عوامی ورکرز پارٹی اور سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کے مرکزی رہنما کامریڈ یوسف مستی خان نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے مرکزی دروازے پر چھ جون کو ہونے والے احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کے واقعے کو ’طے شدہ منصوبہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ متاثرین کے پر امن احتجاج کو سبوتاژ کیا جاسکے
یوسف مستی خان کا کہنا تھا کہ جس طرح بحریہ ٹاؤن کراچی کے مرکزی دروازے کو اس دن آگ لگی ہے، وہ آگ کسی کیمیکل سے ہی لگائی گئی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے طے کیا گیا تھا
انہوں نے مزید کہا کہ احتجاج سے دو دن پہلے پولیس نے کہا کہ جہاں احتجاج ہونا ہے وہاں ایک کریکر پھٹا ہے، جس سے ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں
جب ان سے بحریہ ٹاؤن کے اس دعوے سے متعلق سوال کیا گیا کہ انہوں نے زمینیں پیسے دے کر خریدی ہیں، تو یوسف مستی نے جواب دیا کہ بحریہ ٹاؤن کو زمینیں غیر قانونی طور پر الاٹ ہوئیں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے 2018 کے فیصلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن غیرقانونی ہے، جس کی تحقیقات ہونے کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کو بند ہونا چاہیے اور ساری زمینیں واپس لینی چاہییں
یاد رہے کہ چھ جون کو کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے اور زمینوں پر قبضہ کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے مرکزی گیٹ پر احتجاج کیا گیا تھا
اس دوران نامعلوم افراد کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے مرکزی دروازے سمیت کئی عمارتوں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی تھی
جس کے بعد پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے الزام میں سندھ ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں سمیت بحریہ ٹاؤن کے خلاف سرگرم مقامی افراد اور ادیبوں پر دہشت گردی اور پاکستانی پرچم کی توہین کی دفعات کے تحت کراچی کے گڈاپ تھانے میں مقدمات درج کرکے کئی افراد کو گرفتار کیا تھا
جب اس حوالے سے ترجمان آئی جی سندھ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے انہیں بحثیت ترجمان میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گرفتاریوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اوپر سے احکامات ہیں‘ اور یہ کہہ کر انہوں نے مزید کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا تھا
یوسف مستی خان نے بتایا کہ ’اس واقعے کی 28 ایف آئی آرز کاٹی گئی ہیں، جن میں 10 ہزار سے زائد لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ جن میں سے بہت سی ایف آئی آرز اوپن ہیں، جس کا مطلب ہے کہ پولیس جب چاہے کسی کو اس ایف آئی آر کی بنیاد پر اٹھاکر لے جائے.