لسانی اعتبار سے پاکستان ایک زرخیز ملک ہے، جہاں ستتر زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ سال ایک محقق ظفر سید نے شمالی علاقہ جات میں بولی جانے والی ’بروسکت‘ زبان کا سراغ لگایا، جو پہلے ریکارڈ کا حصہ نہ تھی۔
کسی بھی خطے کے ثقافتی تنوع کا اندازہ وہاں بولی جانے والی زبانوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ کیا پاکستان میں مزید زبانیں بھی دریافت کی منتظر ہیں؟ اس سوال کی طرف آنے سے پہلے ہم پاکستانی زبانوں، ان کے خاندانوں اور ان پر چھائے معدومیت کے ممکنہ خطرات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:
پاکستان کی مقامی زبانیں اور ان کے خاندان
زبانوں پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے ایتھنو لاگ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 77 ہے، جن میں سے 68 مقامی اور نو غیر مقامی زبانیں ہیں۔
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں پہلے تین نمبر پر پنجابی (38 فیصد)، دوسرے نمبر پر پشتو (18 فیصد) اور تیسرے نمبر پر سندھی (14 فیصد) ہیں۔
انسانوں کی طرح زبانوں کو بھی مختلف قبیلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں چھ مختلف گروہوں سے تعلق رکھتی ہیں، ہند آریائی زبانیں، ہند ایرانی زبانیں، دراوڑی زبانیں، پشاچہ زبانیں، تبتی زبانیں اور تنہا زبانیں۔
پاکستانی زبانوں کا سب سے بڑا خاندان ہند آریائی خاندان ہے، جس میں پنجابی، سرائیکی، سندھی اور رانگڑی وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہند ایرانی زبانوں کا گروہ ہے، جس میں پشتو اور بلوچی زبانیں شامل ہیں۔
بلوچستان میں بولی جانے والی براہوئی زبان کو دراوڑی جبکہ بلتی کو تبت سے مشتق لفظ تبتی زبانوں کے گروہ میں شامل کیا جاتا ہے۔
کشمیری، کھووار، شینا اور شمالی علاقہ جات کی کئی چھوٹی زبانوں کے خاندان کو پشاچہ کہتے ہیں۔
اس میں بروشسکی زبان اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کا تعلق دنیا میں زبانوں کے کسی بھی دوسرے گروہ سے نہیں جڑتا۔ اسی لیے اسے تنہا زبان کہا جاتا ہے۔ اس کے بولنے والے گلگت بلتستان کے باشندے ہیں۔
شمالی علاقہ جات کا حیرت انگیز لسانی تنوع
زبانوں پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے ایتھنو لاگ کے مطابق پاکستان کا لسانی تنوع حیرت انگیز ہے اور محض شمالی علاقہ جات میں ہی تیس زبانیں بولی جاتی ہیں۔
کم آبادی کے باوجود وہاں زبانوں کی کثرت کیوں ہے؟ اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی سے وابستہ ماہرِ لسانیات ڈاکٹر عظمیٰ انجم اس حوالے سے کہتے ہیں ”ایک ہی زبان بولنے والے افراد اگر طویل عرصے تک الگ الگ رہیں، تو ان کی زبانیں بالکل ہی جدا ہو جاتی ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں نقل و حرکت کی مشکلات نے قبائل کو اپنے علاقوں تک محدود کر رکھا تھا، یوں مختلف چھوٹے چھوٹے گروہوں کی اپنی زبانوں کی تشکیل ہوتی گئی۔ لیکن چونکہ ان کے بولنے والوں کی سرگرمیاں بہت محدود تھیں، اسی لیے ان زبانوں کا ذخیرہ الفاظ مختصر رہا، وہ زیادہ ترقی نہ کر سکیں اور آج معدومیت کے خطرات کا شکار ہیں۔“
مقامی زبانوں پر چھائے معدومیت کے خطرات اور ان کی وجوہات
معدومیت کے خطرات کا شکار زبانوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے اٹلس آف ورلڈ لینگوئجز اِن ڈینجر کے مطابق، ”پاکستان میں بولی جانے والی 35 فیصد زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔“
پاکستانی زبانوں کے محقق، آن لائن انگریزی اور اردو مجلے ‘وی ماؤنٹینز‘ کے ایڈیٹر زبیر توروالی اپنے مضمون ’شمالی پاکستان کے لسانی تنوع کو درپیش خطرات‘ میں ان علاقوں میں بولی جانے والی 24 زبانوں پر منڈلاتے معدومیت کے خطرات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، ”یہ زبانیں اپنا کوئی معروف سکرپٹ نہیں رکھتیں اور زیادہ تر عربی رسم الخط پر انحصار کرتی ہیں۔ ان زبانوں میں تحریر کی کوئی قدیم روایت نہیں۔“
ان کا کہنا ہے ”تحریر نے زبانوں کو زندہ رکھنے میں ہمیشہ بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج غار کے دور کی زبانیں دریافت کی جا رہی ہیں، جس کی وجہ ان کا رسم الخط اور تحریر کی روایت تھی۔ اس لیے زبان کو زندہ رکھنے یا آگے بڑھانے میں تحریر کی روایت اور رسم الخط کی بہت اہمیت ہے۔“
زبیر توروالی اپنی تحقیق میں ایک دوسری وجہ ریاستی عدم توجہ کو بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول، ”1912 میں موجودہ صوبے خیبر پختونخوا کی اس وقت کی حکومت نے قانون سازی کی کہ سرائیکی، کھووار، ہندکو اور انڈس کوہستانی کو پرائمری درجے سے پہلے سکولوں میں پڑھانے کی اجازت دی جبکہ پشتو کو پرائمری کے درجے میں لازمی مضمون قرار دے دیا گیا، لیکن بعد کی تمام حکومتوں نے اس قانون کو نظر انداز کر دیا اور اب اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔“
کیا پاکستان میں مزید زبانیں دریافت کی منتظر ہیں؟
2018 میں زبانوں کا ریکارڈ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ایتھنو لاگ نے ایک نئی پاکستانی زبان کو اپنے ریکارڈ میں جگہ دی۔ ’منکیالی‘ کہلانے والی یہ زبان خیبر پختونخوا کے پہاڑی سلسلے طور غر کے ایک دور افتادہ گاؤں میں بولی جاتی ہے۔
اس زبان پر تحقیق کا سہرا اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی سے وابستہ ماہر لسانیات ڈاکٹر عظمیٰ انجم کے سر جاتا ہے، جو 2011 سے اس پر کام کر رہی تھیں۔
گزشتہ برس ظفر سید نے پاکستان میں بولی جانے والی ‘بروسکت‘ زبان کا سراغ لگایا، جو اس سے پہلے ریکارڈ کا حصہ نہ تھی۔ البتہ بھارت میں زبانوں کی فہرست میں یہ زبان شامل تھی۔
ظفر سید کا کہنا ہے ”میں گزشتہ سات سال سے پاکستان کی مقامی زبانوں پر کام کر رہا ہوں۔ تحقیق کے دوران مجھے پتہ چلا کہ بلتستان کے ضلع کھرمنگ میں چار سو افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا گنوخ نامی گاؤں ایسا ہے، جس کی زبان آس پاس کے علاقوں کی زبانوں سے مختلف ہے۔ ہم نے ان لوگوں سے ملاقات کی اور انہیں ریکارڈ کر لیا۔ بعد میں زبانوں کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں نے تصدیق کی کہ یہ ایک الگ زبان ہے۔ اب اس زبان کی لغت اور اس کے رسم الخط پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس کے بولنے والوں کی تعداد 500 سے بھی کم ہے۔“
اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان میں ممکنہ طور پر مزید کچھ زبانیں ابھی اپنی دریافت کی منتظر ہیں، ڈاکٹر عظمیٰ انجم نے کہا، ”میں اپنے طلبہ کے ساتھ مل کر چترال کی ایک زبان پر کام کر رہی ہوں، جو پہلے کسی باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ کچھ ہی عرصے میں اسے بھی منکیالی کی طرح بین الاقوامی شناخت مل جائے گی۔‘‘
اسی سوال کے جواب میں ظفر سید نے کہا، ”دو سال پہلے کوئی نہیں جانتا تھا کہ بروسکت نامی ایک مقامی زبان کا اضافہ ہونے والا ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان میں ابھی مزید کوئی گمنام زبانیں اپنی دریافت کی منتظر ہوں، تاہم اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کے بچاؤ کی تدابیر کی جائیں۔‘‘
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)