ایک تصویر ایک کہانی – 16

گل حسن کلمتی

اس تصویر میں بڑی سی بدصورت عمارت نظر آ رہی ہے ، یہ لارنس روڈ (عبدالرب نشتر روڈ) اور بارنیس اسٹریٹ کے سنگم پر رنچھوڑ لائین میں مدیحہ اسکوائر ہے. جہاں یہ اسکوائر تعمیر کیا گیا ، اس جگہ کی ایک اپنی تاریخ ہے. اس تاریخ کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا، وہ بھی ایک تاریخ ہے!

یہ سن 1893ع عیسوی کی بات ہے، جب سندھ پر انگریز سرکار کا قبضہ تھا. قبضہ اپنی جگہ لیکن اس قبضے نے ہمیں تاریخی عمارات کے ساتھ بہت کچھ دیا. سن 1893ع میں اسی جگہ ایک یہودی سولومن ڈیوڈ اومر  ڈیکار نے کراچی کے یہودیوں کے لیے ایک عبادت گاہ "سیناگاگ” ( Synagogue) تعمیر کرائی، جس کا نام "میگن شیلوم سیناگاگ”رکھا گیا. پتھر کی یہ خوبصورت عمارت کراچی کی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک تھی، یہ بنی اسرائیل مسجد کے نام سے بھی مشھور تھی.

اس عمارت کے تمعیر میں جودھپور کا لال اور گذری کا پیلا پتھر استعمال کیا گیا تھا، اس عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں لکڑی کی تھیں۔

میں 1974ع جب میں ایس ایم آرٹس کالج میں پڑھتا تھا، تو اکثر یہاں سے گذر ہوتا تھا ، کیونکہ گڈاپ کے لیے بس لیمارکیٹ سے نکل کر اسی چوراہے سے گذر کر آگے گارڈن کے طرف جاتی تھی.
میرے والد صاحب سبزی منڈی میں ہوتے تھے، لیمارکیٹ کے شیدی ولیج روڈ  پر ایک فلیٹ میں ان کی رہائش تھی. وہ اکثر آڑھتیوں سے  پیسوں کے وصولی کے لیے رنچھوڑ لائن اور رام سوامی آتے تھے. کبھی کبھی میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا. تب والد صاحب نے مجھے بتایا تھا  کہ یہ یہودیوں کی مسجد ہے. اکثر خیال آتا تھا کہ اندر جاکر اس کو دیکھوں، لیکن ایک انجانے خوف نے کبھی ایسا ہونے نہیں دیا. پھر جب میں نے کراچی کی تاریخ پر لکھنا شروع کیا تہ یہ خوبصورت عمارت اپنی جگہ نہیں ملی۔

 

اس کے بارے مجھے جو معلومات ملی ، اس کے مطابق اس میں عبادت کے لیے ایک بہت بڑا ھال تھا، جس کا نام شیگل بائی ھال تھا. شیگل بائی سولومن ڈیوڈ کی بیوی تھی. سولومن ڈیوڈ کراچی میونسپلٹی میں سرویئر تھے اور کراچی کے یھودی کمیونٹی کے تنظیم کے صدر بھی تھے. 27 اپریل 1903  کو وہ وفات پا گئے. ان کی قبر میوا شاھ میں "یھودی قبرستان” میں ہے. یہ ھال 2 اپریل 1911 کو شیگل بائی کے پوتے ابراھام روبن کامولیکر کے جانب سے اپنی دادی کی یاد میں بنایا گیا تھا.

ابراھام روبن 1936 میں کراچی میونسپلٹی کا کونسلر منتخب ہوا،اس نے 1928 میں  حاجی مرید بکک گوٹھ لالو کھیٹ (لیاقت آباد) میں ایک پرائمری اسکول اپنے خرچے پر بنا کر ضلع لوکل بورڈ کراچی  کے حوالے کیا ، جو آج بھی اسی نام سے پرانی عمارت  میں موجود ہے. جبکہ اردو میڈیم اسکول کی عمارت مسمار کردی  گئی ہے سوچتا ہوں اس اسکول کا نام تبدیل کیوں نہیں ہوا، شاید اس لیے ہم ابراھام کو ابراھیم سمجھ بیٹھے ہیں۔

ایک اور بات ، لیاری کے چیل چوک کا نام تقسیم سے پہلے ابراھام روبن چوک تھا. اس چوک کے ساتھ بڑی سی چاردیواری میں یہودیوں کا پرانا قبرستان ہے ، لیکن اب ھم نے ان میں سے بہت سی قبروں کو مسمار کرکے اپنے مردے دفنائے ہیں. اس پر کسی اور موقعے پر تفصیل سے لکھوں گا۔

1918 میں سیناگاگ (Synagogue) میں ایک دوسرے ھال کے تعمیر کا کام شروع کیا گیا. جس کا افتتاح ناتھن ابراھام نے 18 اگست 1921 میں کیا. اس ھال کا نام اسی کے نام سے "ناتھن ابراھام ھال” رکھا گیا۔

سیناگاگ  کے احاطہ میں 1919 عیسوی میں ابراھام سنڈیکیٹ عمارت کا افتتاح کیا  گیا  تھا.

1903 میں اسی عمارت میں ایک سماجی تنظیم "ینگ مین جیوئش ایسوسیئشن "کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

سیناگاگ کے چاردیواری میں ” کراچی بنی اسرائیل رلیف فنڈ” کا آفس بھی تھا، یہاں پر ایک چھوٹا پارک بھی ہوا کرتا تھا.
رنچھوڑ لائن، رامسوامی اور رام باغ میں بڑی تعداد میں یہودی رہتے تھے. تمام مذاہب کے لوگوں میں ایک بھائی چارہ قائم تھا، وہ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے تھے.

یہودیوں نے سندھ بالخصوص سندھ کی راجدھانی کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا. موسیس سوماک ایک عراقی یہودی تھا ، جو کراچی کی مشہور عمارتوں کا آرکیٹیکٹ تھا. موسیس کی بنائی ہوئی عمارتوں میں "فلیگ اسٹاف ھائوس”(قائد اعظم میوزم)، گوئن جیمخانہ 1890، بی وی سی اسکول 1905، جعفر فدو ڈسپینسری کھارادر 1904، فارسی اگیاری، خالق ڈنہ ھال، مولس مینشن، ایڈورڈ ھائوس، نارتھ ویسٹرن ھوٹل 1908، برسٹل ھوٹل 1910, کارلٹن ھوٹل، کیفے گرانٹ، وکٹوریا مینشن  اور دوسری مشہور اور خوبصورت عمارتیں شامل ہیں.

جب 1948 میں اسرائیل وجود میں آیا تو بہت سے یہودیوں نے کراچی کو الوداع کہا،1956,1948 اور 1967 کی عرب اسرائیل لڑائی  کے بعد یہاں کے یہودیوں کا گھیراؤ تنگ کیا گیا تو انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا. انہوں نے سندھ کی راجدھانی اپنی جنم بھومی کراچی کو نہ چاہتے ہوئے خدا حافظ کہا.

1959 میں کراچی میں 400 یہودی موجود تھے. 1968 میں 250 یہودی  کراچی میں رہتے  تھے، اس سے پہلے 1941 کی آدمشماری کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں 513 مرد اور 538 یہودی مذہب کی عورتیں تھیں.

1988 میں اس تاریخی عمارت اور کراچی کے تاریخ کو شعلوں کی نظر کیا گیا ، ایک پوری تاریخ لمحوں میں بھسم ہوگئی.
یہاں پر موجود ایک یہودی عورت نے منت سماجت کرکے مقدس صندوق (Ark), تخت(Podium) ، تورات اور ایک رجسٹرڈ حاصل کرکے ان کو 2004ع میں یروشلم میں "بن زیوی انسٹیٹیوٹ لائبریری” کو عطیہ کیا ،جو آج بھی محفوظ ہیں.
آگ لگانے کے  کچھ عرصے بعد اس سیناگاگ (بنی اسرائیل مسجد) کی جگہ مدیحہ اسکوائر کی یہ بدصورت سی عمارت کھڑی کی گئی.

اس واقعے کے بعد کراچی میں رہنے والے یہودیوں نے خوف سے اپنے آپ کو پارسی کہنا شروع کیا. 2019 میں سوشل میڈیا پر ایک نوجوان نے اپنے آپ کو یہودی کہنا شروع کیا تھا.

اب جب بھی اس جگہ سے گذر ہوتا ہے تو اس تاریخ کی تاریخی بربادی پر افسوس ہوتا ہے ، عمارتیں نہ ھندو ہیں، نہ مسلمان، نہ یہودی اور نہ ہی عیسائی.. وہ تو صرف تاریخ ہیں. ھماری اپنی تاریخ! مجھے جتنا افسوس بابری مسجد کے مسمار کرنے پر ہوا اتنا ہی دکھ مجھے اس سیناگاگ کے جلائے جانے اور پھر مسمار کرنے پر ہوا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close