بلوچ کلچر ڈے کو اس سال مختلف تنظیموں کی طرف سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے ساھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا گیا. اس سلسلے میں بلوچستان بھر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی گئیں
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی جانب سے 2 مارچ بلوچ کلچر ڈے کی مناسبت سے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ریلی کی شکل میں اظہار ہمدردی و یکجہتی کیا گیا. اس سلسلے میں کراچی پریس کلب پر ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگائی گئی
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ احتجاج جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے اسلام آباد میں جاری احتجاج کی حمایت اور اظہار یکجہتی کے لیے کیا جا رہا ہے
مظاہرے میں کئی لاپتہ افراد کے اہل خانہ بھی شریک تھے. انہوں نے روتے ہوئے مطالبہ کیا کہ خدارا یہ ظلم بند کیا جائے اور ان کے پیاروں کو آزاد کیا جائے
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے رہنماؤں نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ جبری بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین پچھلے پانچ دنوں سے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر احتجاج پہ بیٹھے ہیں، جس میں دس سے زائد بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج پہ بیٹھے ہوئے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پچھلے کئی سالوں سے جبری طور پر اٹھا کر غائب کیے جا چکے ہیں، ملکی اور غیر ملکی ادارے انسانی حقوق کی تنظیمیں اس غیر انسانی عمل کے خلاف کوئی مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، ہزاروں گمشدگاں میں سے اگر کچھ بازیاب ہو جاتے ہیں تو اگلے دنوں اس سے زیادہ لوگ اٹھا کر غائب کر دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جو نام نہاد کیمشن بنایا گیا ہے اس کی کارکردگی بے نتیجہ ہے اور اس میں جتنے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین پیش ہوتے آ رہے ہیں ان لواحقین کے ساتھ کیمشن کے لوگوں کا رویہ بھی انتہائی غلط اور ناقابل قبول رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اٹھا کر غائب کرنا اور انہیں سالوں سے جبری گمشدہ کرنا ایک انتہائی غیر انسانی اور ان کے خاندان کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے، جس درد اور کرب سے وہ خاندان سالوں سے گزر رہے ہیں شاید کوئی اس کا اندازہ نا لگا سکے
مظاہرے میں کراچی کے رہنے والے بلوچوں سمیت دوسری اقوام کے لوگوں، سول سوسائٹی، سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور کارکنان کی بڑی تعداد شریک تھی.