لاہور : سیاسی حالات سے واقفیت رکھنے والے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد بحران میں مبتلا ہو گئی ہے اور مفاہمتی اور مزاحمتی بیانیے والے ایک دوسرے کو اس ناکامی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں تاہم دونوں جانب سے کوئی بھی اس موضوع پر بات نہیں کر رہا
اگرچہ میاں نواز شریف سے قربت رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے حلقوں کی جانب سے پارٹی صدر شہباز شریف کی ناراضگی اور استعفوں کی خبروں کی تردید کرتے نظر آتے ہیں ہیں لیکن خود شہباز شریف کی جانب سے ابھی تک نہ تو تصدیق سامنے آئی ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کی تردید کی ہے، حتیٰ کہ وہ کسی طرح کا بیان دینے سے بھی احتراز کر رہے ہیں جبکہ مریم نواز ”کورونا“ کے باعث کوئی ردعمل نہیں دے رہی ہیں۔ مسلم لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق بعض سینئر مسلم لیگی اس بحرانی صورتحال کو ختم کرنے کےلئے سرگرم عمل ہیں
انہوں نے نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز سے مسلسل رابطہ کیا ہوا ہے ایک سینئر مسلم لیگی رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ کوئی بڑا بحران نہیں ہے۔ شہباز شریف کے استعفیٰ دینے کی خبر سراسر غلط ہے. شہباز شریف ایسا نہیں کر سکتے ناراضگی بھی سخت لفظ ہے
اس سوال کے جواب میں کہ کیا مسلم لیگ تین سال میں پہلی مرتبہ سخت بحران میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) گزشتہ آٹھ سات برسوں سے بحران میں ہے البتہ عوامی تائید و حمایت اسے حاصل ہے
رہنما نے کہا کہ دونوں بیانیوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت و حیثیت ہے ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ان کو کس انداز میں پیش کرنا ہے۔ نواز شریف تو اب کسی کا نام بھی نہیں لیتے اس لئے اس بیانیے کو کلی طور پر الزام نہیں دیا جا سکتا
دریں اثنا ”مزاحمتی بیانیے“ کے حامی اراکان کا کہنا ہے کہ مزاحمتی بیانیہ ہی ملک کی ترقی اور استحکام کا ضامن ہے
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پارٹی رہنما کی طرف سے شہباز شریف کی ناراضگی اور استعفے کی دھمکی پر مبنی خبروں کی تردید پر بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط عائد کرنا اس بات کی غماز ہے کہ اختلافات کی خلیج واضح طور پر وسیع ہو چکی ہے.