16 مارچ، انچاسواں دن
اس پورے کیس کے دوران کارمیلا وہ شخصیت تھی، جس پر میں اعتماد کر سکتا تھا۔ وہ اس پورے کیس کے دوران میرے ساتھ رہی تھی۔ وہ اصل میں میرے کیس کی نگران بھی تھی اور میں سمجھتا تھا کہ وہ جو کچھ کرہی ہے، بہتر کر رہی ہے۔ وہ عدالت میں پہلی نشستوں پر موجود تھی۔
میں نے اس کی طرف توجہ کی اور پوچھا: ”کارمیلا! کیا ہور ہا ہے؟‘‘
”تمہارا کیس شریعہ کورٹ میں بھیج دیا گیا ہے.. رے!‘‘
”کیا مجھے پتھروں سے مارا جاۓ گا؟“
”شریعت کورٹ میں کیس جانے کا مطلب یہ نہیں، جو تم سوچ رہے ہو، بلکہ قصاص کے علاوہ دیّت کی بھی اجازت ہے، جو متاثرہ خاندان کو راضی ہونے پر دی جاتی ہے۔“ کارمیلا نے مجھے کہا۔
لیکن مجھے اس وقت دیت اور قصاص کی سمجھ نہیں آئی اور میں نے آنکھ کے بدلے آنکھ کے اصول کو سامنے رکھا، یعنی جس پر قتل کا جرم ثابت ہوتا ہے اسے مار دیا جا تا ہے اور یہی میرا مقدر ہے، ہر طرف سے اشارے بھی اسی قسم کے مل رہے تھے، مذہبی انتہا پسند بھی مجھے مرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے.
کارمیلا میرے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ رہی تھی..
کارمیلانے جلدی سے پھر دوہرایا: ”دیت کی آپشن بھی ہے، جس میں متاثرہ خاندان کو خون بہا دیا جا تا ہے اور اس مقدمے میں بھی ان کے لواحقین کو معاوضہ دیا جاۓ گا اورتم رہا ہو جاؤ گے۔“
”مجھے یہاں سے باہر جانے کے لیے کسی کو بھی پیسہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔‘‘
”نہیں رے! تم غلط سمجھ رہے ہو۔ تمہیں باہر نکالنے کا یہی بہترین حربہ ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں۔ ہم تمام حربے آزما چکے ہیں۔تمہیں رہا کروانے کے لیے یہ بہترین ڈیل ہے۔‘‘ کارمیلا نے کہا۔
مجھے ایسا سننے کی امید نہیں تھی، کیونکہ مجھے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا۔ تاہم مجھے کارمیلا پر اعتماد تھا اور میں نے اسے کہا کہ تم جو کرنا چاہتی ہو، کرسکتی ہو۔ ایک دن جب میں نے کارمیلا سے پوچھا:” کیا ہورہا ہے؟“
کارمیلا نے بتایا: ”اس ڈیل کے لئے لواحقین کے ہرفرد کا راضی ہونا ضروری ہے اور اگر ایک بھی انکار کر دے تو ڈیل نہیں ہوسکتی اور میں نے خاندان کے لوگوں کو دیکھا ہے۔ خواتین خوش دکھائی نہیں دے رہیں۔“
میں اس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ تاہم مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ منصوبہ کئی ہفتے پہلے بنا لیا گیا تھا۔ کچھ ر پورٹوں کے مطابق امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ دورہ پاکستان کے دوران یہ معاملہ طے ہوا. جب کہ کچھ نے بتایا کہ امریکی سفیر کیمرون منٹر اور آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یہ منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ یہ افواہ بھی تھی کہ اس میں فوج، صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف بھی شامل ہیں۔ اس کا کریڈٹ کسی ایک فرد کو نہیں جا تا تھا۔ بلکہ سب اس میں ایک گروپ کی طرح کام کر رہے تھے۔ امریکہ اور پاکستان میں جاری اس سفارتی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے سب اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے. تاکہ کچھ ضائع کئے بغیر نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ میں واحد شخص تھا جسے آخری لمحات تک کچھ پتہ نہیں تھا۔
جب اس منصوبے پر اتفاق ہو گیا تو اس کے بعد یہ آئی ایس آئی پر تھا۔ جنرل پاشا ڈیل کو کامیاب کرانے میں پوری طرح سنجیدہ تھے، انہوں نے 18 مارچ کو ریٹائر ہو جانا تھا، تاہم وہ مزید ایک سال کے لئے عہدے پر رہنے کے لئے تیار ہو گئے۔ وہ اس بات کے لیے بھی ذمہ دار تھے کہ کیس کے پہلے پراسیکیوٹر اسد منظور بٹ کو تبدیل کر دیا جائے۔ منصوبه اسی صورت کامیاب ہوسکتا تھا جب خاندان کے 18 افراد دیت پر راضی ہوتے۔ اسی لئے آئی ایس آئی کے لوگوں نے وکیل کی مدد سے انہیں دیت پر راضی کرنے کے لئے خاندان کے ہر ایک فرد پر حسب ضرورت دباؤ ڈالا تاہم ان میں سے کئی لوگوں نے اپنے وکیل بٹ کی وجہ سے مزاحمت کی۔ ان میں سے ایک محمد فہیم کا بھائی وسیم شہزاد بھی تھا، جس پر مذہبی سیاستدانوں نے انصاف حاصل کرنے کے لئے زور دیا تھا۔ وسیم اپنے بھائی کے خون کا حساب چاہتا تھا، اس لیے وہ کئی ہفتوں تک راضی نہیں ہوا۔
راضی نہ ہونے والوں میں ایک اور مشہود الرحمان بھی تھا جس کے بھائی کو مجھے بچانے کے لیے آنے والی SUV نے کچل دیا تھا۔ مشہود نے حال ہی میں برطانیہ سے اپنی قانون کی ڈگری حاصل کی تھی. اس نے میری پیشی کے موقع پر کہا تھا کہ ”میں براہ راست رقم قبول نہیں کر سکتا۔ یہ خاندان کی عزت کا ایک سوال ہے۔ سب سے پہلے انصاف ہونا چاہیے۔“ تمام اسلامی جماعتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے وکلا کے ذریعے لواحقین پر دباؤ ڈال رہی تھیں۔
آئی ایس آئی کے لوگوں نے 14 مارچ کو اس معاملے میں مداخلت کی اور لواحقین کے ان 18 لوگوں کو جیل میں بند کر دیا جب دو دن بعد 16 مارچ کو میری قسمت کا فیصلہ ہونا تھا۔ ان سب کو 16 مارچ تک قید میں رکھا گیا۔ وکیل بٹ فون کے ذریعے بھی ان میں کسی تک پہنچنے سے قاصر تھا۔ پڑوسیوں نے اسے یہی بتایا کہ وہ لوگ اچانک غائب ہوگئے ہیں۔ 16 مارچ کو میری قسمت کا فیصلہ تھا۔ 16 مارچ سے ایک رات قبل آئی ایس آئی نے خاندان کے تمام افراد کو کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کر دیا اور ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ دیت قبول کر لیں اور اگر وہ قبول کر لیں گے تو انہیں ایک بڑی رقم بدلے میں دی جاۓ گی۔ انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو… دوسری صورت میں نتائج ان پر اگلی صبح واضح کر دیئے گئے، جب انہیں عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر کئی گھنٹے قید رکھا گیا اور انہیں سختی سے میڈیا کے سامنے ایک لفظ بھی بولنے سے روکا گیا۔ جب بٹ اس بیچ عدالت کے باہر پہنچا تو اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا گیا۔
بٹ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ”مجھے اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ کیس لڑ سکوں۔ مجھے میرے کلائنٹس کو دیکھنے اور ان تک پہنچے نہیں دیا گیا۔ مجھے اور میرے ساتھیوں کو چار گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔‘‘
بٹ اس قابل نہیں تھا کہ اپنے کلائنٹس سے بات کر سکتا۔ 16 مارچ کو عدالت کے سامنے دیکھا گیا کہ خواتین کے لیے یہ بہت مشکل بات تھی، وہ رو رہی تھیں، کارمیلا یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی..
ان لواحقین کے نئے وکیل ارشاد نے محمد فہیم اور فیضان حیدر کے خاندان کے افراد کی دستخط شدہ ایک دستاویز عدالت کو پیش کی جس میں ملزم کو معاف کرنے اور دیت لینے پر رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔ تمام عورتیں اس موقع پر رو رہی تھیں۔ جج نے تمام رشتہ داروں کو اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے دستاویزات دکھانے کو کہا۔ پھر ان کو رسید دی گئی، جس میں 18 افراد کو دی جانے والی رقم لکھی تھی۔ فی کس ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر اور کل 23 لاکھ 40 ہزار ڈالر.. پاکستان کی تاریخ میں خون بہا کے طور پر دی جانے والی یہ سب سے زیادہ رقم تھی۔ ہر رشتہ دار کی جانب سے ضروری دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد جج نے کہا کہ آپ میں سے کسی کو بھی یہ کرنے پر مجبور تو نہیں کیا گیا؟ تمام اٹھارہ افراد نے جواب دیا کہ نہیں. اس کے بعد جج نے ڈفینس اور پراسیکیوشن کو یاد دلایا کہ وہ اس پر اعتراض کر سکتے ہیں، لیکن کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا ۔
اس دن خاندان کے تمام افراد کے سمجھنے کے لئے کارروائی چونکہ اردو میں ہورہی تھی اس لئے مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا، تاہم مجھے کارمیلا نے بتایا: ”تمام افرادنے دیت قبول کر لی ہے اورتم رہا ہونے جار ہے ہو۔‘‘
”میں نے پو چھا کب…..؟“
”جتنی جلدی یہ کام مکمل ہو جاتا ہے.. باہر گاڑی کھڑی ہے اور ڈیل نامی شخص تمہارے ساتھ ائیر پورٹ جارہا ہے، جہاں تمہیں میڈیکل ٹیسٹ کی ضرورت ہو گی اور اس کے بعد تم جہاز میں لے جائے جاؤ گے اور پھر تمہیں گھر واپس بھیج دیا جاۓ گا۔“ کارمیلا نے کہا.
میں یہ سب سن کر ششدر رہ گیا.. میں اتنی جلدی کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ سب کچھ آہستہ آہستہ ہوگا، لیکن یہ سب کچھ میرے لیے حیران کن تھا!
”میں آج یہاں سے جار ہا ہوں؟‘‘
”ہاں رے! تم گھر جار ہے ہو۔‘‘
میں خوشی سے نہال ہو گیا۔ میرا دل چاہا کہ میں اس خوشی کا سظہار اس طرح کروں جس طرح سونامی کرتا ہے۔
انچاس دنوں کا لمحہ لمحہ میں نے کس طرح گزارا۔ اس موقعہ پر میں نے محسوس کیا کہ میں واقعی رہا ہو گیا ہوں اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ اچانک مجھ پر واپس جانے کی خوشی اور اداسی طاری ہوگئی۔ لیکن میں ایک خاوند اور باپ تھا جسے واپس گھر جانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے تھا۔ یہ سوچ کر میں ایک بچے کی طرح رونے لگا۔
(جاری ہے)
- کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ) نویں قسط
- کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ) آٹھویں قسط
- کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ) پہلی قسط