سردی سے بچنے کے سستے طریقے

حسنین جمال

چھ فٹ ماشاللہ قد، چٹے سفید بال اور داڑھی، کہر والا سردیوں کا موسم اور شہر سے دور ایک کچے علاقے میں توحید بھائی میرے ساتھ شلوار قمیض میں گھوم رہے تھے۔

میں اس وقت اچھی خاصی موٹی جیکٹ اور نیچے کافی کچھ چڑھائے ہوئے تھا، میری طبیعت بچپن سے خاں صاحب قسم کی ہے، دس بندوں کو جو سردی لگتی ہوگی، وہ اکیلے مجھ کو لگتی ہے۔

تو میں فل پیک گھوم رہا تھا اور توحید بھائی سکون سے شلوار قمیض میں ادھر سے اُدھر جا رہے تھے۔ تب آخر میں نے پوچھ لیا کہ یار، توحید بھائی، آپ کو سردی نہیں لگتی؟

انہوں نے گریبان سے ایک شرٹ کھینچ کر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھیں، یہ باڈی وارمر پورا میں نے پہنا ہوا ہے، پھر سوٹ بھی گرم ہے تو اوپر کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

اس وقت مجھے ابو کی بات یاد آئی، انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یار شدید ترین سردی بھی چار کپڑوں سے بھگتی جا سکتی ہے، شرط یہ ہے کہ لیئرنگ ٹھیک طریقے سے کی ہو۔

اس دن گھر آیا تو میں نے کمپیوٹر پہ لیئرنگ سے متعلق چیزیں ڈھونڈیں، 2007 تھا، وہ دن تھا اور آج کا دن ہے، سردی اسی طرح لگتی ہے الحمدللہ مگر لاش بن کے گھومنے سے جان چھوٹ گئی ہے۔

لیئرنگ سے مراد ہے تہہ در تہہ کپڑے پہننا۔

ہر آدمی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے بنیان کے بارے میں، لیکن سردی روکنے کا پہلا اصول کم از کم آدھے بازوؤں والی بنیان یا ایک پتلی آرام دہ انڈر شرٹ ہے۔

اب ہمیں ایک ہلکا لیکن ایسا سوئٹر چاہیے جو بالکل جسم کے سائز کا ہو۔ یہ بڑی سائنسی بات ہے۔ باڈی فٹنگ والا سوئٹر یا وارمر آپ کے جسم کی گرمی کو روکے رکھتا ہے لیکن وہ ڈھونڈنا کدھر سے ہے؟

بات یہ ہے کہ گرم دِکھنے اور واقعی گرم ہونے میں فرق ہے۔ بعض کپڑے بھاری بھرکم ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ سردی کوئی خاص نہیں روکتے، بندہ لاد بھی لیتا ہے اور دانت بھی موقع بے موقع بج جاتے ہیں۔

تو دوسری لیئر کے لیے سب سے آسان کام یہ ہے کہ قریب ترین لنڈے بازار جائیں اور سائز سے ایک نمبر چھوٹا سوئٹر ڈھونڈ لیں جو سو فیصد اونی ہو اور باریک ہو۔

یہ ممکن نہیں تو پھر کسی بھی مارکیٹ میں موجود جرابوں بنیانوں والی ریڑھی پہ جائیں، ان سے پوچھیں، ان کے پاس علاقے کی سردی کے حساب سے بیسٹ انڈر شرٹ، ٹراوزر یا باڈی وارمرز موجود ہوتے ہیں اور ان کا ریٹ بھی انسانوں والا ہوتا ہے۔ جو بھی چیز ملے، لینی عین اپنے سائز کی ہے بلکہ تھوڑی سی چست والی فٹنگ ڈھونڈنی ہے۔

جن دوستوں کی جیب اجازت دیتی ہے، وہ کسی بھی مشہور برانڈ سے باڈی وارمر طلب کر سکتے ہیں۔

دوسری لیئر اہم ترین ہے۔ اس میں آپ نے یہ خیال بھی رکھنا ہے کہ اگر آپ کو فل بازو کی چیز کپڑوں کے نیچے پہننا پسند نہیں تو بے شک اسے قینچی سے کاٹ کے مطلوبہ لمبائی تک لے جائیں لیکن وہ آپ کے لیے آرام دہ ہو اور خواہ مخواہ کی الجھن نہ بنے۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ خریدتے ہوئے اسے کھینچ کھانچ کے بھی دیکھ لیں، جتنی اسٹریچ ایبل ہوگی، اتنی گرم اور آرام دہ ہوگی۔

اب تیسری تہہ کی باری ہے۔ یہ آپ کی نارمل قیمص ہے۔ یہاں آپ دیکھ لیں کہ علاقہ کون سا ہے آپ کا۔ شہروں میں ہیں تو نارمل کپڑا چل جاتا ہے، پہاڑوں کی طرف ہیں تو فلینل یا فلیس شرٹ بہترین گرم رکھے گی۔

(فلینل وہی ہے، جسے ہمارے گھروں میں فلالین کہتے ہیں۔) شلوار قمیض پہنتے ہیں تو وولن کپڑا ضرورت سے زیادہ گرم رکھے گا، اس میں کھدر شہری علاقوں کے لیے بہترین آپشن ہے۔

چوتھی تہہ وہ ہے جو سب سے اوپر آئے گی۔ وہ آپ کی جیکٹ یا کوٹ ہے۔ اس میں سب سے اہم چیز دماغ میں رکھیں کہ ہمارے یہاں جس طرح کے کوٹ پہنے جاتے ہیں، وہ سردی وغیرہ روکنے کے لیے نہیں ہوتے، ان میں بس تصویریں بن سکتی ہیں یا ہیٹر اے سی والے کمروں میں میٹنگیں ہو سکتی ہیں۔

سردی سے بچنا ہے تو سب سے بہتر وہ جیکٹ ہوگی جو کمر سے تھوڑی نیچے تک ہو اور اندر اس میں فر یا ہلکے سے فوم کی تہہ لگی ہو۔

جیکٹ میں بھی وزن سے بچیں، جتنی ہلکی جیکٹ ہوگی، اتنا آپ پرسکون رہیں گے اور زیادہ دیر تک وہ کپڑے آپ کو بھاگنے دوڑنے کے قابل رکھیں گے۔ لیدر جیکٹ کسی کام کی نہیں ہوتی سوائے شو مارنے کے یا تیز ہوا روکنے کے، جسم کی گرمی باہر جانے سے روکنا الگ گیم ہے اور سامنے کی تیز ہوا روکنا بالکل الگ۔ لیدر جیکٹ وزنی ہوتی ہے اور موٹر سائیکل چلانے کی حد تک کام دیتی ہے، بعد میں سارا دن کیسے گزارنا ہے، وہ پہلے سوچ لیں۔

اب رہ گئیں ٹانگیں اور پاؤں، ادھر اونی دراز، ٹائٹ یا لیگنگ سے کچھ لوگوں کو الرجی ہو سکتی ہے تو سکون سے اپنی مرضی کی چیز لیں اور پتلون یا شلوار کے نیچے پہنے رہیں۔ آدھی سردی پائنچوں سے ہی گھستی ہے کیونکہ زیریں حصہ جسم کا عام طور پہ ہم اگنور کرتے ہیں۔

اگر جراب ڈبل کرنے سے الجھن نہیں ہوتی تو وہ کر لیں ورنہ ایک اچھی اونی جراب دنیا بھر میں جہاں سے مل جائے، اسے اپنا قیمتی اثاثہ سمجھیں اور تب تک اس کی جان نہ چھوڑیں، جب تک ایک ویسا ہی جوڑا دوسرا نہیں مل جاتا۔ سردیوں میں پیروں کی جِلد سکڑنے کی وجہ سے جوتے ویسے ہی کھلے لگتے ہیں تو جتنا مرضی موٹا موزہ پہنیں، وہ عام طور پہ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے۔

زیادہ عرصہ سردی میں رہنا ہے تو فر کی لائننگ والے جوتے بھی ایک نعمت ہوتے ہیں، کبھی ٹرائے کر کے دیکھیے گا۔

آخری لیکن سب سے اہم چیز کان، گردن اور پیشانی ڈھانپنا ہے کیونکہ ٹھنڈ عموماً یہیں سے لگتی ہے اور بندہ بیمار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

بہترین قسم کا اونی مفلر لنڈے سے مل جاتا ہے، دَھوئیں گھر میں، استری کریں، تین چار سال نکال جاتا ہے۔ ایک وہ خرید لیں اور ایک گول والی ٹوپی، ان دونوں چیزوں کو چوبیس گھنٹے ساتھ رکھیں، حسبِ ضرورت استعمال کریں تو کافی بچت رہے گی اور سردیاں جیسے تیسے نکل ہی جائیں گی۔

باقی اگر آپ میری جیسی طبیعت کے ہیں تو ہمیں جی صرف اللہ میاں ہی سردی سے بچا سکتا ہے، ہم تو برف دیکھ کے بھی فوت ہو سکتے ہیں اس موسم میں!

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close