بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف حال ہی میں ایک کیس میں اپنے حق میں فیصلہ پانے والے مدعی امیر علی گبول نے کہا ہے کہ پولیس کی اپنی مرضی سے کاٹی گئی ایف آئی آر سے میرا کوئی تعلق نہیں
امیر علی گبول نے کہا کہ یہ ایف آئی آر میری مرضی کے بغیر کاٹی گئی ہے اور میرے موقف سے مطابقت نہیں رکھتی، جو گڈاپ پولیس نے محض سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ حکم سے جان چھڑانے کے لیے درج کی ہے
یاد رہے کہ 14 مئی 2016 کو بحریہ ٹاؤن کی طرف سے جمعہ موریو گبول گوٹھ پر حملہ کر کے گھروں کو مسمار کیا گیا تھا، جس کے باعث گوٹھ کے بیشتر رہائشیوں کو بے دخل ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا. اس واقعے کا مقدمہ درج نہ کیے جانے کے بعد ملیر کورٹ میں مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دی گئی تھی. بعدازاں درخواست گزار کی جانب سے ملیر کورٹ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، جس پر سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ دنوں طویل شنوائی کے بعد اپنا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا تھا
فریادی امیر علی گبول کا کہنا تھا کہ میں گذشتہ چھ سالوں سے اپنے طور پر اس کیس کو لڑتا رہا ہوں، رضاکارانہ طور پر میری مدد کرنے والے تمام دوستوں کا میں شکرگزار ہوں لیکن میں اب بھی واضح طور پر کہتا ہوں کہ میں اس کیس کو اپنے طور پر منطقی انجام تک پہنچاؤں گا
انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ میں نے ایف آئی آر میں ملک ریاض کا نام درج کرنے سے انکار کر دیا ہے. ان کا کہنا تھا کہ میں آج بھی اس ایف آئی آر میں ملک ریاض کا نام شامل کرنے کے موقف پر قائم ہوں
امیر علی گبول نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ ہمارے گوٹھ کے 52 گھروں کو مسمار کیا گیا، ہم پر متواتر مقدمات درج کر کے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے
انہوں نے کہا کہ ہمارے گوٹھ پر ملک ریاض کی ایما پر چڑھائی کی گئی اور آج بھی یہ زمین انہی کے زیر قبضہ ہے، لہٰذا میں ایف آئی آر میں ان کا نام شامل کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہوں
امیر علی گبول نے گڈاپ پولیس کی طرف سے کاٹی گئی ایف آئی آر سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایف آئی آر میری مرضی اور موقف کے مطابق نہیں کاٹی گئی بلکہ پولیس نے میرے علم میں لائے بغیر اپنے طور پر کاٹی ہے، اس لیے میں اس حوالے سے ایک بار پھر قانونی جنگ لڑنے کا راستہ اختیار کروں گا.