طرزِ زندگی میں تبدیلی سے 90 فیصد بیماروں سے بچاؤ ممکن: چوٹی کے ماہرِ غذائیت کا انٹرویو

ویب ڈیسک

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی میں پروفیسر آف میڈیسن اور ’ہیلتھ فار لائف ریسرچ‘ شعبے کے سربراہ پروفیسر لوئیجی فونٹینا کا کہنا ہے کہ سو سال کی عمر میں انسان چالیس سال جیسی صحت اور اسٹیمنا حاصل کر سکتا ہے، مگر اس کے لیے زندگی کے بارے میں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا

انہوں نے کہا کہ 90 فیصد بیماریوں سے بچاؤ طرزِ زندگی میں تبدیلی کے ذریعے ممکن ہے

پروفیسر فونٹینا نے اس بارے میں لوگوں کو اپنی صحت بہتر بنانے کے لیے مفید مشورے بھی دیے۔

پروفیسر لوئیجی فونٹینا ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ طبی سائنسدان اور انسانوں میں غذائیت اور صحت مند لمبی عمر کے میدان میں دنیا کے چوٹی کے سائنس دانوں میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔

دا انڈپینڈنٹ نے حال ہی میں ان سے ایک انٹرویو کیا ہے، جسے ہم سنگت میگ کے قارئین کے لیے یہاں پیش کر رہے ہیں

سوال: پروفیسر فونٹینا، آپ عالمی نظامِ صحت کو اکثر ’ہیلتھ کیئر سسٹم‘ نہیں بلکہ ’سک کیئر سسٹم‘ (sick care system) قرار دیتے ہیں، جس پر ہر سال کھربوں ڈالر ضائع کیے جاتے ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ اس نظام میں کیا خرابی ہے اور اسے کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟

جواب: مجھے غلط نہ سمجھا جائے، ہم نے جدید طب میں بےتحاشا ترقی کی ہے اور بہت سی مہلک بیماریوں کا اینٹی بایوٹکس، ویکسینز سٹیٹنز، اینٹی ہائپر ٹینسیو جیسی ادویات کی مدد سے علاج کیا ہے، لیکن اب ہم ہسپتالوں میں جو بیماریاں دیکھتے ہیں وہ دائمی بیماریاں ہیں، نہ کہ متعدی بیماریاں۔ ان دائمی بیماریاں کی متعدد وجوہات ہیں جن کا تعلق غیر صحت مند طرزِ زندگی سے ہے۔

اس وقت ہم جو کام کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنے ڈاکٹروں کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ بیماریوں کی اس وقت تشخیص کریں جب وہ پہلے ہی لاحق ہو چکی ہوں اور ہم ان کا ادویات اور سرجری سے علاج کرتے ہیں۔

حالانکہ ہمارا خیال ہے کہ ہمارے نظامِ صحت کو پائیدار بنانے کا واحد طریقہ بیماریوں سے بچاؤ میں سرمایہ کاری کرنا ہے، کیوں کہ بہت سی عام دائمی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت دعویٰ کرتا ہے کہ دل کی 80 فیصد بیماریوں، ذیابیطس اور فالج سے بچاؤ ممکن ہے، میرے اپنے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ یہ شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے، شاید 90 فیصد کے قریب۔

عالمی ادارۂ صحت یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ 40 فیصد کے قریب کینسر سے پرہیز ممکن ہے، میرے حساب سے اصل شرح اس سے بھی زیادہ ہے۔

سوال: پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان اور برصغیر میں روایتی خوراک میں اناج، چکی سے پسا آٹا اور سبزیاں شامل تھیں، لیکن حالیہ برسوں میں رجحان مغربی خوراک کی طرف بڑھا ہے اور فاسٹ فوڈ، سوڈا اور جوس جیسے میٹھے مشروبات خوراک میں شامل ہوئے ہیں۔ اس کے اثرات کیا ہیں؟

جواب: اس کا بہت بڑا اثر ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی شرح پاکستان اور انڈیا میں بہت زیادہ ہے بلکہ امریکہ سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں خوراک محدود تھی اور لوگ بہت زیادہ ورزش کیا کرتے تھے، لیکن جب وہ اس قسم کی خوراک کی طرف آئے جس کا آپ نے ذکر کیا، جس میں بہت زیادہ میٹھا، بہت زیادہ چکنائی، الٹرا پراسیسڈ خوراک، شامل ہے، اس کی وجہ سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔

ذیابیطس دل کی بیماری، فالج، گردوں کی بیماریوں، اعصابی بیماریوں اور کینسر کا سبب بنتا ہے۔ یہ انڈیا (اور پاکستان) میں بہت بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ یہاں ’وسطی موٹاپے‘ کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کمر پھیلتی جا رہی ہے جو اچھی بات نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ذیابیطس اور دوسری کئی دائمی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

سوال: اسے بدلنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟

جواب: اس کے کئی طریقے ہیں۔ سب سے پہلے ورزش آتی ہے، جو لازمی ہے۔ سڈنی منتقل ہونے سے پہلے میں امریکہ میں واشنگٹن یونیورسٹی میں کام کرتا تھا۔ ہم نے وہاں کچھ اہم تحقیقات کیں جن سے پتہ چلا کہ ہفتے میں چھ دن ایک گھنٹے تک ورزش، جیسے دوڑنا، سائیکل چلانا، تیرنا، آپ کے پیٹ کی 40 فیصد چربی کو کم کر سکتی ہے اور آپ کے جسم میں گلوکوز کی مقدار میں بہت بہتری آ سکتی ہے، جس سے دل کی بیماری کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

سو ورزش لازمی ہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ورزش ایک طاقتور دوا ہے جسے ہر روز لینا چاہیے۔ تھوڑی مقدار سے شروع کریں اور آہستگی سے بڑھاتے ہوئے اسے ایک گھنٹہ فی دن تک لے جائیں۔ اس میں endurance اور resistance دونوں طرح کی ورزشیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو اپنی خوراک تبدیل کرنی ہے۔ آپ کو واپس اپنی روایتی انڈین/پاکستانی خوراک پر جانا چاہیے، جس میں سفید چاول نہ ہوں بلکہ براؤن چاول شامل ہوں۔

آپ کو چربی کم کرنی چاہیے، آپ بہت زیادہ چربی استعمال کر رہے ہیں، یعنی ویجیٹیبل آئل۔ جب آپ اپنی دال بناتے ہیں یا دوسری چیزیں تلتے ہیں تو اس میں بہت زیادہ ویجیٹیبل آئل استعمال کرتے ہیں۔ اس ویجیٹیبل آئل اور گھی میں بہت زیادہ کیلوریز ہوتی ہیں۔ ریفائینڈ کاربز، میٹھے مشروبات اور بہت زیادہ چربی اور تیل والا کھانا بہت برے ہیں، جن سے ذیابیطس، پیٹ کا موٹاپا، انسولین کی زیادتی اور سوزش جیسی دائمی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور انسان کی عمر کم ہو جاتی ہے۔

سوال: آپ نے ورزش کی بات کی مگر بہت سے لوگوں کی جِم اور ورزش کے آلات تک رسائی نہیں ہے، سو بہت سے لوگ، جن میں میں خود شامل ہوں، صرف چہل قدمی کو ترجیح دیتے ہیں۔

جواب: یہ بالکل ٹھیک ہے۔ چہل قدمی، دوڑنا، سب ٹھیک ہیں۔ مثال کے طور پر میں ابھی یہاں سڈنی میں ایک گھنٹہ سائیکل چلا کر آ رہا ہوں۔ آپ کو جم جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود جم نہیں جاتا۔ میں بائیکنگ، تیراکی کرتا ہوں، دوڑتا ہوں، تیز چلتا ہوں، اس کے علاوہ آپ الاسٹک بینڈ کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ہلکے وزن لگے ہوں۔ اور اپنے جسم کی مدد سے کچھ resistance ورزش کر سکتے ہیں۔ آپ کو جم جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر میں ورزش کر سکتے ہیں۔

سوال: سیڑھیاں چڑھنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جواب: سیڑھیاں چڑھنا زبردست ہے۔ میں ہر آدھ گھنٹے، ہر گھنٹے کے بعد کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں، چند سیڑھیاں چڑھتا ہوں، یہ اچھی ورزش ہے۔ پانچ منٹ یہاں، پانچ منٹ وہاں، یہ سب گنتی میں آتی ہیں۔

آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر آپ مکمل طور پر زندگی بیٹھے ہوئے گزارتے ہیں تو آپ کا میٹابولزم سست ہو جاتا ہے۔ ہم نے تحقیق میں دکھایا ہے کہ جب آپ ورزش کرتے ہیں تو جسم میں مائٹوکونڈریا کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ مائٹوکونڈریا ہمارے خلیوں کے اندر ایسے اجسام ہیں جو کیلوریز یعنی نشاستہ اور چربی کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔ جوں جوں آپ زیادہ فٹ ہوتے جاتے ہیں، آپ کے مائٹوکونڈریا کی تعداد بڑھ جاتی ہے، اور وہ زیادہ فعال ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک گھنٹہ بیٹھے بیٹھے گزارتے ہیں، تو آپ 300 کیلوریز جلاتے ہیں۔ چھ مہینے (کی ورزش) کے بعد آپ اسی ایک گھنٹے میں (بیٹھے بیٹھے) 600 کیلوریز جلائیں گے، کیوں کہ اب آپ زیادہ فٹ ہیں۔

فٹنس پیدا کرنے میں اور میٹابولک ریٹ تیز کرنے کے لیے جسم کی استعداد پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے۔

جواب: آپ نے اپنی کتاب ’طویل عمر کا راستہ‘ (The Path to Longevity) میں لکھا ہے کہ 100 برس کی عمر میں 40 برس جیسے انسان کی طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کیوں کہ ہم جب کسی 100 سالہ شخص کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں بہت زیادہ بیماری اور تکلیف کا خیال آتا ہے۔ تو پھر 100 سالہ شخص میں 40 سالہ شخص کی طاقت کیسے آ سکتی ہے؟

جواب: جب میں واشنگٹن یونیورسٹی میں کام کر رہا تھا تو ہم نے بہت سی تحقیقات کیں کہ ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں۔ اب ہم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے پاتھ ویز جسم کو (بڑھاپے کی وجہ سے) ہونے والا نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ 100 سال عمر والے 20 فیصد افراد کو کسی قسم کی بیماری نہیں ہوتی۔ ہم جانتے ہیں کہ (انسان) بغیر بیماری کے بہت لمبی عمر گزار سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا، ہم ان میں سے بہت سے پاتھ ویز کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ اگر ہم کم عمری سے مناسب ورزش، جس میں مختلف قسم کی ورزشیں شامل ہوں، صحت بخش خوراک کھائیں، کیلوریز کو کم کریں اور درست مقدار میں فائبر استعمال کریں تو جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کو کم کر سکتے ہیں اور بغیر بیماری کے بہت لمبی عمر تک پہنچنے کا امکان بڑھا سکتے ہیں۔

ہمارے پاس اس بارے میں بہت سا ڈیٹا موجود ہے، جس سے ان نتائج کو تقویت ملتی ہے۔ یہی چیز میں نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے۔

سوال: اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنا مکمل طرزِ زندگی بدلنا ہے، صرف چند دن کی بات نہیں ہے۔ لیکن ایک اور مسئلہ جو میں دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ اچھا کھانا، لذیذ خوراک زندگی کے مزوں میں سے ایک مزہ ہیں، لیکن اگر آپ اپنے پسندیدہ کھانوں سے پرہیز کریں تو آپ اپنے آپ کو زندگی کے ایک بڑے لطف سے محروم کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟

جواب: یہ بات درست نہیں ہے۔ آپ اپنی زندگی کا معیار متاثر کیے بغیر بھی بہت صحت بخش اور لذیذ خوراک کھا سکتے ہیں۔ ایسی خوراکیں موجود ہیں جن میں قدرتی فائبر موجود ہے، اس کے علاوہ آپ اپنے مصالحوں کا استعمال جاری رکھ سکتے ہیں، آپ کی دالیں، کابلی چنا موجود ہیں۔ آپ کم مقدار میں چربی استعمال کر سکتے ہیں، جن میں mono-saturated fatty acids ہوں، آپ مچھلی کھا سکتے ہیں جسے صحت بخش طریقے سے پکایا گیا ہو، بغیر فرائی کیے، بغیر مکھن یا گھی کے، آپ سفید چاولوں کی بجائے براؤن چاول استعمال کر سکتے ہیں، آپ چکی والی روٹی کھا سکتے ہیں، بجائے میدے والی روٹی کے۔ اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحت بخش کھانا کھانے کا مطلب ہے کہ آپ بےمزہ کھانا کھائیں۔ یہ ایک افسانوی بات (Myth) ہے۔ مثال کے طور پر بحیرۂ روم کی خوراک بہت صحت بخش خوراک ہے، جو بہت لذیذ بھی ہے۔

آپ اپنی خوراک میں غیر صحت بخش اجزا کو ختم کر سکتے ہیں اور صحت بخش اجزا کا استعمال جاری رکھ سکتے ہیں، جس سے آپ کے مصالحوں کا ذائقہ برقرار رہے اور کھانا دلچسپ رہے۔

سوال: آپ کا مصالحوں کے بارے میں کیا خیال ہے، کیوں کہ ہم اپنے کھانوں میں مرچیں، ہلدی اور اس طرح کے دوسرے مصالحے بہت استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ صحت بخش ہیں؟

جواب: بالکل، یہ صحت بخش ہیں۔ آپ ان کا استعمال جاری رکھ سکتے ہیں۔ مصالحوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ جو تیل اور نشاستہ استعمال کر رہے ہیں ان میں مسئلہ ہے، مصالحوں میں نہیں۔ مجھے آپ کے مصالحے بہت پسند ہیں۔ مجھے انڈین، پاکستانی مصالحے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ان کی مدد سے کھانا بہت دلچسپ ہو جاتا ہے۔ ان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: آپ جانتے ہیں کہ نئے سال کی آمد آمد ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب بہت سے لوگ اپنے آپ سے بہت سے عہد کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کو کون سے تین چار مشورے دیں گے کہ ان کا 2024 صحت مند گزرے؟

جواب: پہلا مشورہ تو یہی ہے کہ صحت مندانہ طرزِ زندگی اختیار کر کے بہت سی دائمی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ بے شک آپ کے جینز برے ہوں، یا قسمت بری ہو، آپ خوراک اور ورزش کی مدد سے اور مراقبے کی مدد سے بہتری لا سکتے ہیں۔ یوگا، سانس لینے کی تکنیک، پرانایاما، وغیرہ انتہائی طاقتور طریقے ہیں جن کی مدد سے صحت اور طولِ عمر کے مختلف پاتھ ویز ریگیولیٹ ہوتے ہیں، جیسا کہ میں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ میری ایک ویب سائٹ ہے، جو اسی بارے میں ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اس بارے میں مزید جاننا چاہتے ہوں۔ میرا یو ٹیوب چینل بھی ہے۔

سو ایک بار پھر، خوراک، ورزش، مراقبہ، یوگا، سانس لینے کی تکنیک، دائمی بیماریاں روکنے کے لیے طاقتور ادویات ہیں۔ خوراک واحد چیز نہیں ہے، بلکہ ان سب چیزوں کے مجموعے سے جسمانی، میٹابولک، نفسیاتی اور روحانی کوشش، یہ سب بہت اہم ہیں۔

آپ کو قدم بہ قدم شروع کرنا ہو گا، مثال کے طور پر جب آپ سکول جاتے ہیں تو آپ ایک مضمون سے شروع کرتے ہیں اور اس کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں، آپ تجربات کرتے ہیں، اسی طرح آپ مرحلہ وار اپنی صحت بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن آپ کو اس سفر کا آغاز کرنا ہے۔ آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ میں نے کیسے سفر شروع کرنا ہے، کیسے خوراک میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لے کر آنی ہیں، کیسے ورزش کرنی ہے، کیسے mindfulness کرنی ہے، یوگا کرنا ہے۔ اس طرح میں درجہ بہ درجہ بیماریوں کا خطرہ کم کر سکتا ہوں اور اپنے دوستوں، رشتے داروں، پوتوں، نواسوں کے ساتھ لمبی، خوش و خرم اور صحت مند زندگی گزارنے کا امکان بڑھا سکتا ہوں۔ یہ کیا جا سکتا ہے۔ بس قدم بہ قدم شروع کریں۔

بشکریہ: دا انڈپینڈنٹ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close