روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) پہلی قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

تعارف :
روبنسن کروسو.. وہ ناول، جس کے متعلق عظیم فلسفی روسو نے کہا تھا کہ نصاب سے ساری کتابیں ختم کر کے، بچوں کو صرف روبنسن کروسو ناول پڑھایا جائے..

انگریزی ادب کا اپنی طرز کا ایک شاہکار ناول، ʼروبنسن کروسو‘ پہلی بار 1719ع میں شائع ہوا۔ پہلی اشاعت کے ساتھ ہی اس کی مقبولیت کا آغاز ہوا اور تین صدیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی، بلکہ مسلسل اضافہ ہوا ہے.

روبنسن کر وسو کو ایک عالمی کلاسک کا مقام حاصل ہے. ’روبنسن کروسو‘ ایک ایسا عالمی کردار ہے جو اب دنیا بھر میں ایک گھریلو نام کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ہو جس میں اس کے متعدد ترجمے نہ ہوئے ہوں. اسی طرح ’’روبنسن کروسو“ فلموں اور ٹیلی وژن کا بھی ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ ڈینیل ڈیفو کے اس ناول پر متعدد بار فلمیں بن چکی ہیں اور کئی بار ٹی وی سیریل بنے ہیں۔ ”روبنسن کروسو‘‘ کی بنیاد ڈیفو نے ایک سچے حادثے اور کردار پر رکھی تھی۔ ”روبنسن کروسو‘‘ صدیوں سے بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول عام کتاب کی حیثیت سے دنیا کی مقبول ترین کتابوں میں شامل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ناول ہے جس کے متعلق عظیم فلسفی روسو نے کہا تھا کہ نصاب سے ساری کتابیں ختم کرکے، بچوں کو صرف روبنسن کروسو ناول پڑھایا جائے. یہاں ہم سنگت میگ کے قارئین کے لیے انگریزی ادب اس کلاسک شاہکار کا اردو ترجمہ قسطوار پیش کر رہے ہیں.

جہاز کی تباہی

میرا نام رابنسن کروسو ہے اور میں یارک شائر برطانیہ کا رہنے والا ہوں. میرے والد مجھے ہمیشہ سمندری سفر سے منع کرتے تھے جبکہ مجھے سمندری سفر کا جنون تھا۔ اٹھارہ برس کی عمر ہوگی کہ جب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنی روزی کمانے کے لئے سمندری سفر کو وسیلہ بنانا چاہیے۔ والد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود میں مختلف قسم کا مال تجارت لے کر لندن سے ایک تجارتی جہاز پر سوار ہو کر گنی کی طرف روانہ ہوا۔

پہلا سفر ہی بڑا بدقسمت رہا۔ سمندر کے بیچ میں بحری قزاقوں نے جہاز پر حملہ کیا اور سب کچھ لوٹ کر جتنے مسافر تھے، انہیں غلام بنا کر بیچ دیا۔ مجھے خریدنے والا ایک ترک تھا۔ دوسال تک میں اس کی غلامی کرتا رہا۔ پھر اپنے ایک غلام ساتھی کے ساتھ فرار کا منصو بہ بنایا۔ اس بے چارے کو بھی سمندری لہریں بہا کر لے گئیں۔ میں نے کئی خطرات کا سامنا کیا۔ ایک جنگل میں جو جنگلی درندوں سے بھرا ہوا تھا، ایک حبشی قبیلہ میرا میزبان بنا اور میں کئی دنوں تک ان کا مہمان رہا۔ پھر جب ایک تجارتی جہاز کا وہاں سے گزر ہوا تو وہ لوگ مجھے ایک چھوٹی سی کشتی میں بٹھا کر جہاز تک چھوڑ آئے۔ جہاز کا کپتان بڑا چھا اور مہربان انسان تھا، اس نے مجھے جہاز میں بٹھایا، میری ضرورتیں پوری کیں اور کرایہ لئے بغیر مجھے برازیل پہنچا دیا۔ میں نے کئی ماہ وہاں مزدوری کی۔ پیسہ پیسہ جمع کیا اور کچھ سامان خریدنے کے بعد لندن روانہ ہوا۔ یہ سامان لندن میں اچھے داموں بک گیا۔

اگرچہ میں اس بحری سفر میں مرتے مرتے بچا تھا اور غلام تک بنا لیا گیا تھا، لیکن میرے دل سے سمندری سفر کا شوق نہ نکلا۔ دل میں بھی یہ بات سما گئی کہ پھر سفر کرنا ہے اور قسمت آزمانی ہے۔ یوں پھر سے سامان تجارت خریدا اور ایک بار پھر سمندری جہاز پر سوار برازیل کی طرف روانہ ہوا۔

ہمارا یہ جہاز ایک سو بیس ٹن وزنی تھا۔ چھ توپیں اس پر نصب تھیں. بیس سے زائد لوگ اس پر کام کر تے تھے. گرم مصالحے اور کپاس سے لدا جہاز اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا، کہ موسلادھار بارش شروع ہوئی اور جہاز سمندری طوفان میں یوں ڈولنے لگا، جیسے کوئی کھلونا ہو۔ جہاز کا کپتان تجربہ کار تھا، لیکن زبردست طوفان کے سامنے کر بھی سکتا تھا. طوفان تھا، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور جہاز کی قسمت بھی خراب تھی کہ اس کا رخ سمندر میں ابھری چٹانوں کی طرف ہوگیا، لنگر ٹوٹ گیا.. کسی اور کو تو کیا، خود کپتان تک کو معلوم نہیں تھا کہ جہاز کس طرف جارہا ہے۔ سامنے بڑی بڑی چٹانیں دکھائی دے رہی تھیں اور ہوائیں اتنی طاقتور، کہ انہوں نے جہاز کو دھکیل کر ان نوکیلی چٹانوں سے ٹکرا دیا..
ایک زبردست دھماکہ ہوا،
جہاز کے دو ٹکڑے ہو گئے!

میں اپنے آپ کو کسی مبالغے کے بغیر بڑا ماہر تیراک سمجھتا ہوں، لیکن میں اس وقت بپھرے ہوئے سمندر کی لہروں میں ڈوب رہا تھا۔ میں نے ہمت نہیں ہاری۔ جوان تھا، تنومند تھا اس لئے میں تیرتا ہوا ان چٹانوں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر جو کچھ میں نے دیکھا وہ انتہائی ہولناک تھا.. کپتان کا سر پھٹا ہوا تھا اور اس کی لاش میرے سامنے بہہ رہی تھی۔ جہاز کے کئی اور ملازموں کی لاشیں بھی بہتی ہوئی میرے قریب سے گزریں۔ آس پاس بہت سی چیزیں بہہ رہی تھیں۔ ان میں ایک چھوٹی سی کشتی بھی تھی۔ پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے، میں کسی نہ کسی طرح اس کشتی تک پہنچ ہی گیا۔

کشتی میں اپنے آپ کو گرانے کے بعد، میں گویا بے ہوش ہونے لگا۔ میرا پیٹ سمندر کے کڑوے پانی سے بھر گیا تھا۔ الٹا لیٹا تو پانی پیٹ سے نکلنے لگا۔ پھر یکدم طوفان کا زور ٹوٹ گیا۔ یوں لگتا تھا کہ طوفان کا مقصد یہ تھا کہ جہاز ٹوٹ جائے، کپتان اور دوسرے لوگ ہلاک ہو جائیں۔ اب ہوا کی تیزی بھی کم ہوگئی تھی اور بارش بھی ہلکی ہوگئی تھی۔ جہاز چٹانوں میں پھنسا ہچکولے کھا رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ میری کشتی کے پیچھے ساحل ہے، جس کے اونچے اونچے درخت صاف دکھائی دے رہے تھے.

قدرت مجھ پر مہربان تھی، ایک زبردست پانی کی لہر نے میری کشتی کو اچھالا اور ساحل کی ریت پر لا پھینکا۔ میں بہت دیر تک وہیں ریت پر لیٹا رہا۔ ہلکی بارش میرے جسم پر برستی رہی۔ سانس لے کر، ہمت کر کے میں نے سر اٹھا کر جزیرے کی طرف دیکھا۔ یہ ایک انوکھا جزیرہ تھا۔ درخت کم تھے ۔ اونچی چٹانیں نظر آ رہی تھیں۔

دو ڈھائی فرلانگ کے فاصلے پر سمندر میں جہاز ، دو ٹکڑے ہو کر چٹانوں میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ کشتی جو مجھے ساحل تک لائی تھی ، اس کے ایک طرف کے تختے ٹوٹ پھوٹ چکے تھے۔

میں نے سچے دل سے خدا کا شکر ادا کیا، جس نے میری جان بچائی تھی. اس خوفناک اور جان لیوا طوفان نے جہاز کے ٹکڑے کر دیئے تھے اور میرے خیال کے مطابق تمام ملاحوں کو ڈبو کر ہلاک کر دیا تھا۔ کپتان اور بہت سے ملاحوں کی لاشیں تو میں نے خود طوفانی لہروں میں بہتے دیکھی تھیں۔ اگر باقی لوگ زندہ ہوتے، تو ساحل پر نظر آتے، لیکن ان سے کوئی بھی ساحل پر نہیں تھا.. میں اکیلا ہی زندہ و سلامت ساحل تک پہنچا تھا اور اس کے بعد میں نے اپنی زندگی میں ان ملاحوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا.

میں سمندر کو دیکھ رہا تھا۔لہریں کئی چیزیں بہا کر ساحل کی ریت تک لا رہی تھیں۔ ملاحوں کی ٹوپیاں اور جوتے تھے۔ میں نے ایک سرخ ٹوپی اٹھائی، اسے نچوڑا، جھاڑا اور اپنے ننگے سر پر پہن لی. اسی طرح اپنے پیروں میں پورے آنے والے بوٹ اٹھائے، ان میں سے پانی نکالا اور پاؤں میں پہن لیا.

میرے کپڑے تو گیلے تھے ہی، لیک. قمیض کہنیوں سے پھٹ گئی تھی.. بہرحال میں زندہ تھا اور اس پر خدا کا شکر ادا کر رہا تھا..

جاری ہے

روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) دوسری قسط

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close