کل(2018 -02-09) جب کراچی پریس کلب کے سامنے انڈیجینس رائیٹس الائینس کراچی کا بحریا ٹاؤن کے خلاف مظاھرہ ھو رھا تھا، تو اسی دن ھمارے ایک دوست محمد خان داؤد، جو کالمسٹ ھیں، نے ایک ایسی پوسٹ رکھی، جو پڑھنے کے بعد سوچتا رھا کہ ایک طرف ھر سو بحریا ٹاؤن جیسے بھڑیئے کے خلاف خاموشی ھے، ھمارے منتخب نمائندے اپنے عہدے اور سیٹیں بچانے کے لئے خاموش ہیں، ایسے وقت میں بحریا کا راکاس ھماری زمین، ھمارے قبرستان، ھمارے گوٹھ، چراگاھیں ،تاریخی آثار، ندی نالے، پانی کی گذرگاھوں پر قبضہ کر رھا ھے، ھمارے قائدین چھوٹے چھوٹے عہدے ملنے پر مبارکبادیں دے اور وصول کر رھے ھیں، ان کو اب ھوش آنا چاھئے کہ یہ عہدے اور پاور ان غریب لوگوں کے وجہ سے ھے، جو اب دربدر ھو رھے ھیں.
ان لیڈروں سے تو ھم نے اب گلہ کرنا ہی چھوڑ دیا ھے، لیکن اپنے آپ کو ملیر کا ھمدرد کہنے والے، ترقی پسند سوچ رکھنے والے ،اپنے کالموں میں ملیر کا رونا رونے والے، جن سے ھم جیسے ان پڑھ بہت کچھ سیکھنا چاھتے ھیں، ان کی بتائی ھوئی راہ پر چلنا چاھتے ، وہ اگر یہ لکھیں کہ "آج کراچی پریس کلب پر ملیر کے مجرم جمع ھو رھے ہیں اور بحریا ٹاون تو بن گیا اب احتجاج کا کیا فائدہ..” تو محمد خان دائود! (جس کو میں پیار سے مائٹ بولتا ھوں) یہ باتیں آپ جیسے ترقی پسند لکھاری کو شوبھا نہیں دیتیں.
آپ کہہ رھے ہیں کہ "بہت دیر کے بعد ان کو ملیر کا خیال آیا”
دوست، افسوس ھوتا ھے، شاید آپ کو ھماری جدوجہد کی تاریخ پتا نہیں یا پھر آپ یہ باتیں کر کے مایوس قوم کو مزید مایوسی کے غار کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ آپ کا یہ عمل دانستہ یا نا دانستہ طور پر بحریا کو فائدہ دے رھا ھے۔ آپ ھمیں (میں انڈیجینس رائیٹس الائینس کراچی کی بات کرتا ھوں) اور ملیر کے سیاستدانوں کو ایک ھی لاٹھی سے ہانک رھے ھیں ۔اس لئے کہ شاید آپ کو ھماری جدوجہد کا علم نہیں یا علم ھوتے ہوئے بھی جان بوجھ کر ایسا کر رھے ھیں، اگر آپ کو ھمارے چہرے اور ٹوپیاں پسند نہیں تو ھم کیا کر سکتے ھیں ۔ آپ اس ملیر کے باسی ہیں ، اس کو بچانے کے لئے آپ نے کیا کیا ھے؟
آپ ھمیں چھوڑیں، آپ باھر نکلیں اور کچھ کریں.. کیونکہ ھم دو بندے تھے، محنت کی اور یوں یہ قافلہ بنتا گیا، ھم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ھم نے بڑے تیر مارے ہیں لیکن ناموافق حالات اور خالی جیب سے ھم نے اس اشو کو لوگوں، میڈیا اور سول سوسائٹی تک پہنچایا، لوگوں میں ایک خوف تھا جو ھم نے ختم کیا ، اپنی نوکری، صحت کی پرواہ نہ کرتے ھوئے تمام ساتھیوں نے گرمی ، دھوپ اور دھول میں متاثرین کے ساتھ کھڑے رھے، اگر یہی ہمارا جرم ہے، جس کے لئے ھم مجرم ٹھہرے ہیں تو یہ جرم ھم کرتے رھیں گے.. اے سی کے یخ بستہ کمروں میں بیٹھ کر تنقید کرنا آسان ھے، گرمی اور دھول میں نکلنے سے شاید تنقید کاروں کا رنگ کالا ھوگا.. محمد خان سائیں، جس طرح آپ کو اپنی صحت، اپنے بچے، اپنی نوکری اپنے پیسے عزیز ھیں، ھم بھی انسان ہیں ، ھمارے اس ٹیم میں اکثر چھوٹی نوکریوں والے لوگ ہیں، جن کی جیبیں مہینے کی پانچ تاریخ کو ہی خالی ھو جاتی ہیں، لیکن وہ جدوجہد میں مصروف رھے، کسی بھی پروگرام کے لئے کسی کے سامنے ھاتھ نہیں پھیلائے ، جو کچھ بھی کیا اپنی خالی جیبوں کی طرف دیکھ کر کیا۔ آج تک ھم نے انہی حالات میں مختلف علاقوں میں بارہ احتجاجی پروگرام کیئے، شہر کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے اور مسقبل کے خطرات سے آگہی کے لئے ھم نے کراچی یونیورسٹی ، حبیب یونیورسٹی ، پائلر، ارتقا، سندھ پروگریسیو کامیٹی ، سندھ سیو کامیٹی، حیدرآباد سول سوسائٹی کے تعاون سے مل کر دس سمینار کرائے ہیں، ریلیاں نکالی ہیں، مختلف ٹی وی چینلز جن میں مہران، ڈان ، سچ، عوامی آواز، وش شامل ہیں، بحریا کی قبضہ گیری کے خلاف ٹاک شوز میں اپنا موقف پیش کیا ، ھمارے دوستوں نے ڈان اخبار کے ٹیم، عوامی آواز کی ٹیم ، سچ ٹی وی کی ٹیم، آواز ٹی وی کی ٹیم، بزنس پلس ٹی وی کے ساتھ گرمیوں میں چھپتے چھپتے متاثرہ گوٹھوں اور علاقوں دورے کئے، یہ سب کچھ ھم نے اپنے خالی جیبوں سے کیا۔ آپ سمیت کسی سے ایک روپیہ نہیں لیا، ھم نےایک اے،پی،سی بھی منعقد کی اپنی خالی جیبوں سے.. ھم کراچی پریس کلب میں دو پریس کانفرنس کر چکے ہیں. پھر بھی آپ جیسے تنقید نگار یہ لکھتے نہیں تھکتے کہ ھم نے کچھ نہیں کیا ھے، ھم مجرم ہیں ، ھاں یوسف مستی خان، عثمان بلوچ، ڈاکٹر رخمان گل پالاری، خالق جونیجو، سید خدا ڈنو شاھ، جمال ناصر، ڈاکٹر ریاض احمد، کامریڈ نغمہ، حفیظ آدرش، بلال کلدانی، امر گل، نواز جوکھیو، نواز تبدیلی پسند، سامی میمن، حمزو پنھور، الھی بخش بکک، شعیب بکک، فرید بکک، حیدر شاھ، یونس خاصخیلی، اسد بٹ، کامریڈ کلیم درانی، غلام رسول بلوچ، اللہ دین پالاری ، علی محمد مستوئی، ایڈوکیٹ ابوبکر میمن، انور میمن ، طالب کچھی، سعید بلوچ، کامریڈ واحد بلوچ ، شجاع قریشی ھم سب مجرم ہیں کیونکہ ھم نے خالی ھاتھ اور خالی جیب صرف اپنے حوصلے سے بحریا جیسی بھیڑیے سے ٹکر لی ھے، ھاں ھم مجرم ہیں متاثرہ لوگوں کی طرف ساتھ نہ دینے پر بھی ان کی بات کرتیں ہیں، ھاں مجرم ہیں اس لیئے کہ ھم جھکے نہیں ھم بکے نہیں
محمد خان دائود صاحب، فیض محمد گبول جو اب ھم سب کا آئیڈیل ھے، فیض گبول کو گمنامیوں سے نکالنے والے بھی ھمارے ساتھی تھے، یہ ھم تھے جنہوں نے اس بوڑھے شیر کو حوصلہ دیا، ھم نے تو نچ کر بھی یار منانے کی کوشش کی، ھمارے لوگ جو مظاہروں میں کم آتے ہیں، اس لیے ھم نے کونکر میں تحریک نسواں کے شیما کرمانی سے مل کر تھیٹر کیا، گانے کا بندوبست کیا، فیض گبول کو ایک جلوس کی شکل میں ھم پنڈال میں لائے، ان سب کے لیئے آپ کو پتہ ھونا چاھئیےکہ پیسہ درکار ھوتا ھے، ھم نے کسی سے چندہ نہیں کیا اور ھر پروگرام کی طرح اس بار بھی اپنی خالی جیبوں کو ٹٹولا. آپ کی ملیر کے صحافیوں پر تنقید بجا، ھم بھی لینڈ گریبر صحافیوں کے خلاف ہیں، جو راؤ انوار کے تبادلے پر شرمندہ ھوتے ہیں. جب راؤ انوار کو ھٹایا جاتا ہے تو ان کچھ صحافیوں کے گھروں میں ماتم ھوتا ھے، ھم بھی ان خلاف ہیں، لیکن سب کو ایک لاٹھی سے ھانکنا اچھا نہیں ، اس جدوجہد میں سامی میمن حمزہ پنھور اور مرحوم سلطان شاھ جیسے ملیر کا درد رکھنے والے ملیر کے صحافی ھمارے ٹیم کا حصہ ہیں۔
جہاں تک میری کراچی پر لکھی گئی ضخیم کتاب کا تعلق ھے، جسے آپ نے گدھے پر لاد کر لانے کی بات کی ، میرے ان دس سالہ محنتوں پر ایک طنز ھے ، جو میں نے اپنی بینائی، اپنی جوانی کے دن قربان کر کے کراچی کی گلیوں کی خاک چھان کر، مٹی، دھول، گرمی اور سردی کی پرواہ کیئے بنا میں نے کراچی کی گمشدہ تاریخ محفوظ کی اور آپ کا یہ ایک جملہ اس تاریخ کے ساتھ مذاق ھے.. میری تو ابھی تکھن نہیں اتری ھے، بجائے حوصلہ افزائی کے آپ تیروں کے نشتر برسا رہیں ہیں. تنقید آپ کا حق ھے، میں کوئی مقدس گائے نہیں ھوں کہ مجھ پر یا میری کتاب پر کوئی تنقید نہ کرے، لیکن تنقید اور طنز میں فرق ھونا چاہیئے. میں ھر ایک کی تعمیری تنقید کو خوش آمدید کہتا ھوں.
سو میرے بھائی، اپنے خول سے باھر نکلو، دنیا جدوجہد کا نام ھے، اگر آپ کو ھمارے چہرے اور ٹوپیاں اچھی نہیں لگتیں ، ھمارے خالی جیبوں کی جدوجہد آپ کو اچھی نہیں لگتی تو جدوجہد کا اپنا راستہ چنو، خاموش مت رھو، اگر کوئی بات ناگوار گذری ھو تو معافی کا طلبگار ہوں
آخر میں چلی کے انقلابی شاعر پابلو نرودا کی ایک نظم نقل کرنا چاہوں گا
( خاموش موت )
تم خاموش موت مر رہے ہو۔۔۔۔
اگر تم سفر نہیں کرتے۔۔۔۔
اگر تم پڑھتے نہیں ہو۔۔۔۔
اگر تم زندگی سے لطف نہیں لیتے۔۔۔۔
اگر تم اپنے آپ سے محبت نہیں کرتے۔۔۔۔
تم خاموش موت مر رہے ہو۔۔۔۔۔
اگر تم نے اپنی خود اعتمادی مار دی ہو۔۔۔۔۔
اگر تم دوسرے کو اپنے دکھ میں شریک نہیں کرتے۔۔۔
تم خاموش موت مررہے ہو۔۔۔۔۔
اگر تم اپنی عادات کے غلام ہو۔۔۔۔۔
اگر تم روز ایک ہی راہ پر چلتے ہو۔۔۔۔۔
اگر تم اپنا دستور نہیں بدلتے۔۔۔۔۔
اگر تم الگ رنگ نہی پہنتے۔۔۔۔۔
یا تم اجنبیوں سے مخاطب نہیں ہوتے۔۔۔۔۔
تم خاموش موت مر رہے ہو۔۔۔۔۔
جب جذبات سے بھاگتے ہو۔۔۔۔۔
اور احساس کی ہنگامہ خیزی سے۔۔۔۔۔
وہ جن سے آنکھیں چمک جائیں۔۔۔۔۔
اور دل کی دھڑکن تیز۔۔۔۔۔
تم خاموش موت مر رہے ہو۔۔۔۔۔
جب زندگی کو بدلنا نہ چاہو۔۔۔۔۔
جب روزگار و محبت میں تسکین نہ ہو۔۔۔۔۔
جب تم خطرہ نہیں اُٹھاتے محفوظ غیر یقینی کا۔۔۔۔۔
جب تم اپنے خوابوں کا تعاقب نہیں کرتے۔۔۔۔۔
جب زندگی میں بس ایک بار عقل کے مشورے سے پلٹے نہ ہو۔۔۔۔۔
تم خاموش موت مر رھے ھو۔۔۔
ذرائع : http://gulhassankalmatti.blogspot.com/