اسٹاک ہوم: چامرز یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، سویڈن کے سائنسدان ایک انوکھے منصوبے پر کام کررہے ہیں جس کے ذریعے سیمنٹ سے بنی اینٹوں کو بجلی ذخیرہ کرنے والی بیٹریوں میں تبدیل کر دیا جائے گا
اس مقصد کے لیے سیمنٹ اور بجری ملا کر اینٹیں بناتے وقت ان میں چھوٹے کاربن ریشوں یعنی شارٹ کاربن فائبرز کی تھوڑی سی مقدار بھی شامل کردی جاتی ہے، تاکہ اینٹوں میں سے بجلی گزر سکے جبکہ ان کی مضبوطی بھی متاثر نہ ہو
اسی کے ساتھ ان اینٹوں میں کاربن فائبر سے بنائی گئی، دو طرح کی جالیاں (meshes) بھی شامل کردی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک جالی پر لوہے کی پرت چڑھی ہوتی ہے اور وہ بیٹری اینوڈ کا کام کرتی ہے جبکہ دوسری جالی پر نکل دھات کا ملمع ہوتا ہے جو کیتھوڈ کا کام کرتی ہے
اس عمل سے چھوٹے کاربن ریشوں اور کیتھوڈ/ اینوڈ کی شمولیت سے بننے والی اینٹ اس قابل ہوجاتی ہے کہ چارج ہو کر اپنے اندر بجلی ذخیرہ کر سکے اور ضرورت پڑنے پر اس بجلی کو استعمال میں بھی لایا جا سکے
اگرچہ یہ ڈزائن بظاہر سادہ اور آسان دکھائی دیتا ہے لیکن یہ ایک طویل تحقیق کا نتیجہ ہے جس میں ماہرین کو متعدد بار ناکامی بھی ہوئی
اپنی موجودہ حالت میں یہ ’’اینٹ بیٹریاں‘‘ اپنے ہر مربع میٹر رقبے میں 7 واٹ گھنٹہ کی کثافت سے بجلی ذخیرہ کرسکتی ہیں۔ موجودہ کمرشل بیٹریوں کے مقابلے میں توانائی کی یہ کثافت ابھی بہت کم ہے لیکن ماضی میں اسی نوعیت کی کنکریٹ بیٹریوں سے دس گنا زیادہ ہے
البتہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک مکان یا فلیٹ کی تعمیر میں ہزاروں اور لاکھوں اینٹوں کو ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے، اس لحاظ سے ان تمام اینٹوں میں بجلی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت بھی ہزاروں واٹ گھنٹہ ہوسکتی ہے جو پورے گھر کو ایک بہت بڑی بیٹری میں تبدیل کر سکتی ہے
یہ اینٹیں چارج کرنے کے لیے شمسی توانائی یا پھر تاروں کے ذریعے پہنچائی جانے والی بجلی استعمال کی جاسکتی ہے جس کا انحصار درپیش حالات و سہولیات پر ہوگا
اس کے علاوہ دُور دراز علاقوں میں موبائل کمیونی کیشن ٹاورز اور اسٹریٹ لائٹس کے لیے بھی اسی طرح کی اینٹیں استعمال کی جاسکیں گی۔ غرض کہ کنکریٹ بیٹریوں کے استعمال کا ایک وسیع امکانی میدان موجود ہے
یوں تو توانائی کے شعبے میں یہ ایک حیران کن پیش رفت ہے لیکن کنکریٹ/ اینٹ بیٹری فی الحال صرف ایک ابتدائی تجربہ ہی ہے اور اسے تعمیرات میں استعمال کے قابل ہونے کے لیے کئی خامیوں سے پاک کرنا پڑے گا
اس ضمن میں ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان اینٹوں میں بجلی کی کثافت میں اضافہ کیا جائے جبکہ دوسری جانب اینٹ کو بیٹری میں بدلنے والے مادّوں کو بھی ایک لمبے عرصے تک چارج/ ڈسچارج کے قابل ہونا چاہیے
اگر ایسا ممکن نہ بھی ہو تو اینٹوں میں موجود مادّہ ناکارہ ہوجانے پر اسے نکال باہر کرنے اور اس کی جگہ نیا مواد بھرنے کی سہولت ہونا بھی لازمی ہے ورنہ عام بیٹریوں کی طرح یہ اینٹیں بھی صرف چند ماہ یا چند سال بعد ہی بجلی بنانے کے قابل نہیں رہیں گی اور ان پر خرچ کی گئی اضافی رقم بھی ضائع ہوجائے گی
اوپن ایکسیس ریسرچ جرنل ’’بلڈنگز‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کنکریٹ بیٹری ایجاد کرنے والے ماہرین نے بتایا ہے کہ وہ موجودہ ڈیزائن کی خامیاں دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں
انہیں امید ہے کہ وہ چند سال میں مزید بہتر اور تجارتی پیمانے پر قابلِ استعمال کنکریٹ بیٹریاں بنانے میں کامیابی حاصل کر لیں گے.