روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) چھٹی قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

❖ فرائیڈے

وہ جنگلی لڑکا وہیں، مجھ سے کچھ دور کھڑا حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے شکریہ اور احسان مندی جھلک رہی تھی اور ایک طرح کی حیرانی بھی کہ میرے پاس یہ کیسی چیز تھی کہ جس سے میں نے وہیں کھڑے دور سے آنے والے دو آدم خوروں کو ہلاک کر دیا تھا.

شاید وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ میں نے اس کی جان کیوں بچائی ہے! میری اپنی کیفیت بھی بہت عجیب اور انوکھی تھی. ایک طویل مدت کے بعد میں انسان کے بچے کو اپنے سامنے دیکھ رہا تھا. میں نے اسے اشارہ کیا کہ وہ میرے پاس آئے، لیکن وہ سہما سہما حیران سا وہیں کھڑا رہا۔ میں خود اس کے پاس گیا اور اسے یوں دیکھنے لگا، جیسے وہ کوئی عجیب مخلوق ہو۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا. اس کا چہرہ بھولا بھالا تھا  اس کے بال لمبے تھے اور ہوا میں لہرا رہے تھے. انسان کے اس بچے کو دیکھ کر میں بے حد مسرور ہوا اور بے اختیار میری آنکھیں خوشی سے آنسو بہانے لگیں..

میں نے شفقت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی انگریزی زبان میں کہا۔
’’میں تمہارا دوست ہوں.. تم بھی میرے دوست بنو.‘‘
لڑکے کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ میری بات کو نہیں سمجھا، وہ میری زبان سے آشنا نہیں ہے۔ میں خوشدلی سے ہنسنے لگا اور پھر کہا۔
"میرے بچے، کیا تم انگریزی نہیں سمجھتے؟‘‘
لڑکا اب بھی کچھ نہ سمجھ سکا، لیکن میرے چہرے کی کیفیت اور میری شفقت بھری حرکتوں سے وہ اتنا ضرور سمجھ گیا کہ میں اس کا ہمدرد ہوں ۔ میں نے اس کی جان آدم خوروں سے بچائی ہے.

میں نے دوربین لگا کر سمندر کی طرف دیکھا. آدم خوروں کی کشتی اب اتنی دور نکل گئی تھی، کہ سمندر میں ایک بڑے دھبے جتنی دکھائی دے رہی تھی. میں سو چنے لگا کہ یہ کون ہیں، کس طرف سے آئے تھے اور اب کدھر جا رہے ہیں.. بہرحال ایک بات تو میں بخوبی سمجھ گیا تھا کہ جس جزیرے میں کھڑا تھا، جہاں میں برسوں سے رہتا چلا آ رہا تھا، اس جزیرے کے قریب ہی کوئی دوسرا جزیرہ بھی ہے، جہاں کوئی وحشی آدم خور قبیلہ آباد ہے.

میں نے ایک بار پھر جنگلی لڑکے کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ تو وہ یکدم میرے قدموں میں گر گیا اور اپنی زبان میں میرے احسان کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ میں اس کی زبان تو نہیں سمجھتا تھا، لیکن اُس کی اِس حرکت اور اس کے لہجے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ میرا احسان مند ہے  میں نے اسے اپنے قدموں سے اوپر اٹھایا اور اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا، تو وہ میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا. ہم کیبن کے قریب پہنچے جہاں سیڑھی لٹک رہی تھی. میں سیڑھی سے اوپر چڑھ گیا اور اسے بھی سیڑھی کے ذریعے اوپر آنے کا اشارہ کیا. وہ خوشی خوشی اوپر آ گیا. میرے کتے نے اس کا استقبال ناراضگی سے بھونک بھونک کر کیا. میں نے کتے کو چپ کرا لیا.

لڑکے کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ بھوکا ہے، اس لئے میں نے لکڑی کی پلیٹ میں اسے پھیکا دلیہ ڈال کر دیا. وہ اسے غور سے دیکھتا رہا پھر کھانے لگا اور ساری پلیٹ چٹ کر گیا.

میں یہ جاننے کے لئے بے چین تھا کہ وہ کون ہے اور یہ آدم خور اس کی جان کیوں لینا چاہتے تھے اور کون تھے.. لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ میری زبان نہیں جانتا تھا اور میں اس کی زبان سے ناواقف تھا، لیکن ان برسوں میں اشاروں کی زبان خاصی جان گیا تھا. اس لئے میں نے اس سے اشاروں میں پوچھا کہ وہ مجھے بتائے کہ وہ کون ہے..

اس جنگی لڑکے نے اپنی عجیب و غریب غوں غوں کرتی زبان اور اشاروں میں مجھے جو کچھ بتایا، اس سے میں یہ جاننے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ اس جزیرے کے قریب واقع ایک جزیرے کا رہنے والا ہے، جہاں اس کا باپ قبیلے کا سردار تھا۔ دشمن قبیلے نے ان پر حملہ کیا اور سارے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور وہ اسے بے آباد سنسان جزیرے پر اس لئے لائے تھے کہ اس کے ٹکڑے کر کے آگ میں بھون کر کھا جائیں..

اس کی کہانی خوفزدہ کر دینے والی تھی، کیونکہ میرے دل میں تو پہلے سے ہی آدم خوروں کا خوف موجود تھا جو اگرچہ برسہا برس سے اس جزیرے پر رہتے ہوئے اور کسی آدم خور کو نہ دیکھ کر کم پڑ گیا تھا۔ لیکن اب تو یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اس جزیرے کے قریب ہی کوئی جزیرہ ہے، جہاں یہ آدم خور آباد ہیں. میرے دل نے مجھے خبردار کیا کہ وہ آدم خور ایک بار پھر حملہ کرنے آئیں گے..

اس کی دو معقول وجوہات تھیں. انہیں معلوم تھا کہ ان کا دشمن اب اس جزیرے میں میری پناہ میں ہے.
دوسری وجہ یہ کہ میں نے ان کے دو آدمیوں کو ہلاک کیا تھا اور و ہ اس کا بدلہ لینے ضرور آئیں گے..

ان وحشی آدم خوروں سے مقابلہ کرنے کے لئے میں نے تیاریاں شروع کر دیں.. میں نے اس  لڑکے کو پستول چلانا سیکھایا. میں نے اس کا نام بھی رکھ دیا تھا. چونکہ وہ اس جز یرے پر جس دن مجھے ملا تھا، اس دن فرائیڈے (جمعہ) تھا، اس لئے میں نے اس دن کی نسبت سے اس کا نام فرائیڈے رکھ دیا.

دو چار روز کی کوشش کے بعد فرائیڈے پستول کا استعمال سیکھ گیا. میں نے لکڑی کی دیوار میں چھ جگہ چھوٹے چھوٹے سوراخ بنا دیے، تاکہ اگر دشمن حملہ کرے تو دیوار کے پیچھے سے جوابی کاروائی کی جا سکے. بارود بھی میرے پاس کافی تھا اور چھرے بھی تھیلی میں بھرے پڑے تھے۔

ایک احتیاطی تدبیر میں نے یہ اختیار کی کہ جنگل سے کانٹوں والی جھاڑیاں لاکر دیوار کے اوپر اس طرح سے بچھا دیں، کہ کسی کے بھی اندر آنے میں رکاوٹ پیدا ہو جائے.

جنگلی لڑکے فرائیڈے کو تیر اندازی میں بڑی مہارت تھی. میں نے اس کے لئے ایک بہت اچھی کمان بنا دی اور ایسے تیر بھی بنا کر دیئے، جن کی نوکیں بہت تیز تھیں۔ یوں فرائیڈے بھی مسلح ہوگیا. اس نے مجھے اشاروں میں خبردار کر دیا تھا کہ آدم خور وحشی ضرور حملہ کریں گے. وہ اسے حاصل کرنے اور اپنے مارے جانے والے ساتھیوں کا بدلہ لینے اس جزیرے پر ضرور آئیں گے. بہرحال ہم نے اپنی طرف سے پوری تیاری کرلی تھی اور میں صبح و شام دور بین سے دور دور تک جزیرے کا جائزہ لے لیتا تھا کہ کہیں آدم خور جزیرے میں داخل تو نہیں ہو گئے. یوں فرائیڈے کو اس جزیرے میں آئے ایک ہفتہ ہو گیا. اب وہ میرا رفیق بن گیا تھا. اس نے انگریزی کے کئی لفظ سیکھ لئے تھے اور وہ مجھے ماسٹر کہہ کر مخاطب کرتا تھا. ایک دن اس نے مجھ سے اپنے انداز میں پوچھا کہ میں اس جزیرے میں کب سے ہوں، کیسے رہتا ہوں؟ میرے بالوں کی حالت دیکھ کر اس نے یہ انداز ہ لگا لیا تھا کہ میں اس جزیرے میں بہت عرصے سے مقیم ہوں.

میں نے فرائیڈے کو اپنی بدقسمتی کی پوری داستان سنائی کہ کس طرح جہاز تباہ ہوا اور میں اکیلا ہی زندہ بچ سکا. اس کے بعد اس جزیرے میں اب تک میں نے جو کچھ کیا تھا اسے وہ دکھایا. میری بنائی ہوئی ہر چیز میں اس نے دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ میری بہادری سے بہت متاثر ہوا ہے اور اس کے دل میں میرے لئے ہمدردی بھی پیدا ہوگئی ہے.

فرائیڈے بہت کام کرنے والا لڑکا تھا. وہ بہت سے کاموں میں میرا ہاتھ بٹانے لگا. وہ گندم کے دانوں کو پٹک کر بالیوں سے علیحدہ کرتا، پھر انہیں جمع کر کے پتھر پر پیس کر ان کا آٹا بناتا. اس کے بعد وہ روٹی بناتا. وہ کتے کو سمندر کے پاس لے جا کر اسے نہلاتا. جنگل میں جا کر جنگلی انگور توڑ کر لاتا اور انہیں خشک کرنے کے لئے ڈال دیتا. وہ ایک دن تیر کمان لے کر شکار کو نکلا اور دو بکریوں کو شکار کر کے لے آیا تو ہم دونوں نے ان کا گوشت بھون کر کھایا. میں نے اسے پوچھا کہ وہ چونکہ آدم خور قبیلے سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے کیا اب بھی اس کے دل میں آدمیوں کا گوشت کھانے کی خواہش ہے؟ میرے سوال کو سمجھ کر وہ بوکھلا گیا اور کہنے لگا کہ اب وہ بکری کا گوشت ہی پسند کرتا ہے اور انسانوں کا گوشت کھانا نہیں چاہتا۔ اس کے اس جواب سے مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ میں خود اس میں اچھی تبدیلیاں لانے کا خواہش مند تھا. میں چاہتا تھا کہ اس کا جنگلی پن ختم ہو جائے. میں نے اسے کئی نئے الفاظ سکھائے اور اسے بتائے بغیر اس کی خوراک میں سے گوشت کم کرنا شروع کر دیا اور اسے زیادہ تر روٹی اور انگور پر مشتمل خوراک کھلاتا. تاکہ اس کی گوشت خوری کی عادت ہی سرے سے چھوٹ جائے.
یوں فرائیڈے کو میرے پاس رہتے ایک ماہ ہو گیا.

❖ حملہ

ایک مہینے کے بعد ایک رات میں اپنی عادت کے مطابق بیٹھا ہوا بندوق صاف کر رہا تھا اور پستول صاف کرکے تخت پر رکھ دیا تھا۔ اس وقت فرائیڈے پتھر کی سل پر گندم کے دانے پیس رہا تھا۔ کیبن کے اندر ایک طرف پتھر کے چولہے میں آگ جل رہی تھی۔ جب میں بندوق صاف کر چکا تو مجھے نیند آنے لگی۔ اصل میں آج میں پھر بہت اداس اور مایوس تھا۔ آج بھی کوئی جہاز ادھر سے نہیں گزرا تھا ۔ بعض اوقات میں اس خیال سے بہت دُکھی ہو جاتا تھا کہ میں آخر کب تک اس ویران جزیرے میں یونہی پڑا رہوں گا..؟

میں نے فرائیڈے کو بتایا کہ میں اب سونے لگا ہوں اور کچھ دیر پہرہ دینے کے بعد وہ بھی سو جائے۔ میں تخت پر لیٹا اور جلد ہی سوگیا۔

لگ بھگ آدھی رات کے وقت فرائیڈے نے مجھے ہلا کر جگا دیا.. میں نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا ’’کیا بات ہے فرائیڈے؟‘‘
اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مجھے بتایا کہ اس کے خیال میں کوئی کیبن کے باہر گھوم رہا ہے..
میں فوراً اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے پستول فرائیڈے کو دیا اور بندوق خود سنبھال لی۔ ہم دونوں دیوار میں بنائے گئے سوراخوں کے پیچھے گویا اپنے مورچوں میں بیٹھ گئے۔ یہ خیال اطمینان بخش تھا کہ دیوار کے اوپر میں نے کانٹوں والی جھاڑیاں بکھیری ہوئی ہیں۔

میں کان لگا کر پوری توجہ سے کوئی آواز سننے کی کوشش کرنے لگا۔ رات خاموش تھی، صرف سمندر کی لہروں کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے سوراخ سے آنکھ لگا کر باہر کا جائزہ لیا تو وہاں بھی کوئی دکھائی نہ دیا۔ پتوں پر چلنے کی بھی کوئی چاپ سنائی نہ دی۔ یہ کام بھی میں نے بطور خاص کیا تھا کہ کیبن کے نیچے چاروں طرف خشک پتے جمع کر دیئے تھے کہ اگر کوئی ان پر چلے، تو اس کے قدموں کی چاپ سنائی دے۔ جب مجھے کچھ بھی دکھائی دیا نہ شبہ ہوا، تو میں نے سرگوشی میں پوچھا۔
’’کون ہے، کہاں ہے؟ فرائیڈے..‘‘
فرائیڈے نے اپنے ایک کان پر ہاتھ رکھ کر منہ سے ہلکی سی آواز نکالی، جو کسی جانور کی بولی سے ملتی تھی۔ اس نے اس طرح مجھے بتایا تھا کہ کوئی آدم خور اس جزیرے پر آ چکا ہے اور اس آدم خور نے ایسی ہی خاص آواز نکال کر اپنے کسی دوسرے آدم خور ساتھی کو اپنے پہنچ جانے کی اطلاع دی تھی۔ چونکہ فرائیڈے ایسی آوازوں اور اشاروں کے بارے میں پورا علم رکھتا تھا۔ اس لئے وہ چوکس ہو گیا اور مجھے جگا دیا تھا۔

اتنے برسوں سے اس ویران جزیرے پر رہتے ہوۓ میں اندھیرے میں بھی عام آدمی کی نسبت صاف صاف دیکھ لیا کرتا تھا، کیونکہ میرے لئے اندھیرا ندھیرا نہیں رہا تھا۔ یوں کہہ لیں کہ میں الو کی طرح اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا تھا. ہم اپنے اپنے مورچوں پر ڈٹے بیٹھے رہے۔

آسمان بالکل تاریک نہیں تھا۔ ستاروں نے اپنی چمک سے ہلکی ہلکی روشنی پھیلا رکھی تھی لیکن سوائے سمندر کی لہروں کی دھیمی آواز کے کوئی دوسری آواز کہیں سے ہمیں سنائی نہیں دیتی تھی، اس کے باوجود میں فرائیڈے کی اطلاع پر شک نہیں کر سکتا تھا۔ وہ جزیرے میں پیدا ہوا تھا۔ فطرت کی گود میں پرورش پانے والا فرائیڈے کوئی غلطی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے کانوں نے لازمی طور پر وہ مشکوک آواز سنی ہوگی.

گھڑی نہ ہونے کی وجہ سے وقت کا صحیح اندازہ تو لگانا ممکن نہیں تھا، لیکن اس جزیرے میں رہتے ہوئے دن رات کے وقت کا اندازہ لگانے کی مجھے خاصی مہارت ہو چکی تھی۔ اس وقت میرے خیال میں نصف شب گزر چکی تھی اور رات آہستہ آہستہ صبح کی طرف بڑھ رہی تھی۔

میں کان لگائے دشمن کی چاپ سننے کے لئے بے چین تھا۔ میری آنکھیں اندھیروں کو چیر کر باہر دیکھ رہی تھیں۔ کافی دیر تک ہم دونوں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے چوکس اور ہوشیار بیٹھے رہے۔ باہر خاموشی تھی۔ رات تھی اور سمندر کی لہروں کا ہلکا شور تھا.. میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے باہر نکل کر دشمن کا سراغ لگانا چاہیے۔ میرے دل میں کوئی خوف نہیں تھا، کیونکہ میں اسلحہ سے لیس تھا اور جزیرے کے چپے چپے سے پوری طرح واقف تھا۔ اس لئے میرے لئے دشمن کی نظروں سے چھپ کر دشمن کو تلاش کرنا مشکل نہیں تھا۔ میں نے فرائیڈے کو اشاروں اور الفاظ سے ہدایات دیں۔ ’’میں دشمن کو دیکھنے باہر جا رہا ہوں۔ وہ یہاں ہوشیار اور چوکس رہے۔ جونہی میں نیچے اتر جاؤں، وہ فوراً رسی کی سیڑھی کو اوپر کھینچ لے اور میں جب سیٹی بجاؤں تو وہ فوراً ہی رسی کی سیڑھی کو نیچے لٹکادے تاکہ میں اوپر آ سکوں۔“

میں نے ایک ایک بات اسے اچھی طرح سے سمجھا دی۔ وہ ذہین لڑکا تھا اس لئے سب کچھ سمجھ گیا۔ میں نے سیڑھی نیچے لٹکائی اور پھر اس کے ذریعے نیچے اتر گیا۔

میں خاموشی سے کیبن سے باہر نکلا میرے پاس بندوق بھی تھی اور ایک چھرا بھی۔ عین اسی وقت میرے طوطے نے ٹیں ٹیں شروع کر دی۔ اس وقت مجھے اس کی یہ ٹیں ٹیں بری گی۔ شاید وہ میرے ساتھ جانے کے لئے ٹیں ٹیں کر رہا تھا۔ اس کی آواز سن کر کوئی الو بھی بول پڑا تھا۔ بہرحال میں باہر آیا۔ نیچے اتر اور فرائیڈے نے فوراً سیڑھی اوپر کھینچ لی۔ طوطا خاموش ہو گیا تھا.

میں کچھ دیر ایک درخت کے نیچے تاریکی میں کھڑا رہا، پھر بہت آہستہ سے آواز پیدا کئے بغیر میں جھاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتا ٹیلے کی طرف بڑھنے لگا کیونکہ پہلی بار اس ٹیلے سے میں نے آدم خوروں کو جزیرے میں دیکھا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس ٹیلے پر چڑھ کر میں دور بین سے ان کو دیکھ سکوں گا یا پھر ان کی کشتی مجھے ساحل پر نظر آ جائے گی۔ بہت احتیاط سے ایک ایک قدم پھونک کر اٹھاتے ہوئے میں اس ٹیلے کے اوپر چڑھا اور جھاڑیوں کی اوٹ سے سمندر کے کنارے کی طرف دیکھا۔

میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا… سمندر کے کنارے وحشی آدم خوروں کی کشتی کھڑی تھی!

اب کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ ہوشیار اور ذہین فرائیڈے نے درست اطلاع دی تھی۔ آدم خور اس جزیرے میں اتر چکے تھے اور وہ کس لئے آئے تھے، اس کے بارے میں کسی شک کی گنجائش نہیں تھی۔ میں ہے آواز قدموں سے، لیکن پہلے سے تیز رفتار کے ساتھ واپس چل دیا۔ میرے اندازے کے مطابق آدم خور چار پانچ سے کم نہیں ہو سکتے تھے۔ جھاڑیوں اور درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا، کیبن کی طرف بڑھتا ہوا میں سوچ رہا تھا کہ اگر میری غیر حاضری میں آدم خوروں نے کیبن پر حملہ کر دیا تو اکیلے فرائیڈے کے لئے ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اگرچہ اس کے پاس تیر کمان اور پستول بھی تھا پھر بھی وہ اکیلا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔

میرے اندیشے درست ثابت ہوئے۔ عین اسی لمحے کیبن سے پستول چلنے کی آواز سے پورا جنگل گونج اٹھا۔ یہ فائر فرائیڈے نے کیا تھا۔ پرندے درختوں پر شور مچانے لگے۔ میں کیبن کی طرف بھاگا۔

مجھے آدم خوروں کے چیخنے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ میں کیبن کے قریب ایک بڑے درخت کے پیچھے آ کر چھپ گیا۔

دو آدم خور کیبن کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فرائیڈے دیوار میں بنے سوراخوں کے راستے سے پستول کے فائر کر رہا تھا۔ دو دوسرے ننگے آدم خوروں نے کیبن پر تیروں کی بارش کر دی تھی۔ میں نے ایک آدم خور کا نشانہ لیا اور بندوق چلا دی۔ دھماکے کے ساتھ گولی چلی اور وہ آدم خور چیخ کر اچھلا اور پھر زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ میں نے اس کے فوراً بعد دوسرے آدم خور کو نشانہ بنایا اور گولی چلا دی۔ وہ آدم خور لنگڑاتا ہوا تیزی سے ایک طرف بھاگنے لگا۔

فرائیڈے کا حوصلہ بھی بڑھ گیا۔ کیونکہ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ میں وہاں پہنچ گیا ہوں اور دشمنوں کو ہلاک کر رہا ہوں۔ اس نے کیبن کے اندر سے دشمنوں پر دھڑا دھڑ فائرنگ شروع کر دی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کی کوئی گولی دشمنوں کو نہیں لگ رہی تھی، لیکن پستول کے دھماکوں نے آدم خوروں کو ڈرا ضرور دیا تھا اور وہ بھاگ گئے۔

میرے پاس اب بارود نہیں رہا تھا۔ اس لئے میں بندوق سے کوئی فائر نہیں کر سکتا تھا۔ چھرا میرے پاس تھا لیکن آدم خوروں کی تیراندازی کے سامنے اس کی کیا حیثیت تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جلد از جلد کیبن میں پہنچ جاؤں۔ جب آدم خور بھاگے اور میدان صاف ہوا تو میں نے اشارے کی ہلکی سی سیٹی بجائی۔

فرائیڈے نے فوراً رسی کی سیڑھی نیچے لٹکا دی۔ میں تیزی سے بھاگا اور سیڑھی پر چڑھ کر اوپر پہنچا اور سیڑھی کو تیزی سے اوپر کھینچ لیا۔ فرائیڈے، جو کچھ سہما ہوا تھا، میری واپسی پر بہت خوش ہوا۔ میں نے جلدی سے اپنی بندوق میں بارود بھرا اور دیوار کے سوراخ سے باہر دیکھنے لگا۔

آدم خور اپنے ساتھی کی لاش گھسیٹ کر لے گئے تھے۔ آس پاس ان کا کوئی نام ونشان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ باہر مکمل خاموشی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ دشمن ہار کر وہاں سے بھاگ چکا ہے۔ تاہم میں چوکس بیھا رہا کیونکہ دشمن وہیں کہیں گھات لگا کر بھی بیٹھ سکتا تھا اور کسی طرف سے بھی کوئی تیر آ سکتا تھا۔ کوئی آدم خور درخت پر چڑھ کر بھی کیبن کے اندر چھلانگ لگا سکتا تھا.

ہم انتظار کرتے رہے۔ رات ختم ہو رہی تھی۔ صبح کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ میں نے اشاروں ہی سے فرائیڈے سے کہا کہ وہ اب سو جائے، میں پہرہ دوں گا۔ لیکن اس نے سر ہلا کر انکار کر دیا اور کہا کہ میں آرام کروں۔ لیکن یہ وقت آرام کا نہیں تھا۔ دشمن کا کوئی بھروسہ نہیں تھا…

(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close