یہ 1789ع کی بات ہے، جب مغربی ملک فرانس میں غربت، تنگدستی، بھوک اور افلاس سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے معاشی اونچ نیچ اور فرق کے خلاف بغاوت کر دی اور فرانس میں خونی انقلاب برپا ہوا
بغاوت کے دوران فرانس کے بادشاہ لوئی شانزدہم کو محافظوں نے خبردار کیا کہ محل پر حملے کا خطرہ ہے اور تجویز دی کہ آپ کو محل چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ پر چلے جانا چاہیے
بادشاہ کو حالات کے تناظر میں یہ مشورہ پسند آیا۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ رات کے اندھیرے میں شاہی خاندان اپنا بھیس بدل کر محل سے نکلے گا اور خفیہ طور پر مشرقی راستوں سے ہوتے ہوئے محفوظ علاقے مومیدی چلا جائے گا
یہ لگ بھگ تین سو سال پرانی بات ہے۔ 20 اور 21 جون 1791ع کی درمیانی رات کو مقررہ وقت پر وفادار سپاہیوں نے محل کے دروازے پر دو چھوٹی بگھیاں لا کھڑی کیں. بگھیوں ک حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ کسی غریب کسان کی آخری جمع پونجی ہیں. جب لوئی کی ملکہ میری آنتونیت نے وہ بگھیاں دیکھیں تو غصے سے چلائی کہ ”میں فرانس کی ملکہ ہو کر ان کھٹارا بگھیوں پر سفر کروں گی؟“
میری نے شاہانہ دبدبے کے ساتھ محافظوں کو حکم دیا کہ تمام خاندان ایک ہی بگھی میں سفر کرے گا، جو دیکھنے میں خوبصورت، بڑی اور عالیشان ہونی چاہیے
ناچار فرمان کی تعمیل کی گئی اور کچھ ہی دیر بعد چھ گھوڑوں پر مشتمل ایک پروقار اور عالیشان بگھی محل کے دروازے پر کھڑی تھی۔ ملکہ مطمئن ہوئی اور آدھی رات کے اندھیرے میں شاہی خاندان دو سو میل کے سفر پر مومیدی کی جانب روانہ ہو گیا
جب یہ لوگ محل سے کوسوں دور ایک گاؤں کے قریب سے گزر رہے تھے تو دیہاتیوں نے بگھی دیکھ کر سوچا کہ اتنی عمدہ سواری ان کے گاؤں میں کیا کر رہی ہے؟
گاؤں کے لوگوں میں تجسس ابھرا اور یہ جاننے کے لیے، کہ اندر کون لوگ سوار ہیں، گاؤں والوں نے بگھی کو روک لیا۔ اتفاق یا بادشاہ کی بدقسمتی سے دیہاتیوں میں دخوئے نام کا ایک ایسا شخص بھی تھا جس نے کچھ عرصہ قبل فرانس کی فوج میں کام کیا تھا اور اب پوسٹ ماسٹر کے طور پر گاؤں میں ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا
ہوا یوں کہ اس نے بادشاہ کو اپنے پاس موجود کرنسی پر چھپی ہوئی تصویر سے مشابہت پر پہچان لیا۔ دخوئے نے فوراً انقلابیوں کو بادشاہ کی اس علاقے میں موجودگی کی اطلاع کر دی اور چند ہی گھنٹوں بعد شاہی خاندان کو دھر لیا گیا
قصہ مختصر.. بعد ازاں لوئی اور اس کی ملکہ میری کے سر تن سے جدا کر دیے گئے اور یوں فرانس میں کئی سو سال چلنے والی بادشاہت اپنے بھیانک انجام کو پہنچی
کہا جاتا ہے کہ محل سے نکلتے وقت اگر ملکہ اپنے شایان شان بگھی میں بیٹھنے کی ضد نہ کرتی تو شاید شاہی خاندان بحفاظت مطلوبہ مقام پر پہنچ سکتا تھا۔ لیکن پروٹوکول کی عادی، آرام طلب ملکہ فرار بھی طمطراق سے ہونا چاہتی تھی… رسی جل گئی تھی، پر بَل نہیں گیا تھا!
ملکہ میری اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ شاہی خاندان کو خدا نے دوسروں سے بہتر بنایا ہے اور عام انسانوں کے مقابلے میں ملکہ کا رتبہ بلند تر ہے۔ یہ وہ سوچ تھی اور یہی وہ ذہنی رویہ تھا، جس نے فرانس کی ملکہ کو عام بگھی پر بیٹھنے سے روک دیا، حالانکہ وہ جانتی تھی کہ اس وقت خوشنما سواری کی بجائے جان بچانا زیادہ ضروری تھا
پروٹوکول کی قدیم ترین مثال ہمیں سترہویں صدی قبل مسیح میں حطی سلطنت میں ملتی ہے، جب ‘میسڈی’ نام کا ایک دستہ بادشاہ کی حفاظت کے لیے متعین تھا. یہ دستہ بارہ لوگوں پر مشتمل تھا جو برچھیاں سنبھالے بادشاہ کے ساتھ چلا کرتے تھے اور عام لوگوں کی بادشاہ تک رسائی روک لیتے تھے
مصر میں سولہویں صدی قبل مسیح میں مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے طاقتور پہلوان، فراعین کی حفاظت پر معمور رہے. فرعون اپنے آپ کو خدا اور لوگوں کے مابین رابطے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ اہرامِ مصر کی تعمیر بھی خدا سے اپنے تعلق کی عظمت کی دھاک بٹھانے کے لیے تھی اور عوامی فلاح سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا. انا کو تو بس ایسے ڈھکوسلوں سے ہی تسکین ملا کرتی ہے
ایک روایت کے مطابق تیرہویں صدی میں سلطان غیاث الدین بلبن جب تخت دہلی پر فائز ہوا تو اس نے سیستان سے دیوہیکل پہلوان منگوائے جو ہر وقت بڑی بڑی تلواریں ہاتھ میں پکڑے سلطان کے آگے پیچھے چلتے رہتے تھے۔ "ہٹو لوگو… سلطان آ رہے ہیں” کی آوازوں سے سلطان کی گردن میں سریا لگ جایا کرتا… دوسری جانب جب یہی سلطان دربار میں آتا تو وہ پوری قوت سے ’بسم ﷲ، بسم ﷲ‘ کہتے۔ پہلوانوں کو ہدایت تھی کہ وہ ہر وقت غصے میں رہیں. اس سارے تکلف سے بلبن کا بنیادی مقصد سلطان کے منصب کی عظمت جتانا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے اکیس سالہ دور میں رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لیے بلبن کبھی قہقہہ لگا کر دربار میں نہیں ہنسا…
ایرانی شہنشاہ سائرس اعظم کے ’لافانی سپاہی‘ اور رومیوں کے خصوصی محافظ بھی اسی طرح کے احکامات تھے، وی بادشاہوں کے ارد گرد رہا کرتے.. بادشاہوں کے عظمت کا محل اسی پروٹوکول کے ستونوں پر کھڑا رہتا…
یوں تو پروٹوکول کا آغاز سکیورٹی کے نام پر ہوا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساتھ یہ اپنی حدود سے باہر نکلتا گیا۔ اور اب رہنے کے لیے کشادہ گھر کا اشتیاق، سفر کے لیے بڑی گاڑی پر فریفتگی اور حفاظت کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی تعیناتی کی آرزو بھی اس کے مختلف روپ ہیں
پروٹوکول ایک ایسی بیماری ہے جو نرگسیت اور احساس برتری کو پروان چڑھانے میں مدد دیتی ہے۔ ذاتی حفاظت کی آڑ میں درجنوں سکیورٹی اہلکاروں کو اپنے ارد گرد مامور کرنا خود پرستوں کا وطیرہ رہا ہے جس کے نتائج، امن وامان کی ابتر حالت کی صورت میں عوام بھگتتے ہیں
ہمارے ملک میں بھی سکیورٹی پروٹوکول حفاظت کی بجائے منصب کی حیثیت کی برتری کا اعلان کرنے میں تبدیل ہو چکا ہے
کسی بڑے افسر نے مصروف شاہراہ سے گزرنا ہو تو ٹریفک بند کر دی جاتی ہے۔ شاپنگ کے لیے دل ہو تو ایک گاڑی آگے اور ایک پیچھے پہرا دیتی ہوئی چلتی ہے… اور اگر صاحب کو سرکار نے نیا گھر الاٹ کر دیا ہے تو اس کی تزئین و آرائش پر عوامی پیسے سے ضرور خرچ کیا جائے گا…
ارباب اختیار کی طرف سے حکومتی وسائل کو ذاتی شان و شوکت کے لیے استعمال کرنے کی ایک وڈیو حال ہی میں وزیراعظم تک بھی پہنچ گئی جس پر انہوں نے برہمی کا اظہار کیا اور ملک میں پروٹوکول کو ریشنلائز کرنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان پر عمل بھی کیا جائے گا یا نہیں؟ کیا پاکستان میں کبھی ایسا ہو بھی پائے گا جیسا درج ذیل واقعے میں ہوا تھا:
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ قائداعظم گاڑی میں کہیں جا رہے تھے تو راستے میں ریلوے پھاٹک بند ہو گیا۔ آپ کا ڈرائیور اتر کر وہاں پر موجود شخص سے کہنے لگا کہ گورنر جنرل آئے ہیں، پھاٹک کھولو۔ لیکن قائد اعظم نے کہا کہ نہیں اسے بند رہنے دو۔ میں ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پر مبنی ہو۔
آج ہم مغربی ممالک کے حکمرانوں کی ایسی وڈیوز دیکھ کر متعجب ہوتے ہیں، جن میں وہ عام لوگوں کے ساتھ بازاروں، ریستورانوں اور عوامی مقامات پر عام لوگوں کی طرح چلتے پھرتے اور ملتے ملاتے نظر آتے ہیں… کیا اس ملک کی مغرب کی دلدادہ اشرافیہ کبھی اس روش کو بھی اپنائے گی؟