عذابِ آگہی

افسانہ: مشتاق رسول

وہ مین روڈ پر رکشے سے اتر کر پیدل اپنے گوٹھ کی طرف جا رہا تھا، اس کا گوٹھ مین  روڈ سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑے گوٹھ کے بعد آتا تھا.. چاند کی آخری تاریخیں تھیں، چاند اماوس کے گھونگھٹ میں اور نظروں سے اوجھل تھا اور جھینگر خاموشی کی تھاپ ہر اس کے سہرے گا رہے تھے، گپ اندھیرا جوبن کی مستی میں انگڑائیاں لے رہا تھا..
 
وہ اِس وقت اپنے ہاتھ میں ایک رسالہ اور کچھ کتابیں لیے جس گاؤں کی طرف جا رہا تھا، وہ گاؤں اس کا اپنا تھا، لیکن اس کے باوجود بھی  وہ اپنے اس گاؤں میں ہمیشہ ایک اجنبی اور ایک مسافر کی طرح ہی رہا…

 

وہ  الفاظ اور اظہار سے محبت رکھنے والا ایک شخص تھا، جس کے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر چسپاں تھی. 
اسے علم سے ہمیشہ سے ہی عشق تھا، اُس پر اِس عشق کا یہ رنگ کب چڑھا، یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا.. اسے جہالت کے اندھیرے سے ہمیشہ نفرت رہی، لیکن اس نفرت کی ساری وجہیں اسے پتہ تھیں.
اپنے کندھوں ہر اسے ہمیشہ اپنے آس پاس سے مختلف ہونے کا بوجھ ڈھونا پڑا تھا. جب اس کے ہم عمر کھیل تماشوں میں مشغول رہتے تھے، وہ    تعلیمی سیمیناروں، جلسوں، ادبی تقاریب اور مشاعروں میں جاتا تھا..
 

 

چلتے ہوئے وہ جب راستے میں پڑنے والے پہلے گوٹھ پہنچا تو کافی دیر ہونے کی وجہ سے  سڑک کے کنارے ہوٹل اور دکانیں بند ہو چکیں تھیں۔ ہوٹل اور دکانوں کے باہر لگے بلب روشن تھے، جس سے اردگر کے ماحول میں اسے سب کچھ  صاف دکھائی دے رہا تھا. بند ہوٹل اور دکانوں کے سامنے حسبِ معمول  آج بھی کچھ نوجوان الگ الگ ٹولیوں میں بیٹھے تھے.. یہ وہ نوجوان تھے جو اکثر رات کو جاگتے اور دن کو سوتے ہیں۔ وہ چلتے ہوئے ان نوجوانوں کا جاٸزہ لے رہا تھا، جو سمارٹ فون ہاتھوں میں لیے نیٹ پر اپنی مطلب کی چیزیں دیکھنے میں مشغول تھے اور کچھ نوجوان  واہیات ویڈیو سن کر زور زور سے ہنس رہے تھے، ان میں سے ایک دو سڑک سے دور موباٸل پر رازداری میں بات کرتے ہوئے بھی دکھاٸی دے رہے  تھے..
 
اس نے ان نوجوانوں کے بارے میں ہمیشہ فکرمندی سے سوچا تھا، لیکن بدقسمتی سے حالات اس کی دسترس میں نہیں تھے.. ایک دن اس کے دوست بشارت نے ان نوجوانوں کے متعلق کہا تھا  ”شیطانی قوت نے جہالت کا بیج ان نوجوانوں کی سوچ کی گہراٸیوں میں  بو دیا ہے.. یہ بہرے اور اندھے بن چکے  ہیں… ان کے سامنے شعور کی بات کرنا اندھوں کے بازار میں آٸینہ بیچنے کی طرح ہے“
اپنے دوست بشارت کی اِس بات کے جواب میں اُس نے کہا تھا ”تو تمہارے خیال میں ہم اس گندے واٸرس سے نظریں پھیر لیں؟ جو ان نوجوانوں کے ذہنوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا  ہے
بشارت نے جواب دیتے ہوۓ کہا تھا ”نہیں نہیں. میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے.. اگر ہم نے اس شیطانی سازشی واٸرس پر توجہ نہیں دی، تو اس واٸرس سے مرنے والے نوجوانوں کی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن معاشرے کو ایک ایسی جگہ بنا دے گا، جو رہنے کے قابل تک نہ رہے گی“
”کیا اس وائرس کے لیے کسی نظریے کی ویکسین موجود ہے“
بشارت نے اس کے سوال پر زور سے ہنس کر کہا تھا ”ہاں ہے…. لیکن اس کا اثر اتنی جلدی نہیں ہوتا، یہ ویکسین آہستہ آہستہ اثر دکھاتی ہے.. اس سماجی واٸرس کی وبا کو دیکھتے ہوئے  ہمارے گوٹھ کے کچھ نوجوان ٹیوشن سینٹر کی ابتدا کر رہے ہیں.. جہاں اسٹڈی سرکل اور دیگر صحتمند ذہنی سرگرمیاں بھی ہونگی،  ہمیں ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ ایسے ہی عمل  اس واٸرس کا علاج ہیں“
ہاں بلکل، اس نے بشارت کی بات کو آگے بڑھاتے ہوۓ کہا ”اس ضمن میں ہمیں ماسٹر  محمد علی اور  ماسٹر اللہ ڈنو اور وہ دوست جو  ادب سے وابستہ ہیں، ان سب کے ساتھ رابطہ کرنا  ہوگا“
بشارت نے اسکی بات کی تاٸید کرتے ہوئے کہا تھا ”ہاں استاد تخلیق کار ہوتا ہے، ادب سے وابستہ دوستوں کی تحریریں ہمارے معاشرے کی خاموش زبان ہیں اور قلم ان کے ہاتھ کی زبان ہے، ماسٹر محمد علی اور  ماسٹر اللہ ڈنو جیسے دوست نہ صرف  اپنے شفیق مزاج سے ان نوجوانوں کو مانوس کر سکتے ہیں بلکہ  مدلل گفتگو سے انہیں قائل بھی کرسکتے ہیں“
چرس کی بدبو کے بھبھوکوں نے اس کے حواس کو جیسے معطل کر کے رکھ دیا، اس نے دیکھا کہ ایک ہوٹل کے سامنے بنے تھلے پر پانچ جوانوں میں سے دو ہاتھ میں چرس کا سگریٹ لیے کشکش لگا رہے ہیں اور باقی کش لگانے کے لئے اپنی باری کے منتظر تھے. ایک نوجوان جو نیا نیا اس ٹولے میں شامل ہوا لگتا تھا، اسی کے گوٹھ کا تھا، وہ اسے دیکھ کر اپنا چہرہ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا.. گروپ کے بقیہ لڑکے  اپنے ساتھی کی اس شرما شرمی پر سڑک کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر تالیاں پیٹ پیٹ کر ہنسنے لگے.. ایک نے اسے دیکھ کر کہا "ارے یہ تو ماسٹر مختیار ہے رے…. اس سے ہمارا کیا تعلق… ہم تو اسکول کے زمانے میں بھی اس سے کبھی نہیں ڈرے، اب ہمیں یہ کیا کر لے گا یار….”  پھر قہقہوں کے طوفان سے اٹھتی ٹھٹھہ اڑاتی بیہودہ آوازیں مسلسل اس کا پیچھا کرتی رہیں، جب تک وہ کافی دور تک آگے نہیں بڑھ گیا..
چلتے ہوئے اس کے دل سے اک آہ دعا بن کر نکلی” اس جہالت کے اندھیرے سے ہی کوئی شعلہ بھڑک کر ان نوجوانوں کی راہ کو منور کر دے خدایا…!”
اب وہ کثیر آبادی والے گوٹھ کے درمیان میں پہنچا چک تھا، جہاں ہوٹلوں اور دکانوں کا سلسلہ ختم ہوا…. وہ اس گوٹھ سے آگے بڑھا تو اس کے خیالات کا سلسلہ دراز ہوتے ہوئے ماضی کی خلاؤں تک جا پہنچا… اسے اپنے گوٹھ کے رستے کے آس پاس کے وہ سرسبز کھیت یاد آئے، جو اب صرف یادوں میں ہی لہلہاتے ہیں…  رات کے وقت سرد اور دھیمی دھیمی ہوا میں درختوں کی شاخوں کا وہ رقص اب نہیں رہا تھا، ان  درختوں کی جگہ عمارتیں دکھائی دے رہی تھیں۔
اس نے خودکلامی کرتے ہوئے کہا کل تک اسی سر سبز زمین پر کسان ہل چلاتے تھے، لوگ بھیڑ اور بکریاں چرا کر  زندگی بسر کرتے تھے ۔ ہم انہی کھیتوں کی مٹی میں کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے… زندگی کتنی سادہ تھی مگر اس سادگی کا رنگ کتنا خوبصورت تھا…  آج حرص و طمع  کی غلامی میں انسان اپنے وجود اور بقا کو  بیچ کر خود لالچ کا اسیر بن گیا ہے“
وہ چند قدم آگے بڑھا تو اسے دور سے ہی سڑک کنارے  بجلی کے کھمبے پر لگی اسٹریٹ لاٸٹ کی روشنی میں  فٹبال کا شوقین  ماسٹر اسلم دکھائی دیا، جو اپنی بنائی ہوئی یوتھ  فٹبال ٹیم کے پانچ چھ کھلاڑیوں کے ساتھ سڑک کے کنارے گول داٸرے مین پاجامہ اور جرسی پہنے بیٹھا تھا.. ان لڑکوں کی عمریں 13 تا 16 سال تھیں.  ان میں سے ایک کو ماسٹر اسلم نے  اپنے داٸیں  بازو میں دبوچ رکھا تھا، اور دیگر   لڑکوں کو اس کے ساتھ مذاق کرنے کا تاثر دے رہا تھا.. لڑکا خود کو بچانے کی غرض سے اپنے سر کو اپنے گھٹنوں کے بیچ چھپا رہا تھا… دیگر لڑکے اسے مذاق ہی سمجھ کر ہنس رہے تھے۔  اسلم اور لڑکوں کو ماسٹر مختیار کا  اپنے قریب آنے کا پتہ بھی نہ چلا تھا، اسلم کا یہ رویہ دیکھ کر ماسٹر مختیار کو اس سے گھن آنے لگی… اچانک اسلم، ماسٹر مختیار کو اپنے قریب دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا  اور شرمندگی کو چھپاتے ہوئے  کہنے لگا ”سر مختیار  کیسے ہیں آپ؟“

 

 
ماسٹر مختیار نے اپنے قدم نہ روکتے ہوئے قدرے بیرخی اور ترشی سے جواب دیا” ٹھیک ہوں“

 

اس پر اسلم اپنے پھیکے پن کو لڑکوں سے چھپا نہ سکا، اس نے لڑکوں کو اپنے اپنے گھر جانے اور کل کے میچ کی تیاری کرنے کی  ہدایت کی اور اٹھ کر  تیز قدم اٹھاتا ہوا ماسٹر مختیار تک پہنچ گیا، اس نے ماسٹر کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے  کہا ” لگتا ہے کسی پروگرام سے آرہے ہو“
"ہاں آرٹس کونسل میں ‘منشیات نہیں، تعلیم عام کرو’ کے عنوان سے ایک سیمینار تھا۔” ماسٹر مختیار کے لہجے میں اب بھی تلخی تھی. 

 

اسلم کہنے لگا "ہاں یار.. پہلے تو ایسے پروگراموں میں بشارت آپ کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ مگر منشیات فروشوں کی مخالفت کرکے  اس نے  خود کو مروا دیا“
اسلم کی اس بات پر مختیار نے  بھڑک کر  کہا ”بشارت ان بدقسمت ناقدرے لوگوں میں  فلسفے، دانش، علم اور حکمت کا روشن چراغ تھا۔ وہ  بزدلوں میں پیدا ہونے والا ایک نڈر شخص تھا، بشارت منشیات فروشوں کے آنکھوں میں کٹھک رہا تھا، یہی منشیات فروش  جو فٹبال میچ کروانے  اور درگاہوں میں عرس منانے والو کو چندہ دیکر معاشرے کے بظاہر کھلی آنکھ رکھنے والے  مگر اندر سے  اندھے لوگوں کو خرید لیتے ہیں” مختیار نے اپنے جذبات کے سیلاب پر اب بھی ضبط کا بند باندھ رکھا تھا” ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ پھر گویا ہوا” اور اسلم! جانتے ہو کہ بشارت نے اپنے جسم کو منشیات فروشوں کے ہاتھوں کیوں فنا کروایا“ اسلم  اسے کوئی جواب نہ دیے پایا…. اس نے اپنی بات جاری رکھی”اس لیے کہ اس کی آواز رات کی تاریکی میں گونج اٹھے تاکہ اس سماج کے اندھے بہرے انسان گہری نیند سے بیدار ہوجائیں“
اس نے بات ختم کی تو اس کے اندر سے ایک ایسی سرد آہ نکلی جیسے اس نے اپنے اندر بھڑکی ہوئی آگ پر صبر کا پانی چھڑک دیا ہو۔

 

اس میں شاید مزید ضبط کی طاقت نہیں رہی تھی، وہ تیز تیز قدم اتھاتا ہوا آگے بڑھ گیا.. 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close