کہ اتنی دولت کے باوجود انسان بھوک سے کیوں مرتے رہے؟ کہ ترقی کے اس سفر میں ہم نے اپنی روح کہاں کھو دی؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button