سلطنتوں کے کھنڈرات باعثِ عبرت

ڈاکٹر مبارک علی

بڑی بڑی سلطنتیں اپنے عروج پر پہنچ کر زوال کا شکار ہوئیں اور اپنے پیچھے شاندار عمارتوں، ستونوں، قلعوں اور میناروں کو چھوڑ گئیں۔ وقت کے ساتھ یہ باقیات شکستہ اور خستہ ہو کر عبرت کا باعث بنیں۔ انسان یہ سوچتا ہے کہ تہذیبوں اور قوموں کا یہ عروج و زوال کیا ہے، جب ایک حساس مورخ اور فلسفی ان کھنڈرات کو دیکھتا ہے تو اس کا تخیل اسے ماضی میں لے کر ان کھنڈرات کی داستان بیان کرتا ہے۔

فرانسیسی فلاسفر کومٹی دے وولنی Comte de Volney نے ’سلطنتوں کے کھنڈرات‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ 1798ء میں جب نیپولین نے مصر پر حملہ کیا تو وولنی نے اس سے ملاقات کی اور اسے قدیم مصر کی تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

وولنی شام کے تاریخی مقام شالمرا میں آیا تو اس کے تاریخی کھنڈرات کو دیکھنے کے لیے ایک شام کو وہ قلعے کی فصیل پر بیٹھ گیا۔ رات کی خاموشی اور اس کے تخیّل کی سحرانگیزی نے کھنڈرات میں زندگی پیدا کر دی۔ وہ غور و فکر کرتا اور ماضی کے لوگوں کی ہمت، ایجاد اور تہذیبی ترقی کے بارے میں سوچتا رہا۔ اسے رات کی خاموشی میں اپنے اردگرد پُراسرار سائے چلتے نظر آئے۔ شالمرا ایک تاریخی مقام تھا، جس میں قدیم تہذیب کے آثار موجود تھے۔ حال ہی میں مذہبی انتہاپسندوں نے ان تمام آثاروں کو توڑ ڈالا اور اس کے ماہر شخص کو قتل کر ڈالا۔

وولنی نے اس کے علاوہ ایتھوپیا کی قدیم تہذیب اور افریقی سلطنتوں کے کھنڈرات کے بارے میں لکھا۔ افریقہ میں قدیم تہذیب کے آثاروں کے بارے میں لکھ کر اس نے افریقی قوم پرستی کو ایک علامت دی ہے، جس کی بنیاد پر آگے چل کر افریقی قوم پرستی کی تحریکیں اُٹھیں۔

دوسرا مورخ ایڈورڈ گبن (1794 D) تھا۔ وہ رومی سلطنت کے کھنڈرات دیکھنے کے لیے روم گیا۔ وہ ایک جگہ بیٹھا ہوا ان تاریخی کھنڈرات کو دیکھ رہا تھا۔ جن میں محلات، مندر، مقبرے اور باغات کے آثار تھے۔ تو اسے رومی عہد کی شان و شوکت یاد آ گئی۔ اور اسے یہ احساس ہوا کہ ان خاموش عمارتوں میں رومی عہد کی تاریخ کو تلاش کرنا چاہیے۔

اس کے احساسات کو اس وقت مزید تقویّت ملی، جب راہبوں کی ایک جماعت ننگے پاؤں حمدیہ نغمہ گاتی ہوئی چرچ کی جانب جا رہی تھی۔ اسے ایک دم خیال آیا کہ رومی عہد میں یہ عمارت مندر تھی اور یہاں دیوتاؤں کی پوجا ہوتی تھی، اور آج یہ عمارت چرچ بن کر راہبوں کے نغموں سے گونج رہی ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ رومی سلطنت کی تاریخ لکھے گا۔ اس کا یہ منصوبہ پورا ہوا اور اس کی کتاب Decline and fall of the roman empire کے نام سے شائع ہوئی۔ گبن نے اپنی کتاب میں رومی عروج کی تاریخ تحریر نہیں کی بلکہ ان وجوہات اور اسباب کو بیان کیا ہے، جو اس کے زوال کا باعث بنے اور بِالْآخر سلطنت کا خاتمہ ہوا۔

رومی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے حصے میں ریپبلک اور آگسٹس کی بادشاہت شامل تھی۔ اس کے بعد بادشاہت کے لیے کوئی قانون نہیں رہا۔ فوج انتہائی طاقتور ہو گئی تھی اور بادشاہت کا جو بھی امیدوار فوج کو رشوت دیتا تھا، وہ اس کی حمایت کر کے اُسے بادشاہ بنا دیتے تھے اور سینٹ فوج کے دباؤ میں آ کر اپنی منظوری بھی دے دیتی تھی۔

اکثر رومی شہنشاہ آپس کی جنگوں میں قتل ہوئے اور ایک یا دو ایسی مثالیں ہیں، جن میں انہوں نے مدّت حکومت پوری کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی طور پر سلطنت غیر مستحکم ہو گئی۔ اُمراء کی سازشوں اور بدعنوانی نے نظام سلطنت کو کھوکھلا کر دیا۔ اب رومی فوج اس قابل نہ تھی کہ مزید فتوحات کرتی۔ مال غنیمت لاتی اور غلاموں کو منڈیوں میں فروخت کرتی۔ انتخابات کے موقع پر ووٹوں کی ہیرپھیر ہوتی تھی اور طاقتور پارٹی ووٹوں والا بکس بھی اُٹھا کر لے جاتی تھی۔ شہنشاہ کے محل اور اُمراء کے ہاں مخالفوں کو زہر دے کر مارنا معمول کا معاملہ بن گیا تھا۔

رومی فوج میں اب مقبوضہ علاقوں کے لوگ بھی شامل ہونے لگے تھے۔ صوبوں میں جگہ جگہ بغاوتیں ہو رہی تھیں۔ کیونکہ لوگوں پر جو ٹیکسوں کا بھاری بوجھ تھا اب اُن سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ شہروں میں غذائی قلت کا بھی سامنا تھا۔ جب کھانے پینے کی اشیاء نہیں ملتی تھیں، تو لوگ ہنگامہ کرتے تھے۔ شہر روم میں احتجاج کی صورت میں لوگ اُمراء کی حویلیوں پر حملے کرتے تھے۔ اور یادگاری مجسمے توڑ دیتے تھے۔

گبن نے رومی زوال کی ایک وجہ مسیحیت کو بھی قرار دیا ہے۔ جب رومی معاشرہ مسیحی ہوا تو ان میں جنگ کرنے کی صلاحیتں ختم ہو گئیں اور انہیں آخرت میں نجات کے لیے اپنا وقت صَرف کرنا پڑا۔ چرچ کی جانب سے جگہ جگہ خانقاہیں قائم ہوئیں۔ ان خانقاہوں میں مرد راہب بن کر اپنی پوری زندگی عبادت کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ خانقاہوں کی مالی امداد کے لیے اُمراء اور حکمراں انہیں زرعی زمینیں دیتے تھے۔ خانقاہوں کے یہ راہب ایک ایسا طبقہ بن گیا تھا، جو غیر پیداواری تھا۔ یہ معاشرے کی ترقی میں کوئی حصہ نہیں لیتے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں یہ راہب معاشرے کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ تھے۔

رومی عہد کے آخری دور میں جرمن قبائل سے اس کی مسلسل جنگیں رہیں۔ رومی فوج اپنا دفاع نہ کر سکی۔ 410ء عیسوی میں جرمن قبائل نے رومیوں کو شکست دے کر شہر پر قبضہ کر لیا۔ رومی اُمراء شہر کو چھوڑ کر اپنی دیہاتی حویلیوں میں واپس لوٹ گئے۔ جب شہر میں لوٹ مار شروع ہوئی تو حملہ آوروں کے ساتھ شہر کے غریب اور مفلس لوگ بھی لوٹ مار میں شریک ہو گئے۔ مغربی رومی سلطنت کا تو خاتمہ ہوا۔ مگر مشرق میں یہ بعض سلطنتیں مشرقی رومی سلطنت کے نام سے باقی رہی۔ اس کا خاتمہ 1453 میں اس وقت ہوا، جب عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔

گبن کی یہ کتاب علمی حلقوں میں کافی مقبول ہوئی۔ امریکہ اور یورپ میں رومی سلطنت اس کا عروج و زوال دلچسپی کا باعث رہا۔ امریکہ میں آزادی کے بعد دستور کو لکھتے ہوئے رومی سلطنت کے سیاسی اداروں پر تحقیق ہوئی اور ان میں سے کچھ کو دستور کا حصہ بنا لیا۔ برطانوی سامراج میں فوج کے جوانوں میں رومی فاتحین اور جنرل ماڈل بن گئے تا کہ ان کی تقلید کر کے برطانوی سامراج کو مستحکم کرے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close