آموں کے لیے مشہور ہندستان کے شہر ملیح آباد کے اکیاسی سالہ حاجی کلیم ﷲ خان کو ’’آم آدمی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے آم کے ایک درخت پر بیک وقت تین سو الگ الگ اقسام کے آم اُگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے
اس کارنامے پر انہیں بھارتی حکومت کی جانب سے 2008ع میں ’’پدماشری‘‘ اعزاز بھی دیا جاچکا ہے
حاجی کلیمﷲ خان بتاتے ہیں کہ سات اقسام کے آم دینے والا ایک درخت وہ 1957ع میں اس وقت اُگا چکے تھے، جب وہ خود 17 سال کے تھے اور ساتویں جماعت میں فیل ہونے کے بعد اپنے پشتینی باغ میں آموں کی کاشت سے کل وقتی طور پر وابستہ ہو چکے تھے
’’بدقسمتی سے وہ درخت سیلاب کی نذر ہوگیا،‘‘ کلیمﷲ خان نے کہا
آئندہ تیس سالہ تک آم کی کاشت میں تجربہ اور نمایاں مقام حاصل کرنے کے بعد، 1987ع میں انہوں نے ایک بار پھر اپنے لڑکپن کے اس ادھورے منصوبے کو مکمل کرنے کی ٹھان لی، جو سیلاب میں بہہ گیا تھا
تاہم اب کی بار انہوں نے اپنے پشتینی باغ میں آم کے ایسے درخت کا انتخاب کیا، جو 100 سال پرانا اور بہت بڑا تھا
وہ الگ الگ اقسام والے آموں کے درختوں کی شاخیں کاٹ کر انہیں قلموں کی شکل دیتے اور اس درخت کی کسی نہ کسی شاخ پر لگا دیتے
وہ اوسطاً ہر مہینے اس درخت میں ایک نئی قسم کی قلم کا اضافہ کردیتے اور یوں بالآخر تقریباً پچیس سال میں وہ درخت ایک ہی وقت میں 300 سے زائد اقسام کے آم دینے کے قابل ہوگیا، جسے بھارت کی ’’لمکا بُک آف ریکارڈز‘‘ میں بھی درج کر لیا گیا
آج یہ درخت اتنا بڑا ہوچکا ہے کہ اس کے سائے تلے 15 افراد بہت آرام سے پکنک منا سکتے ہیں جبکہ اس کی ہزاروں شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں
آموں سے اپنے اسی عشق اور آموں کی کاشت میں غیرمعمولی مہارت کی بناء پر ہی لوگ حاجی کلیمﷲ خان کو ’’آم آدمی‘‘ کے نام سے جانتے ہیں
بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ کلیمﷲ خان کا یہ کارنامہ صرف نمائشی ہے، جس کا کوئی مالی فائدہ نہیں۔ لیکن دیگر افراد کہتے ہیں کہ ہر چیز کا فائدہ پیسے کے ترازو میں تولا نہیں جانا چاہیے
واضح رہے کہ ایک درخت پر کئی اقسام کے آم اُگانا، دنیا بھر میں آم کے کاشتکاروں کا پرانا مشغلہ ہے، جبکہ ایک درخت پر تین سے چار اقسام کے آموں کی پیداوار بہت عام سی بات ہے.