مذکورہ بالا تمام آثار قدیمہ بحریہ ٹاؤن کے فیز1 اور 2 میں آ جاتے ہیں. 1991 میں کلچر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بدر ابڑو اور انور پیرزادو نے چوکنڈی طرز تعمیر کی نقش گری قبروں کے سروے کا کام مکمل کیا تھا، جس کی فوٹو گرافی اور وڈیو فلمیں بھی بنائی گئیں، لیکن معاملہ سروے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ سرکاری یا نجی ادارے زمین الاٹ کرتے وقت ایسے قدیم مقامات، قدیم قبرستانوں اور راستوں کو بچانے اور الاٹ نہ کرنے کے قانونی طور پر ذمہ دار اور پابند ہیں، کیوں کہ تحفظ براۓ آثار قدیمہ ایکٹ کے تحت ایسے آثار کو الاٹ کرنا، تباہ کرنا جرم ہے۔ بین الاقوامی قانون بھی آثار کی حفاظت کے لیے موجود ہے مگر یہاں ریونیو ڈپارٹمنٹ، ڈپٹی کمشنر کے دفاتر میں تو جیسے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ یہ سب کچھ قدیم مقامات و آثار کے ایکٹ، قانون اور ان کی اہمیت و وقعت سے ناواقفیت کے باعث ہوتا ہے، اس لیے محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ ثقافت و سیاحت سے گزارش ہے کہ اپنی ذمہ داری اور قومی فرض جان کر ان آثار، قبرستانوں کے بچاؤ اور تحفظ کے لیے متعلقہ افسران اس ضمن میں اپنا قومی فرض سمجھتے ہوۓ فوری اقدام اٹھائیں۔ بصورت دیگر یہ آثار تباہ ہوجائیں گے جس کی ذمہ داری حاکمین وقت، محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ ثقافت کی انتظامیہ پر ہوگی اور وہ قومی مجرم ہوں گے.
یہ تو چند حقائق تھے جو بحریہ ٹاؤن کے فیز1 اور فیز2 دیہہ لنگھیجی، دیہہ کاٹھوڑ دیہہ بولھاڑی دیہہ کونکر اور دیہی حدرواہ میں چلنے والے کام کے بارے میں ہیں۔ یہ کام 43 ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے۔ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے حکومت سے ان 43 ہزار ایکڑز کے علاوہ سابقہ یونین کونسل موئیدان کے 12 دیہوں میں مزید 42 ہزار ایکڑ زمین دینے کا مطالبہ کیا ہے جہاں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے لوگوں کی طرف سے قبولی اور سرکاری لیز والی زمینوں کو خریدنے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ زمین کی خریداری کے لئے وہی غیر قانونی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے جو فیز1 اور 2 میں استعمال کیا گیا۔ یہ دیہیں جو سابقہ یونین کونسل موئیدان میں ہیں مکمل طور پر کھیرتھر نیشنل پارک میں ہیں جس کا قبل ازیں تذکرہ ہو چکا ہے۔ یہ دیہیں کھیرتھر نیشنل پارک میں ہونے کے باوجود ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو الاٹ کرنے کے پس پردہ حکومت کے کچھ دیگر منصوبے تھے جو اب بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کو نواز نے کے باعث ظاہر ہور ہے ہیں
ان 12 دیہوں میں 80 گوٹھ ہیں اور یہ پورا پہاڑی علاقہ ہے جہاں نیشنل پارک ہونے کے باعث ہر قسم کے جانوروں اور پرندوں کی نشو ونما ہوتی ہے۔ یہاں روزگار کا وسیلہ بارانی طریقے سے کاشت کاری، پولٹری فارمنگ اور مال مویشی پالنے پر ہے۔ لوگوں کی اکثریت چرواہوں کی ہے۔ ان 12 دیہوں میں بے شمار آثار قدیمہ، آرکیالوجیکل سائٹس، چوکنڈی طرز تعمیر کے نقش گری والی خوب صورت قبریں، کوٹیرڑو، (پتھر کے چھوٹے قلعے) بڑے پتھروں کے سرکل، کافروں کی قبریں، زرتشی دور کے آثار، پتھر کے قلعے موجود ہیں۔ مہیر جبل جو خود ایک عجوبہ ہے۔ مہیر جبل کراچی کوہستان کے دیہوں میں سے ایک دیہہ ہے۔ ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بحری ٹاؤن اس چوٹی پر، جو 25 کلومیٹر لمبی اور 15 کلومیٹر چوڑی ہے، یہاں سات گوٹھ موجود ہیں، اپنا میں کیمپ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے لیے سروے کا کام شروع کیا گیا ہے۔
مہیر پہاڑ پر غلام محد گوٹھ کے بعد مہیر برساتی نالے کے بائیں کنارے دس سے زائد قدیم قبریں ہیں، جو لمبائی میں صرف دو سے تین فٹ ہیں، کناروں پر پتھر رکھے ہیں اور ایک پتھر اوپر ڈھکن کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اوپر ایستادہ پتھر زیادہ تر گر چکے ہیں۔ قبروں میں سے ہڈیاں بھی نکلی ہوئی ہے اور صاف نظر آتی ہیں۔ ایسی 50 سے زائد قدیم قبریں مہیر جبل سے گوٹھ گل محمد کانڑو کے نزدیک بھی ہیں۔ مقامی لوگ انہیں کافروں کی قبریں یا ’’ڈھکن والی قبریں‘‘ کہتے ہیں۔ایسی ہی قبریں ڈملوٹی ضلع ملیر اور گنداکو والے علاقے، جو جام شورو اور ضلع ملیر کے سنگم پر ہے، میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مہیر جبل پر ’ستیوں کا آستانہ’ بھی ہے۔ مہیر ندی پہاڑوں سے نشیب میں بہتی ہے، یہاں بابریوں والی چوٹی کے نزدیک سخت پتھر میں چار پانچ گہرے کنویں ہیں جو پانی سے لبالب ہیں، زائد پانی نیچے "لا ہوت اتڑی” کو بھرنے کے بعد آگے بہہ جاتا ہے۔ مقامی لوگ ان کنوؤں کو ’انڑ والے لوہ‘ یا ’لوہی‘ کہتے ہیں۔ لاہوت اتڑی سے آگے سخت پتھر کے فرش کو کھود کر ایک نالی یا پرنالہ بنایا گیا ہے۔ سخت پتھر میں ایسی کھدائی اس جدید دور میں بھی مشکل ہے۔ یہاں سے اوپر بابریوں کی چوٹی پر پتھر کے قلعے کے آثار، کپ مارکس (نِگوں) اور دو گبربند ہیں۔ لاہوت اتڑی، جس میں مگر مچھ بھی ہیں، یہاں پوجا کے لیے ہندو آج بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کاری یا میر کی اتڑی بھی ہے۔ یہ سب آثار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ جگہ قدیم دور کی ہے اور یہاں آب پاشی کا قدیم اور بہترین نظام موجود تھا.
مہیر پہاڑ اور چہار اطراف کئی "کوٹیرڑو” بھی ہیں جن کا ذکر معروف آرکیالوجسٹ مجمدار نے بھی کیا ہے. مہیر پہاڑ کے قریب تھوہر کانڑو گوٹھ سے قبل اسٹون سرکل یا ’’حجری دائرہ‘ ہے ۔ یہاں ایک لمبا پتھر ایستادہ ہے جو زمین سے 10 فٹ اونچا ہے۔ یہ پتھر کہیں کہیں دوفٹ چوڑا ہے ل۔ پتھر پر بڑی تعداد میں تحریری نشانات ہیں ۔ یہ پرانی تحریر ہے جو پڑھنے میں مشکل ہے۔ اس پتھر کے ساتھ دوسرے بھی لیے پھر میں جو نیچے زمین پر گرے ہوۓ تھے، جنہیںEndowment Fund Turst کی ٹیم نے بدرابڑو، ذوالفقار کلہوڑو اور اشتیاق انصاری کی سربراہی میں کھڑا کرکے سرکل (دائرے) کو مکمل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ پتھر کے کمروں کے آثار ہیں۔ یہ پورا علاقہ تھوہر کانڑو گوٹھ تک ایک مکمل آرکیالوجیکل سائٹ ہے۔
مہیر کے علاوہ کھارندی میں بھی ’’کھار لوہی‘‘ جہاں سخت پتھر پر کنویں ہیں، تپہ موئیدان، تپہ وان کنڈ اور کنڈ میں آنے والے 12 دیہوں میں پتھر کے دور، بدھ مت کے آثار، برفانی دور کے پرانے قبرستان اور چوکنڈی طرز تعمیر کے نقشہ گری قبروں والے قبرستان موجود ہیں۔
اس علاقے میں جب بحریہ ٹاؤن نے اپنے رہائشی منصوبے کا کام شروع کیا تو یہ سب آثار ملیامیٹ ہو جائیں گے جو تاریخ کے ساتھ بڑا المیہ ہوگا۔ بامیان افغانستان کے پہاڑوں میں جب بدھ کے قدآدم مجسموں کو مجاہدین نے بموں سے اڑایا تو پوری دنیا میں شدید احتجاج ہوا۔ یہاں پر جدید طالبان ملک ریاض، حکومت سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی آشیرواد سے ایک پوری تاریخ کو نیست و نابود کر رہا ہے۔ جس پر دنیا تو دور لیکن ہم سندھ کے لوگ خاموش تماشائی بنے ہوۓ ہیں۔ کیا ہم اس وقت بیدار ہوں گے جب سب کچھ ختم ہو جاۓ گا، سب آثارقدیمہ ملیامیٹ ہو جائیں گے، پھر احتجاج کریں گے؟ یہ ایک بین الاقوامی جرم ہے۔ آئیے اس جرم میں شریک لوگوں کے خلاف ایک ہوں اور اپنی تاریخ اور اپنے خوب صورت علاقے کو بچائیں۔ اپنے وجود کے ساتھ اپنی مالکی کے نشانات کو بچائیں.
12- بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی کے علاوہ ڈنگی اور بھنڈار جزائر پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جدید شہر بنانے کے علاوہ فضائیہ ٹاؤن اور دیگر ایسے منصوبوں کے مکمل ہونے سے کراچی کی آبادی میں 50 لاکھ سے زائد لوگوں کا اضافہ ہوگا جو 80 فیصد دوسرے صوبوں سے آنے والے لوگ ہوں گے، کیوں کہ ان منصوبوں کی بکنگ کے وقت یہ اندازہ ہوا ہے۔ ان اسکیموں میں سب سے بڑا اور خطرناک رہائشی منصوبہ بحریہ ٹاؤن ہے جس کی طرف سے کراچی دیہی میں 43 ہزار ایکڑ زمین حاصل کرکے تیزی سے رہائشی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ڈنگی اور بھنڈار جزائر پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی طرف سے جدید شہر بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس عمل میں انہیں وفاقی حکومت، حکومت سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی کا مکمل ساتھ حاصل ہے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کے قیام سے جو نقصانات اور اس خطے پر اثرات مرتب ہوں گے ان میں زیادہ تر کا ذکر اوپر ہوچکا ہے لیکن اس عمل سے سندھ کو مجموعی اور اجتماعی طور پر جو نقصان ہوگا، اس سے سندھ اور سندھیوں کے وجود کوخطرہ در پیش ہوگا، اس کا اندازہ موجودہ صورت حال اور مستقبل میں گلوبل وارمنگ کے اثرات، پیسے کی ہوس اور اس خدشے سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی شہر سے غریبوں کا وجود ختم کرکے اسے سرمایہ داروں کے لیے مخصوص کیا جاۓ گا۔ ان منصوبوں میں باہر سے آنے والے لوگوں کی آبادی کاری میں اضافہ ہوگا۔سندھ میں دوسرے صوبوں اور دیگر ممالک سے آنے والے اجنبیوں اور غیر ملکیوں کی آباد کاری آج انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ اور مذکورہ بالا منصوبوں کی تکمیل پر جب 50 لاکھ سے زائد غیروں کی آبادی سندھ میں داخل ہوگی تو وہ سندھ کے تمام وسائل میں شریک ہوں گے۔ یہ انتہائی خطرناک سازش ہے جو ترقی کے نام پر ہمارے ساتھ ہو رہی ہے۔ اس موضوع پر انتہائی گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس موضوع سے وابستہ ماہرین آ گے آکر سندھی قوم کو مستقبل میں آنے والی تباہی سے آ گہی دیں اور ان میں شعور اجاگر کریں تا کہ سندھ کے عام لوگ، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی کے افراد خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں، اس اہم مسئلے کو سمجھ سکیں اور ایسے اقدام و اعمال کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس سلسلے میں چوں کہ بحریہ ٹاؤن اور دیگر منصوبوں کا کام کراچی میں تیزی سے جاری ہے جو خود یہاں کے اکثریتی اردو بولنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، انہیں بھی ایسے منصوبوں کے خلاف یکجا ہوکر آواز اٹھانی چاہیے۔ کیوں کہ کراچی شہر پہلے ہی دہشت گردی، امن و امان، بنیادی انسانی ضرورتوں کی عدم دستیابی، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث بدترین الجھن کا شکار ہے۔ مزید 50 لاکھ باہر کے لوگوں کے آنے سے اس شہر کا کیا حشر ہوگا؟ اس کا تصور اہل دانش و فکر اور انسان دوست خواتین و حضرات بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔
جاری ہے