سرخ آسماں

عومر درویش

اس تصویر میں، میں اور میرا تین سالہ بیٹا زامران بارش کے بعد تھدو ندی کے کنارے کھڑے ہیں۔ یہ تصویر بے خبری میں کھینچی گئی ہے، میں اور زامران مکالمہ کر رہے ہیں۔ وہ بہ ضد ہیں کہ ندی میں نہانا ہے۔ شام کا وقت ہے موسم میں ہلکی سی خنکی ہے اور میں بار بار اسے ٹال رہا ہوں۔ بارش کے بعد کے پُرسکون ماحول، غروب ہوتا سورج۔۔ ہمارے اوپر کینوس میں ایک دلکش  منظر پیش کر رہا ہے۔ اس طرح کے مناظر ہم جیسے ساحل کے قریبی لوگوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ رنگوں میں رنگا ہوا آسمان خُوں چَکاں مزاحمت کی یاد دلاتا ہے۔ ساحلی باشندوں کے لیے یہ ایک عام منظر ہے۔ یہ وقت میں منجمد ایک لمحہ ہے۔

اس دقیانوسی تصور کے برعکس، جس میں ساحلی لوگوں کو سست یا مزاحمت سے عاری لوگ کہا جاتا ہے، تاریخ نے بارہا دکھایا ہے کہ یہاں قوموں کے گمنام ہیرو رہے ہیں۔ ہاں مگر تاریخ جو دکھائے وہ گم نام نہیں ہو سکتا، تاریخ جو لکھے وہ روزِ روشن کی طرح رہتی دنیا تک عیاں رہتا ہے۔ ساحل کے کنارے بیٹھ کر کبھی غور سے لہروں کی آوازوں کو سنے کوئی، وہ غیض و غضب کے ساتھ جب ساحل سے ٹکراتی ہیں تو طوفان برپا کرتی ہیں، یہی مثال ساحل کے قریب آباد لوگوں کی ہے۔۔ سرد مہر تو بلا کی خاموشی ہوتی ہے مگر جب اپنے پہ آئیں تو سب کو تہس نہس کر دیں۔

کون ہے جو حمل جیئند کے نام سے واقف نہیں، جب پرتگیزی قذاق عرب کے ساحل کو تاراج کر کے ہندوستان کے گوا تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایک بلوچ ساحل ان کے دست رس سے دور رہتا ہے کیونکہ وہاں حمل جیئند ہوتا ہے، حمل جیئند ایسے لڑتا ہے کہ پرتگیز اس کو سلام کرتے ہیں، گوا میں ان کا مجسمہ تعمیر کر کے اس کی بہادری کے قصے بیان کرتے ہیں۔

کون ہے، جس نے چاکر کلمتی کا نام نہ سنا ہو، جب سب برطانیہ سامراج کے خوف سے دبک کر بیٹھ جاتے ہیں، تب چاکر اپنے دوستوں کے ساتھ بھڑ جاتا ہے اور پھانسی کو چوم کر ہمیشہ امر ہو جاتا ہے، اور بھلا مورڑو میر بحر کے قصے سے کون سا تاریخ سے واقف انسان آشنا نہیں ـ یہی ساحل ہے یہی ساحل کی ادا۔۔

ساحلی زندگی کے لیے ایک انوکھی رغبت ہے، لہروں کے بہاؤ اور بہاؤ سے ان کا ایک اندرونی تعلق ہے، جو خود زندگی کے بہاؤ کا آئینہ دار ہے۔ یہ ایک طرز زندگی ہے، جو سطح پر آرام دہ معلوم ہو سکتا ہے، لیکن سمندر کے پرسکون سطح کے نیچے ایک مضبوط روح ہے، جس نے طوفانوں کو برداشت کیا ہے۔

اس تصویر میں سرخ آسمان جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے، وہ محض ایک دلکش پس منظر نہیں ہے، مزاحمت کی علامت ہے، جو ساحلی لوگوں کی رگوں میں بہتی ہے۔ یہ لیبل ہمیشہ ساحلی لوگوں پر چسپاں رہا کہ مزاحمت سے عاری لوگ ہیں، ان میں مزاحمت کرنے کی قابلیت نہیں، مگر حقیقی مزاحمتیں ہمیشہ یہاں سے پھوٹی ہیں۔ قومیں جس مزاحمت پر فخر کرتی ہیں، اس کی جڑیں اکثر ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں۔

اس افسانوی تصور کو ختم کرنا ضروری ہے کہ ساحلی لوگ کسی نہ کسی طرح کم قابل یا کم محنتی ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں نے پوری تاریخ میں قوموں کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نگرانی کے لیے اسٹریٹجک مقام فراہم کرنے سے لے کر سمندری محافظ کے طور پر کام کرنے تک، ساحلی باشندوں نے مسلسل خود کو ثابت کیا ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تصویر میں سرخ آسمان کی طرح، مزاحمت کے حقیقی رنگ اکثر انتہائی دلکش اور خوبصورت مناظر کو پینٹ کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close