کیا گوادر یونیورسٹی کے قیام کا خواب پورا ہوگا؟؟؟

عبدالحلیم 

اس وقت گوادر کے نوجوانوں کی جانب سے گوادر یونیورسٹی کے قیام کے لئے سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر #GwadarNeedsUniversity کی ہیشٹیگ کی کمپین جاری ہے۔

بالخصوص سماجی رابطہ کی سب سے موثر ترین ویب سائیٹ ٹویٹر پر یہ کمپین زوروں پر ہے۔ اس کے علاوہ گوادر یونیورسٹی کی کمپین کا پلے کارڈ گوادر کا ہر شہری تھامے ہوئے سوشل میڈیا پر گوادر یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے.

گوادر میں میگا پروجیکٹس کے آغاز کے ساتھ ہی گوادر کی مقامی آبادی کو یہ مژدہ سنایا گیا تھا کہ بہت جلد یہاں پر اعلٰی ثانوی اور فنی ادارے قائم کئے جائینگے تاکہ مقامی نوجوان میگا پروجیکٹس کی تکمیل کے بعد اعلٰی تعلیم یافتہ اور ہنر مند بن کر ترقی کے عمل کا حصہ بن جائے۔

گوادر پورٹ بن گیا اس کے بعد سی پیک کے منصوبے بھی شروع ہوگئے، لیکن آج کے دن تک گوادر میں اعلٰی تعلیمی درسگاہوں کے قیام کا منصوبہ ادھورا ہے۔

خصوصاً سی پیک کے متعارف ہونے کے بعد گوادر میں اعلٰی تعلیمی درسگاہوں کی تعمیر کی نوید کو شد و مد کے ساتھ پذیرائی بھی دی گئی۔ اس ضمن میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے یکم ستمبر 2016 کو گوادر یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد بھی رکھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے وزارت اعلی کے دور میں آنکاڈہ جنوبی میں زمین بھی مختص کی گئی لیکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی تبدیلی کے بعد گوادر یونیورسٹی کی اراضی کا مقام تبدیل کرکے اسے شہر سے کوسوں دور شابی پشکان میں دھکیل دیا گیا۔ لیکن پانچ سال کا عرصہ ہوا ہے کہ گوادر یونیورسٹی کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔

واضح رہے کہ گوادر یونیورسٹی کے قیام کا بل موجودہ صوبائی حکومت نے پاس بھی کیا ہے اور اسے گورنر کی منظوری درکار ہے جو تعطل کا شکار ہے۔

گوادر لسبیلہ کے ایم این اے محمد اسلم بھوتانی نے الزام عائد کیا ہے کہ گوادر یونیورسٹی کے قیام میں گورنر بلوچستان رکاوٹ ہیں اس بات کا اظہار انہوں نے گوادر میں ایک تقریب کے دوران کیا۔ حالیہ دنوں میں گوادر سے تعلق رکھنے والے سنیٹر کہدہ بابر نے بھی اس کا ذمہ دار گورنر بلوچستان کو ٹھہرایا ہے اس بات کا انکشاف کہدہ بابر نے سوشل میڈیا پر کیا۔

سی پیک منصوبے کا حجم اس وقت 57 ملین ڈالر ہے اور مقامی آبادی گوادر یونیورسٹی کے قیام کے اپنے دیرینہ خواب کی منتظر ہے، لیکن اطلاعات ہیں کہ موجودہ بجٹ میں گوادر یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا ہے، جس کے بعد گوادر کی مقامی آبادی کو مایوسی کا سامنا ہے۔

اسی کے پیش نظر نوجوانوں نے گوادر یونیورسٹی کے قیام کی کمپین شروع کی ہے۔ 11 جون کو گوادر یونیورسٹی کے قیام کی کمپین کی مناسبت سے واک کا بھی کی گئی، جس میں لوگوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی

کسی بھی ابھرتے ہوئے شہر کے لئے تعلیمی منصوبوں کا فروغ اور آغاز بنیادی تقاضا ہوتا ہے لیکن گوادر شہر اب تک اس سے محروم ہے۔ بالخصوص سی پیک کا دل کہلانے والے شہر میں ایک عدد اعلٰی تعلیمی درسگاہ کی تعمیر میں رکاوٹیں مقامی آبادی کے لئے اضطراب کا سبب بنتا جارہا ہے جس سے کئی اندیشے اور خدشات نے بھی سر اٹھا لئے ہیں۔

تعلیم کسی قوم اور علاقے کی ترقی کا بنیادی محرک ہوتا ہے اس سے ترقی کے عمل میں علاقے کے لوگوں کی شمولیت کو مستحکم بنایا جاسکتا ہے لیکن گوادر کی مقامی آبادی اپنے اس بنیادی حق سے بوجوہ محروم ہے۔

گوادر جسے تبدیلیوں کا نقیب قرار دیا جارہا ہے اور ہر طرف اس کے خوبصورت ساحلوں کی زیبائی کے چرچے ہیں لیکن ساحل کنارے آباد مقامی آبادی اپنے بچوں کے تعلیمی سفر کے حوالے سے فکر مند اور متنفر ہیں۔ کیا گوادر یونیورسٹی کے قیام کا خواب پورا ہوگا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close