گُگھر کی قیمتی رال، ماحول دشمنوں کے منہ سے بہتی لالچ کی رال اور عالمی تحفظ کی کہانی

ویب ڈیسک

کارونجھر اور کھیرتھر کے پتھریلے دامن میں اگنے والی ایک خاموش، کانٹوں بھری جھاڑی، گُگھر یا گگرال آخرکار دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ وہ پودا جس کی رال صدیوں سے حکما، ویدوں اور دوا سازوں کے لیے خزانے سے کم نہیں تھی، اب عالمی قانون کے حصار میں آ چکا ہے۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 2020 کے تحت محفوظ قرار پانے کے بعد، گُگھر کو کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن اینڈینجرڈ اسپیشیز (CITES) کی ضمیمہ دوم میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ محض ایک کاغذی کارروائی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے سفارتی، ماحولیاتی اور سائنسی سطح پر ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ پیش رفت ازبکستان کے تاریخی شہر سمرقند میں منعقد ہونے والی CITES کی کانفرنس آف دی پارٹیز کے بیسویں اجلاس میں سامنے آئی۔ پس منظر میں پاکستانی وفد کی وہ مسلسل اور مؤثر سفارتی کوششیں تھیں جنہوں نے عالمی فورم کو قائل کیا کہ گُگھر کو مزید نظرانداز کرنا اس کے مکمل خاتمے کے مترادف ہوگا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سے قبل جرمنی کی جانب سے پیش کی گئی اور یورپی یونین کی حمایت یافتہ تجویز دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکی تھی، مگر پاکستان کی نظرِثانی شدہ درخواست، مضبوط شواہد اور ماحولیاتی دلائل نے بازی پلٹ دی۔

حکام اس فیصلے کو عالمی سطح پر پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق CITES میں شمولیت سے گُگھر کی غیرقانونی تجارت پر قابو پانے میں مدد ملے گی—وہ تجارت جو گزشتہ برسوں میں خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی، خاص طور پر اس کے بعد جب بھارت نے راجستھان میں اس پودے کی قدرتی آبادی سے رال نکالنے پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ نتیجتاً مانگ بڑھی اور اسمگلنگ کے نیٹ ورک مزید متحرک ہو گئے۔

سندھ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے بقول، CITES ضمیمہ دوم تجارت پر مکمل پابندی نہیں لگاتا، مگر اسے شفاف اور قابلِ سراغ بنانے کے لیے ایک سخت سائنسی نظام نافذ کرتا ہے۔ اب ہر ترسیل کے ساتھ معیاری CITES اجازت نامہ لازم ہوگا، جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ رال کہاں سے حاصل کی گئی، کن طریقوں سے نکالی گئی اور کن مراحل سے گزر کر عالمی منڈی تک پہنچی۔

رال کی قیمت اور لالچ کی کہانی

گُگھر یا گگرال ایک خودرو جنگلی جھاڑی ہے جو عموماً چار سے پانچ فٹ اونچی ہوتی ہے، لیکن اگر قدرتی حالت میں چھوڑ دی جائے تو درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس سے نکلنے والی قدرتی رال، جسے مقامی زبان میں “گگر” کہا جاتا ہے، مارکیٹ میں دو سے ڈھائی ہزار روپے فی کلو تک فروخت ہوتی ہے اور زیادہ تر برآمد کی جاتی ہے۔

ضلع تھرپارکر کے تقریباً 20 ہزار مربع کلو میٹر رقبے میں دو لاکھ 39 ہزار ایکڑ اراضی جنگلات پر مشتمل ہے، جہاں روہیڑو، ببول، کونبھٹ، پھوگ، کنڈی اور گگرال سمیت درجنوں درخت اور سیکڑوں جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ مگر ان سب میں گگرال وہ پودا ہے جو سب سے تیزی سے کم ہو رہا ہے۔

باٹنی کے پروفیسر عبدالجلیل جونیجو کے مطابق اس پودے کا بوٹینیکل نام Commiphora mukul (یا Commiphora wightii) ہے اور یہ صحرائی اور پتھریلے علاقوں میں پروان چڑھتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قدرتی طریقے سے رال آہستہ آہستہ اور کئی دنوں کے وقفے سے نکلتی ہے، مگر لالچ نے اس قدرتی عمل کو برباد کر دیا۔

پندرہ بیس برس قبل کچھ لوگوں نے بیوپاریوں کے ساتھ مل کر کارونجھر کی پہاڑیوں میں گگرال کو آکسی ٹوسن کے انجیکشن لگانا شروع کیے، وہی ٹیکہ جو شہروں میں دودھ فوری نکلوانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک دن ٹیکہ، دوسرے دن ساری رال باہر۔ بعد ازاں اس عمل میں مزید خطرناک کیمیکل شامل کیے گئے، حتیٰ کہ آکسی ٹوسن میں کیلشیم کاربائیڈ اور اینٹی بایوٹک انجیکشن ملا کر درخت میں سوراخ کے ذریعے داخل کیا جانے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رال تو دو دن میں نکل آتی، مگر درخت چھ سے آٹھ ماہ میں سوکھ جاتا۔

یوں چند افراد کی لالچ نے صدیوں میں اگنے والی اس جھاڑی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

گگرال کی طبی افادیت ہی اس کے لیے خطرہ بن گئی

سائنس ڈائریکٹ جیسے تحقیقی جرائد کے مطابق گگر کو ہزاروں سالوں سے ہائپرکولیسٹرولیمیا، شریانوں کے سخت ہونے، گٹھیا، موٹاپے، جلدی امراض، حتیٰ کہ کینسر اور پیشاب کی بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق بھی اس کے اینٹی آکسیڈنٹ، اینٹی انفلامیٹری اور دل و جگر کے تحفظ سے متعلق اثرات کی تصدیق کرتی ہے۔

مگر یہی افادیت اس کی سب سے بڑی کمزوری بن گئی۔ محکمہ جنگلات کے اندازوں کے مطابق کبھی تقریباً ایک لاکھ ایکڑ پر پھیلا گگرال اب صرف 40 سے 45 ہزار ایکڑ تک محدود رہ گیا ہے۔ کوئی باقاعدہ سروے یا اراضی کا مکمل ریکارڈ بھی موجود نہیں، جس نے مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

عالمی ادارے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) نے 2010 میں گگرال کو نایاب قرار دیا تھا، اور اب اسے ریڈ لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے—یعنی اس کے معدوم ہونے کا حقیقی خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔

اسی پس منظر میں CITES میں شمولیت ایک امید کی کرن ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ اب گگرال کی رال صرف منڈی کی چیز نہیں رہے گی، بلکہ اس کے حصول، تجارت اور برآمد پر عالمی نگرانی ہوگی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ ضابطہ کاری مؤثر طریقے سے نافذ ہو گئی تو بچی کھچی آبادی کو سنبھلنے کا موقع مل سکتا ہے۔

کارونجھر اور کھیرتھر کی پہاڑیوں میں اگنے والی یہ جھاڑی شاید خود اپنی کہانی نہ سنا سکے، مگر اب اس کے حق میں عالمی قانون بول رہا ہے۔ یہ صرف ایک پودے کی نہیں، بلکہ ایک پورے ماحولیاتی نظام، مقامی دانش اور ذمہ دار مستقبل کی جیت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button