بحریہ ٹاؤن کی بدمعاشیاں، سرکاری سرپرستی ہماری عدلیہ اور نئی چالیں

امر گل

کچھ عرصہ قبل "ایک دن جیو کے ساتھ” میں سہیل وڑائچ کو انٹرویو میں آصف علی زرداری نے اپنے بزنس کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا "زمین ہم دیتے ہیں، کنسٹرکشن کوئی اور کرتا ہے”

راز تو خیر یہ معاملہ تب بھی نہیں تھا، لیکن اب "یہ کوئی اور” ننگا ہو کر سامنے آ چکا ہے، جسے زرداری صاحب کنسٹرکشن کے لیے زمینیں فراہم کرتے ہیں.. یہ زمینیں اسے کیسے فراہم کی جاتی ہیں، یہ معاملہ بھی اب کھل کر سامنے آ چکا ہے..

یہ معاملہ گلی کی نکڑ پر بیٹھے یا ہوٹل مین تاش کھیلتے علو ولو کی کچہری میں سامنے آتا تب تو خیر تھی، لیکن ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے حمام میں بھی یہ معاملہ ننگا ہوا، لیکن پھر کیا ہوا، انصاف کی منڈی سجا دی گئی!

غیرقانونی قرار دیے جانے کی انتہائی حد پر پہنچنے کے بعد عوام کی جیبوں سے نکالی گئی رقم کے ڈھیر میں سے ایک مٹھی بھر بھینٹ چڑھانے پر، غیر قانونی قرار دیے گئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو سندِ قبولیت عطا کر دی گئی.. کیا یہ قانون کی کمزوری ہے، اخلاقیات کی بے بسی ہے یا پھر محض ایک تماشہ؟

سندھ کی یہ "اپنی زمین” رئیس وڈے نے کس طرح "کسی اور” یعنی ملک ریاض کو پلیٹ میں سجا کر پیش کی؟ یہ ایک ایسا اسکَیم ہے، جسے کسی اسکیل سے ناپنا بھی ممکن نہیں! ملاحظہ کیجیے..
آپ کو یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ نے 2011 میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران کراچی کی زمینوں کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کر دی تھی.
لیکن ہوا کیا؟
ہوا صرف یہ، کہ یہ پابندی صرف مقامی زمینداروں نے بگھتی، جبکہ اسی دوران سندھ اسمبلی نے ایک بل پاس کرکے روینیو کے اختیارات ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی کو سونپ دیے اور ہزاروں ایکڑ زمینیں جعل سازی کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کر دی گئیں. اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر ملیر کا دفتر باقائدہ منڈی بنا رہا اور ریاستی اداروں کی طاقت کے ذریعے مقامی لوگوں کو ڈرا دھمکا کر زمینیں فروخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا. چچا فیض محمد گبول کو کون بھول سکتا ہے، جو اسٹے آرڈر ہاتھ میں تھامے بے بسی سے اپنی ہی زمین پر بحریہ ٹاؤن کے غاصبانہ قبضے اور اس پر اونچی عمارتوں کو تعمیر ہوتے دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا.
اگر روینیو ایکٹ کا جائزہ لیا جائے تو کنسالیڈیٹڈ زمین کا اختیار لینڈ یوٹیلائزیشن ایکٹ 1912 کے تحت روینیو ڈپارٹمنٹ کو حاصل ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک مالک کی زمینیں ضلع کے مختلف حصوں میں تقسیم ہیں اور اس وجہ سے وہ انہیں کاشت نہیں کر پا رہا تو مذکورہ ایکٹ کے ذریعے انہیں دوسری جگہ شفٹ کیا جائے. یہ ایکٹ صرف زرعی مقاصد کے لیے زرعی اور زیر کاشت زمین کے لیے ہے، لیکن سندھ اسمبلی نے صرف ملک ریاض کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ اختیارات ملیر ڈولپمنٹ کو سونپ دیے، جو کہ اس کا دائرہ کار ہے ہی نہیں. بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس اندھیر نگری کا نوٹس لے کر ان معاملات کی چھان بین کے لیے معاملات نیب کے سپرد کر دیے. نیب کی بات کی جائے تو ایسا کون ہے جو نیب کے موجودہ چیئرمین کے بطور چیئرمین تعیناتی کے حوالے سے ملک ریاض کے کردار سے واقف نہ ہو؟ لیکن اس کے باوجود یہ دن دھاڑے ڈاکہ اس قدر واضح تھا کہ نیب چاہتے ہوئے بھی اس پر مٹی پاؤ کا فارمولا نہیں لاگو کر سکا. بحریہ کو زمینوں کی الاٹمینٹ میں قانون کی اڑتی دھجیاں چھپائے نہیں چھپ سکیں!

پھر جو صورتحال بنی، وہ کسی تماشے سے کم نہ تھی. 2016 میں خود بحریہ ٹاؤن کے وکیل کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے پاس سات ہزار ایکڑ کے لگ بھگ زمین تھی، تب سپریم کورٹ نے واضح طور پر انہیں پروجیکٹ کو مزید وسعت نہ دینے کی  تنبیہہ کی تھی، لیکن سروے آف پاکستان کی طرف سے کیے گئے سروے کے مطابق بحریہ کے زیر قبضہ ساڑھے سولہ ہزار کے لگ بھگ زمین ہے. عدالت عظمی کی طرف سے دوبارہ یہ تنبیہہ دھرائی گئی. پھر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اپنے فیوچر پلان کا ڈھکوسلہ پیش کر دیا گیا، جس کے مطابق اس کے پاس چوبیس ہزار ایکڑ زمین ہے اور وہ ساڑھے سولہ ہزار ایکڑ سے زائد زمین واپس کرنے کے لیے تیار ہے. اس سارے قصے میں تماشہ یہ تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے اپنے فیوچر پلان میں وہ اراضی شامل دکھائی، جو اس کی ملکیت نہیں تھی. یعنی بحریہ ٹاؤن کو وہ اراضی واپس کر کے قانونی بن جانا تھا، جو اس کی تھی ہی نہیں!

لیکن یہ تکلف بھی کیوں برتا جاتا جناب… بھیڑیے کے منہ کو خون لگ چکا تھا.. ریاست اور ریاستی ادارے اس کے سرپرست بنے ہوئے تھے، سو وہ مزید زمینیں، گاؤں، قبرستان، چراگاہیں ہڑپتا ڈکارتا آگے بڑھتا رہا..

پھر جو ہوا، وہ تماشا بھی ایک عالم نے دیکھا.. بالآخر فائلوں کو پہیے لگ گئے اور بحریہ ٹاؤن کو پر.. مَلک کے ساتھ مُلک کی سب سے بڑی عدالت میں سودا طے پا گیا اور مبلغ چار سو ساٹھ ارب کے حق مہر کے بدلے انصاف کی دلہن بحریہ ٹاؤن سے بیاہ دی گئی. سوال یہ ہے کہ سپريم کورٹ کی قانونی لغت بحریہ ٹائون کی تشریح کن الفاظ میں کرے گی؟ میرا خیال ہے کہ یہ تشریح متوقع طور پر کچھ یوں ہو سکتی ہے:
بحریہ ٹاؤن کراچی: ایک ایسا پروجیکٹ، جسے سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا، جو بعد ازاں اسی غیر قانونی پروجیکٹ سے غیر قانونی طور پر کمائے گئے پیسوں کے عوض قانونی قرار پایا.
دوسرے الفاظ میں: غیر قانونی طور پر قانونی!

مذکورہ تشریح شاید معاملے کی وضاحت کرنے کی بجائے اسے مزید الجھا رہی ہے.. لیکن کیا کیا جائے، کہ صورتحال ہی کچھ ایسی نادر و نایاب ہے.

سوال یہ ہے کہ کیا ملک ریاض کے اس قول زریں کو بھی اب قانونی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، کہ اس ملک میں فائلوں کو پیسوں کے پہیے لگا کر ہر ناجائز کام کروانا ممکن ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ جب مبلغ چار سو ساٹھ ارب میں ایک غیر قانونی پروجیکٹ قانونی بن سکتا ہے، تو کیا چار ہزار ساٹھ ارب میں ایک صوبہ اور چالیس ہزار ساٹھ ارب میں یہ ملک خریدا جا سکتا ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا رات سے چاند کا چندہ اور ستاروں کا بھتہ وصول کر کے ہم اسے روشن و تاباں دن لکھ اور پکار سکتے ہیں؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ کہنا ٹھیک تھا کہ جنگ کے میدان کے بعد سب سے زیادہ ناانصافیاں عدالتوں میں ہوئی ہیں؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا انصاف قسطوں میں پیسے ادا کر کے خریدا جا سکتا ہے..؟ سوال یہ بھی ہے کہ پھر بغیر پلاننگ کے پیدا ہو کر قسطوں میں مرنے والی غریب مخلوق انصاف کہاں سے اور کیسے خریدے؟ کیا ان کے لیے کوئی سستا بازار قائم ہوگا؟  کیا ان کے لیے کبھی انصاف کی سیل لگے گی؟

یہ تمام اخلاقی سوالات ہیں اور اخلاقیات کا تقاضہ یہ ہے کہ جب پیسوں کہ بدلے حق میں فیصلہ دیا جا سکتا ہے تو ان سوالوں کا جواب بھی دیا جانا چاہیے!

لیکن ٹھہریے… اخلاقی سوال جائیں تیل لینے.. اب اس قسطوار جرمانے کو بھی معاف کرانے اور اس میں رعایت دلوانے کے لیے ریاست نے عدلیہ کی محفل میں ٹھمری شروع کر دی ہے.

تازہ خبریں یہ ہیں کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے بحریہ ٹاؤن عمل درآمد کیس میں پاکستان کے اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران وہ حکومت کے اس مؤقف کی حمایت کریں کہ اگر عدلیہ  بحریہ ٹاؤن پر عائد کردہ جرمانے کی قسطوں کی ادائیگی کے معاملے میں بحریہ ٹاؤن کو کوئی رعایت دیتی ہے تو اس پر وفاق کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل اور حکمراں جماعت کے سینیٹر علی ظفر کی طرف سے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے ان کے مؤکل ملک ریاض کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے لہٰذا اس بنیاد پر انھیں قسطوں کی ادائیگی میں رعایت دی جائے۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے مطابق ان کا کلائنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب تک 58 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروا چکا ہے۔  انھوں نے کہا کورونا کی صورت حال کی وجہ سے دیگر شعبوں کی طرح ان کے مؤکل کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا ہے۔

گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت میں بھی ریاست کے اندر قائم ریاست کے والی ملک ریاض کو شہزاد اکبر جیسے لوگ میسر ہیں. آپ نے کبھی غور کیا کہ دسمبر 2019ع میں ، ملک ریاض کی جائیدادوں کی تحقیقات نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے یوکے میں کی۔ تحقیقات کے بعد ، این سی اے نے ملک ریاض کے اہل خانہ کے ساتھ 190 ملین پاؤنڈ سٹرلنگ (38 ارب روپے) جرمانہ طے کرلیا تھا۔ این سی اے نے ملک ریاض سے بازیاب ہونے والی رقم حکومت پاکستان کو دے دی، جس نے حیرت انگیز طور پر اسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے کھاتوں میں منتقل کردیا۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق ایک معاملے میں ملک ریاض پر عائد جرمانے کے ایک حصے کے طور پر یہ رقم عدالت عظمیٰ کو ادا کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ میں اس ضمن میں گذشتہ ماہ وزارت قانون کا ایک خط بھی جمع کروایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن اور نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے درمیان ایک یادداشت پر دستخط ہونے کی توقع ہے جس کے تحت بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اسلام آباد اور کراچی میں کم لاگت والے پانچ ہزار اپارٹمنٹس تعمیر کر کے دے گی جن میں سے تین ہزار اسلام آباد میں جبکہ دو ہزار کراچی میں تعمیر کیے جائیں گے۔

اس خط میں کہا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی طرف سے دوسرا سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا تعمیراتی سیکٹر میں بحریہ ٹاؤن ایک قابل ذکر کھلاڑی ہے تو اس کا جواب ہے کہ یقینی طور پر اس شعبے میں بحریہ ٹاؤن ایک قابل ذکر کھلاڑی ہے۔

اس خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کی طرف سے دی گئی درخواست پر غور کرتی ہے تو وفاقی حکومت کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا جائے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو قسطوں کی ادائیگی میں رعایت دینے سے اس ڈیڈ لائن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا جو کہ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کو رقم کی ادائیگی کے لیے دی ہوئی ہے۔

اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق وزارت قانون کے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کو قسطوں کی ادائیگی میں کوئی رعایت دیتی ہے تو ان قسطوں پر حاصل ہونے والے مارک اپ کا فیصلہ سپریم کورٹ طے کرے گی اور بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

اس خط میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر عدالت کی طرف سے ریلیف ملنے کے باوجود بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ عدالت یا حکومت سے کیے گئے عہد کو پورا نہیں کرتی تو وفاقی حکومت کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے قسطوں کی ادائیگی میں دی گئی چھوٹ پر نظر ثانی کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہے۔

ان دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت اس بارے میں جو بھی حکم صادر کرے گی وفاقی حکومت اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔

اب کیا کہا جائے… ریاست، "ریاست کے اندر ایک ریاست” کی خدمتگذار باندی بن جائے، جب ریاستی ادارے اور عدلیہ چوری کو تحفظ دینے لگ جائے، تو پھر رہ کیا جاتا ہے!!!؟؟؟
اس سب کو اب الفاظ کے ذریعے بیان کرنا ناممکن ہے!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close