بحریہ ٹاؤن اور سندھ حکومت کا گٹھ جوڑ انتقامی کارروائیوں پر اتر آیا، دہشتگردی کے مقدمات درج

نیوز ڈیسک

کراچی میں پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے الزام میں سندھ ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں سمیت بحریہ ٹاؤن کے خلاف سرگرم مقامی لوگوں اور ادیبوں پر دہشت گردی اور پاکستان کے جھنڈے کی توہین کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے ہیں اور جئے سندھ قومی محاذ کے رہنما صنعان قریشی کو گرفتار کر لیا ہے

یاد رہے کہ گذشتہ روز کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے ہونے والے احتجاج کے دوران نامعلوم شرپسندوں نے متعدد عمارتوں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی

سندھ حکومت کی مدعیت میں دائر ایف آئی آر میں ایس ایچ او گڈاپ پولیس سٹیشن انسپکٹر اشرف جان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں سندھ یونائیٹڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی، جئے سندھ محاذ، جئے سندھ قوم پرست پارٹی، قومی عوامی تحریک و دیگر قوم پرست تنظیموں نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا اور چھ جون کو پارٹی رہنما اور کارکن گاڑیوں میں ٹولیوں کی صورت میں بحریہ ٹاؤن کے سامنے ایم نائن پر دن ساڑھے بارہ بجے کے قریب پہنچا شروع ہوئے

مدعی کے مطابق مقررین نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف ’پاکستان نہ کھپے‘ کے نعرے لگوائے اور سرکاری اداروں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کیں، جو قابل گرفت جرم ہے

پولیس نے ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی سیکشن سات، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 123 بی (پاکستان کے قومی جھنڈے کو نذر آتش کرنا) اور کارِ سرکار میں مداخلت ڈالنے کے الزامات کے تحت یہ مقدمہ دائر کیا ہے

گذشتہ روز ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد کراچی پولیس نے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں قوم پرست جماعتوں کے کارکن بھی تھے۔ پولیس نے آج انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا اور عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ان کارکنوں کو پولیس کے حوالے کر دیا

حیرت انگیز طور پر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے بھی پولیس کے موقف سے ملتے جلتے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کروایا گیا ہے

بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے دی گئی درخواست میں درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ بحریہ میں بحیثیت سکیورٹی مینیجر تعینات ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھی قوم پرست جماعتوں کے احتجاج میں قادر مگسی، مشتاق سرکی، جلال محمود شاہ، صنعان قریشی، جان محمد جونیجو اور دیگر رہنما اپنے کارکنوں کے ساتھ پہنچے اور اپنی تقاریر میں بحریہ کی زمین پر قبضہ کی دھمکیاں اور اپنے کارکنوں کو مسلسل اشتعال دلاتے رہے

مدعی کے مطابق مشتعل لوگوں نے بحریہ کے مین گیٹ کے باہر کنٹینروں کی توڑ پھوڑ شروع کر دی اور خار دار تاروں کو کاٹ کر سکیورٹی سٹاف کو زد و کوب کیا اور آتش گیر مادہ پھینک کر مین گیٹ کو آگ لگا دی، اس دوران ہوائی فائرنگ کر کے دہشت پھیلائی گئی

درخواست کے مطابق 400 سے 500 کے قریب لوگ اندر داخل ہو گئے جن میں قادر مگسی، مشتاق سرکی، شیر لاشاری، جان شیر جوکھیو، مراد گبول، علی حسن جوکھیو، داد کریم، گل حسن کلمتی (کراچی کی تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف)، جہانزیب کلمتی، جلال محمود شاہ، ریاض چانڈیو، سجاد چانڈیو، اسلم خیرپوری، ظفر حسین، زین شاہ، صنعان قریشی، یعقوب خاصخیلی، سلام سولنگی اور قدوس شیخ اندر داخل ہوئے اور کمرشل ایریا میں توحید اسکوائر کے نزدیک توڑ پھوڑ کی، آتش گیر مادہ پھینک کر آگ لگا دی اور سٹور روم اور اس کے اندر موجود گاڑیوں کو کیمیکل چھڑک کر آگ لگائی

دوسری جانب جئے سندھ قومی محاذ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے چیئرمین صنعان قریشی کو گلشن حدید میں واقع گھر سے رینجرز اور سادہ کپڑے میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لے لیا ہے اور اس مبینہ گرفتاری کے خلاف سندھ کے مختلف شہروں میں اختجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے پیر کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ہر شخص کے احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن پرتشدد احتجاج برداشت نہیں کیا جا سکتا اور ملک اور ریاست کے خلاف کوئی بیان دے گا تو وہ غلط ہے. پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو نے کہا کہ یہ احتجاج نہیں، بحریہ ٹاؤن کے خلاف بلوہ تھا

واضح رہے کہ اتوار 6 جون کو کثیر الجماعتی قومپرست اتحاد سندھ ایکشن کمیٹی کی کال پر بحریہ ٹاؤن کراچی کی قبضہ گیری اور بحریہ ٹاؤن کی حکومتی سرپرستی کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا

پرامن دھرنا چلتے اچانک کچھ نامعلوم افراد کہیں سے گھس آئے اور انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے مین گیٹ پر دھاوا بول دیا اور کچھ عمارتوں کو بھی آگ لگا دی. اس دوران دھرنے کی انتظامیہ اور قائدین کی طرف سے لوگوں سے پرامن رہنے کی مسلسل اپیل کی جاتی رہی

جس کے بعد پولیس کے اٹالے پرامن مظاہرین پر پل پڑے، شدید شیلنگ کرتے ہوئے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، پولیس نے نہتے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے کئی مظاہرین شدید زخمی اور بے ہوش ہو گئے.

اس عرصے میں پولیس نے گیٹ پر دھاوا بولنے والے عناصر کو پکڑنے کے بجائے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور انہیں گرفتار کرنا شروع کر دیا

عینی شاہدین کے مطابق ابتدا میں شرپسندوں نے چیک پوسٹوں پر حملہ کیا اور اس کے بعد مین گیٹ کو آگ لگا دی. کچھ مشکوک افراد دھرنے کے باہر سے اچانک برآمد ہوئے اور لوٹ مار شروع کر دی، ان کی کاروائی سے واضح تھا کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے راستوں اور عمارتوں سے مکمل واقف تھے. جب کہ اس دوران پولیس کے اٹالے اور بحریہ ٹاؤن کا سیکورٹی عملہ بھاری تعداد میں وہاں موجود تھا لیکن انہوں نے شرپسندوں کو روکنے کی کوشش بلکل نہیں کی. اس کے بعد بھی پولیس نے اندر گھسنے والے شرپسندوں کو روکنے کے بجائے گیٹ کے باہر بیٹھے پرامن مظاہرین پر حملہ کر دیا

احتجاج کے دوران جب نامعلوم شرپسند افراد گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو اسی وقت جلسہ گاہ سے اعلان کیا گیا کہ ’شرپسندوں کا تعلق ان سے نہیں ہے پولیس انہیں حراست میں لے۔ ‘ لیکن پولیس اور بحریہ ٹاؤن کا سیکورٹی عملے نے نامعلوم شرپسندوں کو روکنے سے اجتناب کرتے رہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close