پیرو میں ملکی تاریخ کا پہلا غریب صدر منتخب

ویب ڈیسک

جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کے ایک گاؤں میں اسکول ٹیچر پیدرو کاستیو صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ انہیں اپنے ملک کی تاریخ کا پہلا ’غریب صدر‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

بدھ کو پیرو کی گزشتہ 40 سالہ تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک جاری رہنے والی ووٹوں کی گنتی کے بعد کاستیو کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔

انتخابات میں کاستیو کی حمایت کرنے والوں میں ملک کے غریب اور دیہی عوام بھی شامل تھے۔ انہوں نے انتخابات میں دائیں بازو کے سیاست دان اور ملک کے سابق صدر کی بیٹی کیکو فجیموری کو 44 ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔

پیرو میں جون میں ہونے والے اس انتخابی مقابلے کے نتائج ایک ماہ سے زائد عرصے کے بعد سامنے آئے ہیں۔

چار سال قبل پیدرو کاستیو گاؤں کے ایک سرکاری اسکول کے گم نام استاد تھے اور آج وہ اپنے ملک کے منتخب صدر ہیں۔

اکاون سالہ پیدرو نے چار برس قبل اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے پر ہونے والی ہڑتال کی قیادت کی جس کے بعد اُن کی شہرت میں اضافہ ہوا۔

ہڑتال کے نتیجے میں حکومت کو اساتذہ کے مطالبات تسلیم کرنا پڑے اور چند ہی برسوں میں پیدرو کی مقبولیت اس قدر بڑھی کہ وہ قومی سطح کے لیڈر بن گئے اور آج اُنہیں ملکی تاریخ کا غریب ترین صدر قرار دیا جا رہا ہے۔

پیدرو کاستیو نے اعلان کیا ہے کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر کی تنخواہ نہیں لیں گے بلکہ اسکول کے استاد کی طور پر ہونے والی آمدن ہی پر گزارہ کریں گے۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ایک تجزیہ کارہیوگو اوتیرو کا کہنا تھا کہ کاستیو اپنے ملک کے ’پہلے غریب صدر‘ ہیں۔

پیدرو کاستیو نے ایک سال میں 10 لاکھ نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ تانبے کی کانوں کو قومیانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان کا تعلق انتہائی بائیں بازو کی جماعت سے ہے اس لیے پیرو میں ان کے انتخاب کے بعد یہ خدشات سر اٹھانے لگے تھے کہ وہ شاید نجی ملکیت کو ملک سے ختم کر دیں گے۔ لیکن انہوں ںے اپنے حالیہ بیانات میں اس تاثر کی تردید کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ کسانوں سے ان کی زمین واپس نہیں لی جائے گی.

اس کے علاوہ وہ جرائم پر قابو پانے کے لیے سزائے موت کی بحالی کی خاطر امریکن کنونشن آف ہیومن رائٹس یا سان ہوزے پیکٹ سے علیحدگی کی تجویز بھی دے چکے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر سیاسیات اسٹیون لیوٹسکائے کا کہنا ہے کہ کاستیو کی حکومت بہت کمزور ہو گی کیوں کہ پوری اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف ہے۔

امریکہ، یورپی یونین اور دیگر 14 الیکٹورل مشنز نے پیرو میں ہونے والے انتخابی عمل کو شفاف قرار دیا ہے۔ امریکہ نے پیرو کے انتخابات کو خطے میں ’جمہوریت کا ماڈل‘ قرار دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close