مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ’العرفہ‘ نامی ایک قبرستان ہے، جسے انگریزی میں ’دی سٹی آف دی ڈیڈ‘ کہا جاتا ہے۔
اس قبرستان میں ایک واحد ہندوستانی دفن ہے، جو اپنے زمانے میں ایک عظیم اسکالر، صحافی اور محب وطن تھا اور جو برسوں ہندوستان سے باہر رہا اور اس کی آزادی کے لیے بہت تگ ودو کی۔
اس شخص کا نام سید حسین تھا۔ وہ سنہ 1888ع میں ڈھاکہ میں پیدا ہوئے۔ حسین کوئی عام آدمی نہیں تھے۔
این ایس ونودھ نے ان کی سوانح عمری ’اے فارگاٹن ایمبیسڈر ان کائرو، دی لائف اینڈ ٹائمز آف سید‘ میں لکھتے ہیں کہ ”سید اپنے وقت کے ایک بہت ہی دلکش، پڑھے لکھے اور مہذب انسان تھے جو اپنی تقریروں سے لوگوں کو مسحور کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ ایک غیر معمولی مصنف اور سیکولر محب وطن تھے۔“
وہ مزید لکھتے ہیں: ”ان کی کامیابیوں کو شاید اس لیے نظر انداز کر دیا گیا کہ انھیں ملک کے ایک بہت بڑے خاندان کی ناراضگی کا سبب بننا پڑا۔ وہ ایسے شخص تھے جنھیں ان کی عظیم خدمات اور کامیابیوں کے باوجود ان کے ملک اور تاریخ نے وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے۔“
علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سید حسین قانون کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلے گئے لیکن بیرسٹر بننے کے بجائے انہوں نے صحافی بننا پسند کیا۔
ان کا قد 5 فٹ 10 انچ تھا۔ انھیں اچھے کپڑے پہننے کا شوق تھا۔ انگریزی زبان پر ان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ انگلستان کی بہت سی عورتیں ان کی طرف راغب ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
انگلستان میں سات سال قیام کے بعد سید حسین نومبر سنہ 1916 میں ہندوستان واپس آ گئے اور ایک ماہ بعد انھوں نے بمبئی کے اخبار بامبے کرانیکل میں بطور سب ایڈیٹر کام کرنا شروع کیا۔
برطانوی حکومت کے خلاف لکھے گئے ان کے مضامین پورے ہندوستان میں بڑی دلچسپی سے پڑھے جانے لگے۔ موتی لال نہرو اور مہاتما گاندھی بھی ان کے مضامین میں دلچسپی رکھتے تھے۔
سید حسین کی اصل کہانی جنوری 1919 میں اس وقت شروع ہوتی ہے، جب موتی لال نہرو نے ان کی تحریروں سے متاثر ہو کر انہیں ’انڈیپنڈنٹ‘ اخبار کا ایڈیٹر بننے کے لیے الہ آباد مدعو کیا۔
شروع میں اس اخبار کا دفتر موتی لال نہرو کی رہائش گاہ ’آنند بھون‘ میں ہوا کرتا تھا۔ سید کو 1500 روپے تنخواہ پر رکھا گیا تھا جو کہ ان دنوں بہت بڑی تنخواہ تھی۔
سید جب ’انڈیپنڈنٹ‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے الہٰ آباد آئے تو شروع میں آنند بھون میں ہی ان کی رہائش تھی۔ اسی دوران موتی لال نہرو کی بیٹی وجے لکشمی پنڈت نے سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدمجا نائیڈو کو لکھے ایک خط میں لکھا: ”سید ہمارے پاس رہ رہے ہیں کیونکہ انہیں پریس کے قریب کوئی مناسب مکان نہیں مل سکا ہے۔“
آنند بھون میں رہنے کی وجہ سے سید کو نہرو خاندان کے ساتھ گھلنے ملنے کے وافر مواقع میسر تھے۔
اس وقت وجے لکشمی کی عمر 19 سال تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھیں۔ گھر کے لوگ انھیں ’نان‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اگرچہ سید ان سے 12 سال بڑے تھے لیکن وہ وجے لکشمی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ وجے لکشمی بھی ان کی طرف کھنچتی چلی گئیں۔
ان دنوں الہٰ آباد جیسے شہر میں انگلینڈ سے تعلیم یافتہ پرکشش نوجوان شاذو نادر ہی ملتے تھے۔ انہی دنوں سید حسین کو لندن میں ہونے والی خلافت کانفرنس میں نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا۔
ایک ذریعے کے مطابق سید کے لندن جانے سے پہلے دونوں نے خفیہ طور پر مسلم طریقے سے شادی کر لی۔
این ایس ونود لکھتے ہیں: ”جب موتی لال نہرو کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے آسمان کی طرف سر اٹھا لیا۔ وہ غصے میں تھے کہ خاندان کی نگرانی کے باوجود ان کے اپنے گھر میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ جواہر لال نہرو بھی اپنی بہن سے کسی سے کم ناراض نہیں تھے۔“
وجے لکشمی پنڈت کی سوانح عمری میں سید حسین کا ذکر
وجے لکشمی پنڈت نے بعد میں اپنی سوانح عمری ’اسکوپ آف ہیپی نیس‘ میں اعتراف کیا کہ ”نوعمری میں میں ایک نوجوان سید حسین کی طرف راغب ہوئی تھی۔ انھیں میرے والد نے ’انڈیپینڈنٹ‘ اخبار کا ایڈیٹر مقرر کیا تھا۔“
وہ لکھتی ہیں: ”ایک ایسے دور میں، جہاں ہر طرف ہندو مسلم اتحاد کی بات ہو رہی تھی اور ایک ایسے خاندان کے رکن کے طور پر، جس کے بہت سے مسلمان دوست تھے، میں نے سوچا کہ مذہب سے باہر شادی کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہوگی۔ شادی کے معاملے میں ابھی بھی روایات کا بول بالا تھا۔ اس لیے مجھے یہ سمجھنے پر مجبور کیا گیا کہ ایسا کرنا غلط ہوگا۔“
وجے لکشمی پنڈت کی بہن کرشنا ہتھی سنگھ نے بھی اس واقعہ کا ذکر اپنی سوانح عمری ’وی نہروز‘ میں دبے لفظوں میں ہی سہی لیکن کیا ہے۔
وہ لکھتی ہیں: ”1920 میں میری بہن کی منگنی رنجیت سیتارام پنڈت سے ہو گئی۔ لیکن اس سے پہلے میرے والد نے ان کے لیے ایک دولہا ڈھونڈ لیا تھا مگر انھوں نے یہ کہہ کر اس سے شادی کرنے سے منع کر دیا کہ وہ ایک لڑکے کو پسند کرتی ہیں۔“
انہوں نے لکھا: ”میرے والد کا ماننا تھا کہ لڑکا ان کے لائق نہیں ہے۔ اس سے میرے والد اور میری نان (بہن) کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی اور وہ گاندھی جی اور ان کی اہلیہ کستوربا کے ساتھ ان کے سابرمتی آشرم میں رہنے چلی گئیں، گاندھی جی کی کوششوں کے بعد چھ ماہ میں والد اور نان کے تعلقات معمول پر آ گئے۔“
اس پورے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے مشہور مصنفہ شیلا ریڈی نے اپنی کتاب ’مسٹر اینڈ مسز جناح‘ میں لکھا: ”یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ موتی لال نہرو جیسا دنیا دار آدمی، جس نے اپنے بیٹے جواہر لال کو جو انگلستان میں زیر تعلیم تھا، انہیں کسی انگریز خاتون سے تعلق نہ بنانے کی صلاح دی تھی، انہوں نے کس طرح ایک ذہین، حساس اور بہترین شخصیت کے حامل نوجوان کے سامنے اپنی انتہائی خوبصورت لڑکی نان کو چھوڑ دیا تھا۔“
وہ لکھتی ہیں: ”جس وقت موتی لال نہرو کو معلوم ہوا کہ ان کی چھت کے نیچے کیا ہو رہا ہے تو ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ انہوں نے غیر رسمی طور پر شادی کر لی تھی اور سید حسین نے بعد میں اپنی دوست سروجنی نائیڈو سے اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔“
اس شادی کا ذکر پاکستانی صحافی ایچ ایم عباسی نے ڈیلی نیوز کے 17 نومبر سنہ 1971 کے شمارے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’محبت کی زندگی‘ میں کیا ہے۔
عباسی لکھتے ہیں ”میں اپنے دادا حضرت مولانا رشید فکری کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے ان کے کان میں کچھ کہا تو مولانا فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ سید نے مجھے بلایا ہے۔ میں ان کے ساتھ سید حسین کے کٹرہ میں میور کالج کے سامنے والے گھر پہنچا۔“
انھوں نے لکھا کہ ”جب میں وہاں پہنچا تو تقریباً نصف درجن لوگ ان کے برآمدے میں کھڑے تھے۔ سید بہت پریشان نظر آ رہے تھے۔ لکشمی پنڈت کے پاس ہی بیٹھی تھیں، جن کے چہرے پر پریشانی کا کوئی تاثر نہیں تھا
”وہاں موجود لوگوں میں نواب سر محمد یوسف تھے جو بعد میں اتر پردیش میں وزیر بنے اور سید اصغر حسین بھی تھے۔ یہ دونوں سید کے قریبی دوست تھے۔ اس وقت ہی مجھے معلوم ہوا کہ سید اور وجے لکشمی پنڈت کی شادی ہونے والی ہے۔ میرے دادا مولانا راشد فکری نے ان کے نکاح پڑھائے۔“
اس وقت کے ایک مشہور وکیل کے ایل گوبا، جنہوں نے خود ایک مسلمان خاتون سے شادی کی تھی، اپنی سوانح عمری ’فرینڈز اینڈ فوز‘ میں لکھا ہے ”ہندو مسلم رومانس کی تازہ ترین مثال ایک کشمیری عورت ہے جو ایک مسلمان اور انڈیپنڈنٹ اخبار کے ایڈیٹر کے ساتھ چلی گئی ہیں۔“
ان کے مطابق ”مہاتما گاندھی کی ذاتی مداخلت کے بعد لڑکی کو طلاق دے دی گئی۔ بعد میں وہ گجرات چلی گئیں اور بہت مشہور خاتون بن گئیں۔“
شادی کی کہانی کا ایک اور ذریعہ نہرو کے سکریٹری ایم او متھائی ہیں، جو اپنی کتاب ‘ریمینیسینسز آف دی نہرو ایج’ میں لکھتے ہیں: ”گاندھی جی کے قتل کے چند دن بعد راجکماری امرت کور، جو آزاد ہندوستان کی پہلی وزیر صحت بنیں، نے ایک گاندھی کے یہاں رکھی ایک سیل بند فائل نہرو کے پاس پہنچائی تھی۔ نہرو نے فائل کھولنے کے بعد مجھے بلایا اور کہا کہ اس فائل میں سید حسین کے ساتھ وجے لکشمی کے جانے کے متعلق کاغذات ہیں، آپ انھیں جلا دیں۔ میں نے ان سے یہ کاغذات اپنے پاس رکھنے کی درخواست کی لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئے۔ میں ان سے فائل لے کر سیدھا وزیراعظم کی رہائش گاہ کے کچن میں گیا اور وہیں کھڑا رہا یہاں تک کہ کاغذات راکھ ہو گئے۔“
اس کہانی نے ایک دلچسپ موڑ اس وقت لیا، جب سید حسین نے 18 دسمبر سنہ 1919 کو ’دی انڈیپنڈنٹ‘ کے ایڈیٹر کے عہدے سے اچانک استعفیٰ دے دیا اور اسی دن اخبار میں اپنا آخری اداریہ لکھا۔
22 دسمبر کو الہٰ آباد میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں بہت سے لوگوں نے قومی مسائل میں سید کے تعاون اور ان کی تحریروں کی تعریف کی۔ اس کے فوراً بعد حسین خلافت کمیٹی اور کانگریس کے اجلاس میں شرکت کے لیے امرتسر چلے گئے۔
این ایس ونود لکھتے ہیں: ”گاندھی اور موتی لال نے اس سیشن میں سے کچھ وقت نکال کر سید حسین سے اس جرات مندانہ حرکت کے بارے میں سوال کیا ہوگا اور اسے شادی توڑنے کے لیے راضی کیا ہوگا۔“
وہ لکھتے ہیں: ”چونکہ سید کا دورہ انگلینڈ پہلے سے ہی طے تھا اس لیے چَتُر (چالاک) گاندھی نے ان سے انگلستان میں رہنے کی درخواست کی جب تک معاملہ ٹھنڈا نہ ہو جائے۔ سید دونوں معزز حضرات کے مشترکہ حملے کو برداشت نہ کر سکے اور نوجوان جوڑے نے شادی ختم کرنے پر اتفاق کر لیا۔“
وجے لکشمی پنڈت نے بعد میں 13 مارچ 1920 کو پدمجا نائیڈو کو لکھے ایک خط میں نشاندہی کی کہ گاندھی نے ان سے اور سید سے ملاقات کی اور ان کی ازدواجی ’مس ایڈونچر‘ کے لیے ان کی سرزنش کی۔ جلد ہی سید بمبئی سے لندن چلے گئے اور وجے لکشمی کو ان کے دماغ اور روح کے تزکیہ کے لیے گاندھی جی کے سابرمتی آشرم بھیج دیا گیا۔
این ایس ونود لکھتے ہیں: ”پدماجا، اور کچھ حد تک ان کی ماں سروجنی نائیڈو ان لڑکیوں کے لیے ’ایگنی آنٹی‘ کا کام کرتی تھیں جو اس طرح کے تعلقات قائم کرنے کی ہمت کرتی تھیں۔ وہ پہلے جناح کی بیوی رتی کی بھی رازدار ہوا کرتی تھیں۔ بعد میں وجے لکشمی پنڈت کی بھی رازدار بنیں۔“
وہ لکھتے ہیں: ”ایک سوال اٹھنا بھی لازمی ہے کہ کیا سید اور وجے لکشمی نے جناح اور رتی کی شادی سے متاثر ہو کر اپنی شادی کا منصوبہ بنایا تھا؟ دونوں شادیوں میں بہت سی مماثلتیں تھیں۔ ایک طرف ایک پڑھا لکھا مسلمان اپنے سے کہیں چھوٹی پارسی لڑکی سے شادی کر رہا تھا تو دوسری طرف ایک اچھے گھرانے کے مسلمان لڑکے کی شادی اپنے سے چھوٹی عمر کی کشمیری برہمن لڑکی سے ہو رہی تھی۔“
مہاتما گاندھی امرتسر میں کانگریس کے اجلاس کے بعد آنند بھون آئے۔ آنند بھون میں قیام کے دوران ہی گاندھی جی نے وجے لکشمی کو احمد آباد کے قریب سابرمتی آشرم میں اپنے ساتھ کچھ دن گزارنے کا مشورہ دیا۔
وجے لکشمی لکھتی ہیں: ”میری ماں کا خیال تھا کہ میری مغربی پرورش نے مجھے غیر روایتی طور پر سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اس لیے انھوں نے گاندھی جی کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا کہ میں سابرمتی آشرم جاؤں۔“
وجے لکشمی کو سابرمتی جانا پسند نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: ”اس جگہ کو دیکھتے ہی میرا دل ڈوب گیا۔ وہاں کی ہر چیز آنکھوں کے لیے خوفناک اور ناگوار تھی۔ ہم پرارتھنا کے لیے صبح چار بجے ہی بیدار ہو جاتے تھے اور پھر اپنے کمروں میں جھاڑو لگاتے تھے۔ ہم اپنے کپڑے دھونے کے لیے قریبی دریا پر جایا کرتے تھے۔ آشرم کا اصرار تھا کہ کھانے کی ہماری تمام خواہشات مر جائیں۔ آشرم میں کچھ سبزیوں کو بغیر نمک، مصالحے اور گھی کے ابال دیا جاتا تھا۔ ان کو ہم چپاتیوں اور چاولوں کے ساتھ کھاتے تھے۔ آشرم میں نہ تو چائے پینے کو دی جاتی تھی اور نہ ہی کافی۔“
موتی لال نہرو نے بھلے ہی رہنے اور کھانے کے مغربی طریقے اختیار کیے ہوں لیکن دل میں وہ ایک روایتی ہندو تھے، جو اپنی بیٹی کی کسی مسلمان سے شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
دوسری طرف مہاتما گاندھی عوامی طور پر ہندو مسلم اتحاد کی بات کر سکتے ہیں لیکن وہ روایتوں کے اتنے ہی پیروکار تھے، جتنا کہ موتی لال نہرو۔
یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے بیٹے منیلال کو 1926 میں ایک مسلمان لڑکی فاطمہ گل سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ سید کے لندن جانے کے چند ماہ بعد وجے لکشمی پنڈت کی شادی مہاراشٹر کے ایک برہمن رنجیت پنڈت سے کر دی گئی۔
ان کی شادی 9 مئی سنہ 1921 کو الہ آباد میں ہوئی جس میں گاندھی جی نے بھی شرکت کی۔ اس شادی میں سروجنی نائیڈو بھی موجود تھیں۔
15 مئی 1921 کو انھوں نے اپنی بیٹی لیلا منی کو ایک خط میں لکھاکہ ”بے چارہ سید۔ میرا دل ان کے لیے بہت دکھتا ہے لیکن میں شکر گزار ہوں کہ یہ اس طرح ختم ہوا کیونکہ اس سے وجے لکشمی کو شاید ہی کوئی فرق پڑا۔“ البتہ سید حسین تا عمر غیر شادی شدہ رہے۔
اس شادی کی بازگشت برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں بھی سنی گئی۔
14 اپریل سنہ 1920 کو کنزرویٹو ایم پی کوتھبرٹ جیمز نے ہندوستانی امور کے وزیر ایڈون مونٹاگو سے تحریری طور پر پوچھا ”کیا یہ سچ ہے کہ حال ہی میں ہندوستان سے خلافت کے وفد کے رکن کے طور اس ملک کا دورہ کرنے والے سید حسین پر موتی لال نہرو کی بیٹی کو اغوا کرنے کا الزام ہے؟“
ایڈون مونٹاگو نے کہا کہ انھیں اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
سید نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے جیمز کو خط لکھ کر کہا کہ ”میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے میرے کردار پر سنگین اور بے بنیاد تبصرہ کیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ نے ایسی لغو بات کس بنیاد پر کہی ہے؟ آپ اس بیان کو واپس لیں اور اس کے لیے عوامی سطح پر معافی مانگیں۔ اگر آپ میں ذرا بھی عزت باقی ہے تو یہ بات پارلیمنٹ کے باہر کہہ کر دیکھیں تاکہ میں اس کا مناسب جواب دے سکوں۔“
جب سید حسین 1920 میں ہندوستان سے نکلے تو اگلے 26 سال تک ہندوستان واپس نہیں آئے۔ درمیان میں وہ 1937 میں چند دنوں کے لیے ہندوستان آئے تھے۔
انھوں نے پہلے برطانیہ اور پھر امریکہ کی سرزمین پر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی۔ اس دوران ہندوستان میں رونما ہونے والے واقعات جیسے کہ عدم تعاون کی تحریک، مسلم لیگ کے عروج اور ان کے پرانے دوست محمد علی جناح کی پاکستان بنانے کی تحریک، نہرو کی زیر قیادت عبوری حکومت اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم جیسے واقعات سے براہ راست ان کا سابقہ نہیں پڑا۔
سید حسین لندن میں قیام کے دوران قوم پرست اخبار ’انڈیا‘ کے ایڈیٹر رہے۔ اکتوبر 1921 میں وہ لندن چھوڑ کر امریکہ چلے گئے جہاں وہ 1946 تک رہے۔
اس دوران انھوں نے پورے امریکہ کا دورہ کیا اور ہندوستان کی آزادی کے حق میں تقریریں کیں۔
1924 سے 1928 تک وہ ’دی نیو اورینٹ‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ان کے دور میں مہاتما گاندھی، البرٹ آئن اسٹائن، خلیل جبران، سروجنی نائیڈو اور برٹرینڈ رسل کے مضامین ان کے اخبار میں شائع ہوئے۔
اس کے بعد انھوں نے ایک اور میگزین ’وائس آف انڈیا‘ کی ایڈیٹنگ بھی کی۔ انھوں نے ہمیشہ ہندوستان کے ثقافتی اتحاد کی وکالت کی۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستانی ثقافت نہ ہندو ہے اور نہ ہی مسلم، وہ مکمل طور پر ہندوستانی ہے۔
اس دوران وہ شاید ان چند لوگوں میں شامل تھے، جنہوں نے ایک غیر منقسم ہندوستان کا خواب دیکھا تھا، جہاں ہندو اور مسلمان دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔
وجے لکشمی پنڈت جب 1945 میں امریکہ گئیں تو ان کی ملاقات 26 سال بعد حسین سے ہوئی۔
سنہ 1946 میں انھوں نے جواہر لعل نہرو کو ایک خط لکھا، جس میں ہندوستان واپس آنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا لیکن انھیں نہرو کی طرف سے بہت سرد مہری والا جواب ملا۔
انھوں نے لکھا کہ ’آپ امریکہ میں رہ کر ہندوستان کے لیے بہتر کام کر سکتے ہیں۔’
ایم او متھائی لکھتے ہیں: ’نہرو کا جواب اس امکان کو روکنے کے لیے تھا کہ وجے لکشمی پنڈت اور سید حسین دوبارہ رابطے میں آئیں گے اور ان کے بارے میں بات چیت کا دور دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ نہرو یہ نہیں بھولے تھے کہ 30 سال قبل حسین کا ان کی بہن کے ساتھ محبت کا رشتہ تھا۔‘
وجے لکشمی پنڈت سوویت روس اور سید مصر کے سفیر
سید حسین نہرو اور گاندھی کی حوصلہ شکنی کے باوجود 1946 میں ہندوستان واپس آ گئے۔ اس وقت وجے لکشمی پنڈت اتر پردیش حکومت میں وزیر تھیں۔
ان کے شوہر رنجیت پنڈت دو سال قبل فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت جواہر لال نہرو 17 یارک روڈ پر رہتے تھے۔
وجے لکشمی جب بھی لکھنؤ سے دہلی آتی تھیں، وہ اپنے بھائی کے گھر ٹھہرتی تھیں۔
اگر ایم او متھائی کی باتوں پر یقین کیا جائے تو سید حسین ہر صبح نہرو کے گھر پہنچ جاتے تھے۔ ان کی پتلون کی پچھلی جیب میں کونیک کا ایک فلاسک رکھا ہوتا تھا جس سے وہ وقتاً فوقتاً نکال کر ایک گھونٹ لے لیتے تھے۔
وجے لکشمی پنڈت اور سید حسین کی ملاقاتوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ نہرو نے وجے لکشمی پنڈت کو سوویت روس میں ہندوستان کا پہلا سفیر مقرر کیا، حالانکہ ان کی کابینہ کے ارکان بالخصوص لیاقت علی نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔
وجے لکشمی پنڈت نے بھی اپنی سوانح عمری میں اعتراف کیا کہ انھیں اپنے بھائی کا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔
دوسری طرف سید حسین کو مصر میں ہندوستان کا پہلا سفیر بنا کر بھیجا گیا۔
ان تقرریوں کے پس پشت نہرو کی یہ نیت ضرور تھی کہ وجے لکشمی اور سید حسین آسانی سے ملنے کا موقع نہ مل سکے۔
3 مارچ 1948 کو سید حسین نے مصر کے شہنشاہ ایم ایم فاروق کو اپنی اسناد پیش کیں۔ انھیں روایتی طور پر چار گھوڑوں والی گاڑی میں مصر کے شہنشاہ کے عابدین محل میں لے جایا گیا۔ ان کے جلوس میں مصری فوج کے تقریباً 100 گھڑ سوار شامل تھے۔ جیسے ہی وہ محل کے قریب پہنچے تو شہنشاہ کے محافظوں نے انھیں گارڈ آف آنر دیا۔
قاہرہ میں قیام کے دوران سید نے گھر پر قیام نہیں کیا اور شیفرڈ ہوٹل میں قیام کرتے رہے۔ حسین کے مصر میں قیام کے دوران ان سے ملنے کے لیے جواہر لال نہرو، وجے لکشمی پنڈت اور ان کی بیٹیاں چندرلیکھا اور نینتارا وہاں گئیں۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی سید حسین کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر 61 سال تھی۔
انھیں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
مصری حکومت نے ایک گلی کا نام ان کے نام پر رکھا ہے۔
انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو مئی 1949 میں قاہرہ گئے اور سید حسین کی قبر پر پھول چڑھائے۔
کچھ دنوں بعد وجے لکشمی پنڈت اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل نمائندہ بن گئیں۔
نیویارک کے سرکاری دوروں کے دوران وہ اکثر قاہرہ میں رکتیں اور سید حسین کی قبر پر پھول چڑھاتیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو