سوشل میڈیا پر ایک خبر گردش کرتے دیکھی جا سکتی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روس میں ڈبلیو ایچ او کے منع کرنے کے باوجود کورونا وائرس سے مرنے والے ایک مریض کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے جس سے کورونا وائرس کے حوالے سے حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔
یہ حیرت انگیز انکشافات کیا ہیں اور کیا واقعی یہ انکشافات ہیں یا یہ کورونا وائرس کے حوالے سے پھیلنے والی دیگر افواہوں کی طرح محض ایک افواہ ہے۔ آئیے اس بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم کورونا وائرس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ان خبروں کا جائزہ لیں گے۔ ان خبروں میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ:
روس دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے بغرض تحقیق کووڈ-19 سے فوت ہونے والوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ روسی سائنسدانوں کی گہری تحقیقات کے بعد، یہ پتہ چلا کہ کووڈ-19 ایک وائرس کی حیثیت سے موجود نہیں ہے ، بلکہ ایک ایسا جراثیم ہے جو شاید تابکاری سے پیدا ہوا ہے یا یہ ایک تابکاری مادہ ہے، جس کی وجہ سے انسانی جسم کی شریانوں میں خون جم جاتا ہے جس سے آکسیجن کی کمی واقع ہوتی ہے، کیونکہ دماغ، دل اور پھیپھڑوں کو آکسیجن نہیں مل پاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
موقر نیوز ایجنسی روئٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے ان خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہونے کی وجہ معلوم کرنے کے لئے ، روس میں ڈاکٹروں نے ڈبلیو ایچ او کے منع کرنے کے باوجود کووڈ-19 سے مرنے والے مریض کا پوسٹ مارٹم کیا۔ پوسٹ مارٹم کے دوران ڈاکٹروں نے بازوؤں، ٹانگوں اور جسم کے دیگر حصوں کو کھولا اور ان کا بغور جائزہ لینے کے بعد انھوں نے پایا کہ مریض کی خون کی نالیاں خراب ہو چکی ہیں اور ان میں جگہ جگہ خون جما پڑا ہے اور کلاٹس بن چکے ہیں۔ جس سے خون کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اور آکسیجن کے بہاؤ میں بھی کمی واقع ہونے سے اس مریض کی موت واقع ہوئی ہے۔
ان خبروں میں مزید بتایا جارہا ہے کہ اس تحقیق کے بارے میں جاننے کے بعد ، روسی وزارت صحت نے فوری طور پر کووڈ-19 کے علاج معالجے میں تبدیلی کی اور اپنے مثبت مریضوں کو اسپرین دی، جس کے نتیجے کے میں مریض صحت یاب ہونا شروع ہو گئے۔ روسی وزارت صحت نے ایک دن میں 14،000 سے زیادہ مریضوں کو ہسپتالوں سے باہر نکالا اور انہیں گھر بھیج دیا..
ان خبروں کے مطابق یہ بیماری دراصل فائیو جی کی تابکاری کی وجہ سے پھیلی ہے اور اس سے بچنے کے لئے فیس ماسک، ویکسین اور لاک ڈائون کی احتیاطی تدابیر لاحاصل ہیں.
ان خبروں کے مطابق روسی ڈاکٹروں نے اس بیماری کو عالمی سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا علاج موجود ہے لیکن دنیا کو بتایا نہیں جا رہا۔ ان کے مطابق کووڈ-19 کی حیثیت خون کی رگوں میں خون کے جمنے سے بڑھ کچھ نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بیماری وائرس سے نہیں بلکہ ایک بیکٹیریا کی وجہ سے پھیلتی ہے جس کا علاج اسپرین اور اینٹی بائیوٹک ہے۔ ان کے مطابق چین پہلے سے ہی اس علاج کو جانتا تھا، یہی وجہ ہے کہ چین میں کورونا وائرس کی کوئی نئی لہر نہیں آئی۔
دوسری طرف روس کے محکمہ صحت اور ریوٹرز نامی ویب سائیٹ، جس کا حوالہ دیا گیا ہے، نے ان تمام خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے کبھی بھی کورونا وائرس سے مرنے والوں کے پوسٹ مارٹم سے نہیں روکا اور روس کوئی واحد ملک نہیں ہے جہاں اس قسم کا پوسٹ مارٹم ہوا ہے۔ اس سے پہلے کورونا سے مرنے والوں کے پوسٹ مارٹم جرمنی، اٹلی اور برطانیہ میں بھی ہو چکے ہیں۔
اس خبر پر کہ کووڈ-19 کی وجہ کوئی وائرس نہیں بلکہ بیکٹیریا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو روس کی وزارت صحت سے اس کی تصدیق ہو جاتی لیکن ان کی ویب سائیٹ پر آج بھی کووڈ-19 کی وجہ ایک وائرس کو ہی قرار دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے ریوٹرز ویب سائیٹ پر بتایا گیا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کورونا وائرس انفیکشن بڑھ جائے تو اس کی وجہ سے کچھ بیکٹیریل انفیکشنز بھی لاحق ہو جائیں، لیکن کووڈ-19 کی اصل وجہ وائرس ہی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس خون کی شریانوں میں خون جمنے کا باعث بھی بن سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایسا تمام کیسز میں ہوتا ہو.
دوسری جانب جہاں تک فائیو جی کا تعلق ہے تو ریڈی ایشنز سے پھیلنے والی بیماریاں ایک شخص سے دوسرے میں نہیں پھیلتیں، لیکن کورونا وائرس پر اب تک ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیل سکتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بعض ریڈی ایشنز سے ہونے والی بیماریوں کی علامات کورونا وائرس سے ملتی جلتی ہیں، لیکن کورونا وائرس ایک بالکل الگ چیز ہے۔ اس بیماری کی وجہ ریڈی ایشنز سے ہونے کے کوئی ثبوت اب تک نہیں ملے ہیں.
فیس ماسک اور لاک ڈائون کے اس بیماری کو روکنے میں غیر موثر ہونے کے دعوے کے متعلق ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس حوالے سے ٹھوس تحقیقات موجود ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ فیس ماسک اور سماجی فاصلہ کووڈ-19 کی روک تھام میں معاون ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کووڈ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف کافی موثر پائی گئی ہے
قارئین، یہاں دونوں طرف کے فریقوں کے موقف آپ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے ایک عام آدمی کے لئے فیصلہ کرنا یقیناً مشکل ہے کہ وہ کس پر یقین کرے اور کس کو جھٹلائے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے سازشی نظریات پولیو اور دوسری بیماریوں کے حوالے سے بھی موجود ہیں اور ان کو پھیلانے والے یہ جانتے ہیں کہ عام عوام میں یہ بہت جلد مقبول ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک کووڈ-19 کا تعلق ہے تو ایک عام آدمی کے پاس ڈبلیو ایچ او کے پروٹوکولز پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی چوائس اور چارہ موجود نہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ سازشی نظریات کو سچ سمجھ کر اپنی یا اپنے کسی پیارے کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لیکن بہرحال اس طرح کے شکوک کو مکمل طور پر جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا.
اہم بات یہ ہے کہ روس اس سے پہلے کورونا وائرس کے حوالے سے ویکسین بنا چکا ہے بلکہ وہ کئی ممالک کو یہ ویکسین ایکسپورٹ بھی کر چکا ہے۔ مزید یہ کہ اس خبر کو پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں کوئی خاص پزیرائی نہیں مل سکی۔ یہ بات سچ ہے کہ دنیا میں جو کچھ میڈیا پر دکھایا جاتا ہے وہ مکمل درست نہیں ہوتا لیکن یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں خود اس حوالے سے مستند تحقیق کرنی چاہیے تاکہ نہ آپ لوگ میڈیا کا اور نہ ہی سازشی نظریات والوں کا شکار بن سکیں۔
نوٹ: ادارے کا مضمون کے متن سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.