شہباز شریف کے بعد اب فیفا کے سربراہ جیانی انفانتینو بھی۔۔

ویب ڈیسک

شرم الشیخ کی گہما گہمی، ماحول میں کیمرے، فلیش لائٹس، سرکاری پروٹوکول۔ جب دنیا کے رہنماؤں نے امن کے دعووں کے ساتھ اسٹیج سجا رکھا تھا، اچانک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر روک کر پیچھے کھڑے پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو بلوا لیا۔ مائیک کے قریب قدم رکھتے ہوئے وہ مسکرائے اور کہا: ”جو آپ نے پچھلے دن مجھ سے کہا تھا، وہی بات یہاں بھی بتائیں۔“

شہباز شریف پھولے نہ سماتے ہوئے آگے بڑھے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریفوں کے دریا بہا دیے۔۔ ٹرمپ کے کردار کو امن کا ہیرو قرار دینا اور پھر نوبیل امن انعام کے لیے تعریفوں کے کٹے کھول دینا۔ اور وہ بھی بمع سیلیوٹ!

یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ وزیر اعظم صاحب اس سے پہلے بھی بارہا ٹرمپ کو امن انعام کے لیے تجویز کر چکے تھے، اتنی باقاعدگی سے کہ اگر نوبیل کمیٹی کے پاس ویٹنگ لسٹ ہوتی تو وہاں ان کی فائل شاید ”فاسٹ ٹریک“ پر رکھی ہوتی۔

اسی دوران امن کے میدان میں ایک اور طاقتور کھلاڑی اپنے اپنے انعام کے ساتھ ابھر رہا تھا: فیفا۔ جی ہاں، شہباز شریف اب اس خواہش کے ساتھ اکیلے نہیں رہے۔ اس اسٹیج ڈرامے کے بعد اب کھیلوں کے سب سے بڑے ادارے فیفا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا امن انعام واشنگٹن میں دے گا۔ امن کا تقاضہ یہاں اس قابلِ فروخت آئٹم میں بدلتا دکھائی دیتا ہے: اگر نوبیل نے انعام نہ دیا تو کوئی اور دے دے گا، اور اگر تعلقات مضبوط ہوں تو انعام یقینی۔

کہانی یہاں دلچسپ نہیں، عجیب ہو جاتی ہے۔

واشنگٹن کی سرد دسمبری ہوا میں ایک عجیب سا جوش تھا۔ کینیڈی سینٹر کے سنہری ہالوں میں اگلے ورلڈ کپ کا ڈراز ہونا تھا، مگر اس بار فٹبال سے زیادہ توجہ ایک ایسے انعام پر تھی جس کا امن سے اتنا ہی تعلق تھا، جتنا کرکٹ کا آئس ہاکی سے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ عرصے سے شکوہ کر رہے ہیں کہ انہیں نوبیل امن انعام نہیں ملا۔ بار بار اعلان کیا گیا، ”میں نے دنیا میں امن قائم کیا… بس نوبیل کمیٹی نے دیکھنا پسند نہیں کیا۔“

اور پھر ’انوکھے لاڈلے کی کھیلن کو مانگے چاند‘ کی خواہش پر فیفا کا دل بھر آیا اور اس نے اعلان کر دیا کہ اگلے ماہ وہ اپنا امن انعام دے گی۔

ایسوسی ایشن نے بدھ کے روز کہا کہ وہ اس انعام کو، جس کا باضابطہ نام ”فیفا پیس پرائز: فٹبال یونائٹس دی ورلڈ“ ہے، اگلے ماہ واشنگٹن میں پیش کرے گی۔ یہ انعام 5 دسمبر کو کینیڈی سینٹر میں اگلے سال کے ورلڈ کپ کے ڈراز کے دوران دیا جائے گا۔ مسٹر ٹرمپ، جنہوں نے فیفا اور اس کے سربراہ جیانی انفانتینو کے ساتھ غیر معمولی طور پر قریبی تعلقات قائم کیے ہیں، نے کہا ہے کہ وہ اس تقریب میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں۔

فیفا نے ایک بیان میں کہا کہ ”یہ ایوارڈ ان افراد کو دیا جائے گا جنہوں نے امن کے لیے غیر معمولی اور قابلِ ذکر اقدامات کیے ہیں اور اس کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کو متحد کیا ہے۔“

وائٹ ہاؤس کے حکام نے اس بارے میں تبصرہ کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ فیفا کی جانب سے اس اعلان کے موقع پر ٹرمپ نے جو سرخ کیپ پہن رکھی تھی، اس پر 45 اور 47 لکھا ہوا تھا، کچھ دل جلے اسے پاکستانی تناظر میں فارم پینتالیس اور سینتالیس سے جوڑ رہے ہیں۔

فیفا کے اس نئے انعام کے اعلان سے صرف ایک ماہ قبل، مسٹر ٹرمپ نوبیل انعام کی کوشش میں ناکام ہوئے تھے۔ وہ اور ان کے حامی اکثر یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ اس کے مستحق ہیں۔ گویا اگر نوبیل کمیٹی نے سنا نہیں، تو فیفا تیار ہے۔ امن رہے نہ رہے، انعام بھرپور ملے گا۔

یہ کہانی ایک انعام، ایک خواہش اور ایک کھوکھلی عزت کے گرد گھومتی ہے، جسے ہم عرفِ عام میں نوبیل امن انعام کہتے ہیں، مگر اب لگتا ہے کہ اس کی اہمیت بھی شاید باقی انعامات کی طرح بس رسمی کارروائی رہ گئی ہے۔ نوبیل انعام؟ اس کی اہمیت اب کم از کم اتنی رہ گئی ہے کہ لوگ اس کا متبادل خود بنا رہے ہیں۔

فیفا کے سربراہ جیانی انفانتینو اور صدر ٹرمپ کے تعلقات معمول کے تعلقات نہیں ہیں۔ یہ تعلقات سرکاری ملاقاتوں سے آگے جاتے ہیں۔

مسٹر انفانتینو، جو پہلے بھی مسٹر ٹرمپ کو مختلف تحائف اور اعزازات دے چکے ہیں، نے اُس وقت توجہ حاصل کی جب انہیں وائٹ ہاؤس کی طرف سے مصر کے دورے پر مسٹر ٹرمپ کے ساتھ مدعو کیا گیا، یہ دورہ غزہ میں ’جنگ بندی کے معاہدے‘ کے بعد ہوا تھا۔ دونوں شخصیات کے تعلقات وقت کے ساتھ مزید گہرے ہو گئے ہیں، اور مسٹر انفانتینو نے ٹرمپ کے کئی دوروں میں ساتھ دیا ہے، جن میں گزشتہ ہفتے ملائیشیا میں ایشیائی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت بھی شامل ہے۔

مسٹر انفانتینو وائٹ ہاؤس کے باقاعدہ مہمان بھی رہے ہیں۔ ایک دورے کے دوران انہوں نے مسٹر ٹرمپ کو ورلڈ کپ کی ٹرافی کی صرف تین سرکاری نقلوں میں سے ایک تحفے میں دی — اگلے سال یہ ورلڈ کپ امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کی مشترکہ میزبانی میں ہو رہا ہے۔

اسی دورے کے دوران، اگست میں، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ورلڈ کپ ڈراز، جس میں کوالیفائی کرنے والی ٹیموں کو گروپ مرحلے کا شیڈول دیا جاتا ہے، واشنگٹن میں منعقد ہوگا۔ یہ اچانک تبدیلی تھی، کیونکہ فیفا اس تقریب کے لیے کئی ماہ سے لاس ویگاس میں انتظامات کر رہی تھی۔

مسٹر انفانتینو نے اپنے ٹرمپ سے قریبی تعلق کو فیفا کے ورلڈ کپ منصوبوں کے لیے ”انتہائی اہم“ قرار دیا ہے۔ یہ تعلق فٹبال سے آگے بڑھ کر ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت کے اہم واقعات تک جاتا ہے، جن میں ابراہام معاہدے کی دستخطی تقریب بھی شامل ہے، جس سے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ مسٹر انفانتینو اس تقریب میں بھی شریک تھے۔ وہ جنوری میں ٹرمپ کی حلف برداری میں بھی موجود تھے۔

تاہم، مسٹر انفانتینو کی صدر سے یہ قربت اس سوال کو بھی جنم دیتی ہے کہ آیا فیفا اپنے سیاسی غیر جانبداری کے اصولوں پر قائم ہے یا نہیں۔ فیفا کئی مواقع پر مختلف ملکوں کی فٹبال فیڈریشنز کو حکومتی اثر انداز ہونے کے خدشات پر معطل کر چکا ہے۔

واضح رہے کہ جب ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام نہیں ملا تو ان کے ترجمان نے کہا تھا، ”نوبیل کمیٹی امن نہیں، سیاست کو ترجیح دیتی ہے۔“ اور اسی جملے کے فوراً بعد فیفا کا امن انعام سامنے آگیا۔

اب سوال یہ نہیں کہ دنیا میں امن ہے یا نہیں؟ سوال یہ ہو چکا ہے کہ امن انعام کس کے پاس ہے؟

آج کے عالمی منظرنامے میں کچھ نکات بڑے واضح ہوچکے ہیں۔ فیفا جیسے ادارے جب امن انعام دینے لگیں تو سمجھ آ جاتا ہے کہ دنیا بدل چکی ہے۔

نوبیل امن انعام کی معنویت اب شاید وہ نہیں رہی۔ اب یہ صرف ایک انعام رہ گیا ہے، جس کے مقابلے میں نئے نام اور نئے ایوارڈ میدان میں آ رہے ہیں۔

فیفا کا اپنا اصول ہے کہ وہ سیاست سے دور رہتی ہے، لیکن اب وہ امن انعام دے رہی ہے، عالمی رہنماؤں سے خاص تعلق رکھتی ہے، اور ورلڈ کپ کا ڈراز بھی سیاسی مرکز واشنگٹن میں کر رہی ہے۔ نوبیل امن انعام سیاست سے پاک سمجھا جاتا تھا، مگر اب لگتا ہے کہ امن کی تعریف بدل چکی ہے۔

فیفا اپنا امن انعام واشنگٹن میں دے گی۔ ٹرمپ وہاں ہوں گے۔ انفانتینو وہاں ہوں گے۔ اور شاید کہیں دور… پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف ٹی وی پر دیکھ کر مسکراہ رہے ہوں گے کہ: ”میں نے پہلے ہی کہا تھا، انہیں انعام ملنا چاہیے!“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button