فضائی آلودگی کے معاملے میں سب ہی جانتے ہیں کہ لاہور دنیا میں پہلے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔
سموگ جیسی خوفناک صورت کا سامنا بھی اسی شہر کو کرنا پڑ رہا ہے اور اس حوالے سے پنجاب حکومت اہم اقدامات بھی کر رہی ہے۔
مجھے لاہور میں مستقل رہتے ہوئے صرف دو سال ہوئے ہیں لیکن یہاں کی ماحولیاتی اور صوتی آلودگی کے ہاتھوں ہر سال اس موسم میں مختلف بیماریوں سے واسطہ پڑ رہا ہے۔
سموگ کس طرح سانس کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جلد اور آنکھوں کو بھی متاثر کرتی ہے، اس پر ایک مدت سے لوگ لکھ اور بول رہے ہیں، لیکن اس کے نقصانات کا خوف نیٹ فلکس کی ایک مختصر سیریز دیکھنے کے بعد بری طرح حاوی ہوا۔
وہ سیریز ’دی ریلوے مین‘، جس میں بھوپال کے ایک اصلی واقعے سے اخذ شدہ کہانی بیان کی گئی ہے۔
ایک غیر ملکی کھاد کی کمپنی سے لیک ہونے والی گیس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کی اموات کا منظر بہت ہی تکلیف دہ اور خوفناک تھا۔
اس سیریز کو دیکھنے کے بعد پوری دنیا کی مختلف فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں، گیسوں اور دیگر خارج ہونے والے مواد کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کا ادراک اس قدر ڈراؤنا ہو جاتا ہے کہ اس سموگ میں سانس لیتے ہوئے اپنے آپ کو ہم بھی اس سیریز کا ہی حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔
یہی وجہ رہی کہ اس دن سے میں وقتاً فوقتاً سموگ کی وجوہات انٹرنیٹ پر ڈھونڈتی رہتی ہوں۔
اگر ابھی تک آپ نے ان وجوہات کو سرچ نہیں کیا تو ابھی اپنا موبائل اٹھائیں اور گوگل کریں۔
ویسے تو سرچ انجنز سے بھی ڈر لگتا ہے کہ آپ ایک سادہ سی بیماری کی وجہ اور اس کے آفٹر ایفیکٹس ڈھونڈنے جائیں تو آپ کا ناتا سیدھا کینسر، آٹو امیون بیماریوں اور دیگر لا علاج امراض سے جوڑ دیتے ہیں۔
اس لیے ان پر کسی بھی طرح کی تحقیق کے لیے آپ کا تھوڑا مثبت سوچ رکھنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
تو آپ سموگ کی وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کریں اور ساتھ ان کے تدارک کا طریقہ بھی تو یہ بات بھی سمجھ آئے گی کہ آپ اس کے مجرموں کی فہرست سے کس طرح اپنا نام الگ کر سکتے ہیں۔
میں اس مختصر سی تحریر میں مختصراً سموگ کے بارے میں ذکر ہی کر سکتی ہوں۔
وہ بھی اتنا کہ آپ کم از کم اس کی تفصیل کی طرف راغب ضرور ہوں تو بہنو اور بھائیو!
سموگ کی سب سے پہلی وجہ ہے درختوں کا بے دریغ کاٹنا۔
آپ اور ہم آنکھیں بند کیے رکھیں تو الگ بات ہے ورنہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر پچھلے چند عشروں سے کس رفتار کے ساتھ زرعی زمینیں اور باغات ختم کر کے انہیں پلاٹوں میں بدلا جا رہا ہے۔
پطرس بخاری آج سے کئی برس قبل اس بات کی طرف اشارہ کر چکے تھے کہ لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی ہے اور اب تو چاروں طرف کے لاہور کے باہر شش جہات میں لاہور ادرک کی شکل میں مزید پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔
اس کی وجہ دیہاتوں سے شہر کی طرف نقل مکانی، بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی اور پاکستان میں پراپرٹی کے بزنس کی دن دگنی رات چوگنی ترقی ہے۔
دوسری وجہ فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلتے دھوئیں اور گیسوں کا غیر فلٹر شدہ اخراج ہے، جس کی بدولت ہوا، پانی اور خوراک کچھ بھی صاف اور خالص نہیں رہتا۔
اس ملاوٹ زدہ ماحول میں سموگ کیوں راج نہیں کرے گی۔
تیسری اہم وجہ شہر میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا پراپر سسٹم آبادی کے لحاظ سے بہت ہی کم پڑ جاتا ہے، لہذا نجی گاڑیوں اور ان میں بھی اپنی میعاد پورا کیے ہوئے انجنوں کی گاڑیوں کا دھواں سموگ میں اپنا حصہ بھرپور شامل کرتا ہے۔
باقی اس دھوئیں میں کون سی مہلک گیسز، دھول اور ان سے آنے والی بو کی وجہ کیا ہو سکتی ہے، آپ خود سرچ کر لیں۔
اب ایسے میں ان بنیادی وجوہات کو کم کرنے میں ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں۔
جاتے جاتے اس پر بھی بات کر لیتے ہیں۔
ہم اپنے اپنے محلوں اور علاقوں میں پودے اگا سکتے ہیں۔
گاڑیوں کے انجن ٹھیک حالت میں رکھ سکتے ہیں اور جہاں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہو، وہاں اس کا استعمال کر کے ٹریفک کی آلودگی کم کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ کسی فیکٹری، کسی کارخانے یا یونٹ کے مالک ہیں، وہاں کام کرتے ہیں یا ان کی چیکنگ پر تعینات ہیں تو صرف عالمی اور ملکی قوانین کی پابندی کرنے اور کروانے سے بھی ہم اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے صاف شفاف ہوا کا انتظام کر سکتے ہیں۔
اگر کہیں ہم با اختیار ہیں تو زرعی زمین کو رہائشی اور کاروباری عمارات میں بدلنے سے خود بھی رک سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی سمجھا سکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے ہماری انفرادی کوششیں سموگ اور دیگر ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے عوامل کو روکنے میں معاون ثابت ہوں۔
لیکن اگر آپ کو اس سموگ اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ نہ ہو رہا ہو تو میرے کہنے پر ایک بار ’دی ریلوے مین‘ سیریز دیکھ لیں اور صرف اتنا سوچیں کہ کسی دن کسی فیکٹری سے کچھ زیادہ خطرناک گیس خارج ہو گئی تو ہمارا انت کیا ہو سکتا ہے۔
ایسے کسی بھی بڑے نقصان سے بچنے کے لیے ابھی سے پیش بندی کر لیں۔
پھر نہ کہیے گا کہ کسی نے بتایا ہی نہیں!
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)