دھرنے کے اختتام اور اسلام آباد سے کوچ کر نے سے پہلے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ”آپ نے بلوچ عورت کو دہشت گرد قرار دے دیا، اسے اسلام آباد کے زندان میں رکھا۔ آپ نے اپنے اس برتاؤ سے بلوچ قوم کو جو پیغام دیا ہے ہم اس پیغام کو وہاں (بلوچستان) کے گھر گھر میں پہنچائیں گے۔ ہمارے یہاں (بلوچوں میں) ہماری تاریخ اور تہذیب سے جڑی یہ روایت رہی ہے کہ ہم لوگ اشعار و داستان اور لوریوں کی شکل میں اپنی سرگزشتوں کو محفوظ رکھتے ہیں اسے بچوں کو سناتے اور آنے والی نسلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ جب ہم یہاں (اسلام آباد میں ) تھے تو ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا! وہاں (بلوچستان میں) شاعروں نے سینکڑوں کی تعداد میں ان (واقعات و حالات) پر اشعار لکھے ہیں۔ وہ اور بھی لکھیں گے۔ ہم (بلوچ) اس پر لکھتے رہیں گے۔ حسب روایت یہ سب ہماری یادداشتوں کا، ہماری تاریخ اور ادب کا حصہ رہیں گے۔ ان ساٹھ دنوں میں ہمارے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، جو کچھ بلوچ خواتین و بچوں اور سفید ریش بوڑھوں کے ساتھ ہوا، اسے کبھی فراموش نہیں ہونے دیں گے، بلوچ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی“
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ان کلمات کی روشنی میں اس کالم میں بلوچی ادبی روایات اور خاص کر اس کے مزاحمتی پہلو پر مختصراً بات ہوگی۔
بلوچی کلاسیکل ادب کا بڑا حصہ مزاحمتی شاعری اور جنگی داستانوں پر مشتمل ہے جو تاحال بلوچی ادب کی سمت کے تعین میں بنیادی کردار کا حامل رہی ہیں۔ تاریخی داستانوں اور زرمیہ اشعار اپنے حق و بقاء کے لئے ظالم و جابر کے خلاف بلوچ ہمیشہ بالادست طاقتوں سے برسرپیکار نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے تاریخی طور پر بلوچستان کے جغرافیائی حالات، دستیاب قدرتی وسائل اور سخت آب و ہوا میں زندہ رہنے کی جستجو کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ زمانہ قدیم سے بلوچ قوم کی طرز زندگی، ذریعہ معاش، ہمسایہ اقوام و ممالک سے تعلقات کی نوعیت، تاریخی طور پر درپیش واقعات و حالات اور خطرات کو جاننا ازحد ضروری ہے۔ کیونکہ مذکورہ تمام عوامل کسی بھی مخصوص قوم کی زبان کے نشو و نما اور تہذیب و تمدن کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں، وہاں رہائش پذیر باشندوں کی ذہن سازی و شخصیت سازی اور طرز زندگی اور رد عمل کے تعین میں بنیادی حصہ ڈالتی ہیں۔
سنگلاخ پہاڑ، میلوں پر محیط بے آب و گیا دشت نما میدان، کم بارشیں، محدود بارشوں پر منحصر چراگاہیں، جانوروں و کاشتکاری اور انسانوں کے استعمال کے لئے پانی کے ناکافی ذخائر، سخت موسمی حالات اور مال مویشیوں کے لئے چراگاہوں کی تلاش میں سفر در سفر، اور دوران سفر مختلف خطرات و چیلنجز کا مقابلہ، اپنی اور اپنے مال مویشیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا، یہ سب وہ عوامل ہیں جنہوں نے بلوچ کی مجموعی شخصیت سازی کی ہے۔ ساتھ ہی مذکورہ عوامل نے نہ صرف بلوچ اقدار و روایات کی سمتیں متعین کی ہیں بلکہ بلوچی زبان کے اس ادب کو تخلیق کیا ہے جو مزاحمت اور مسلسل مزاحمت کے بیانیے پر مبنی ہے۔ جو بلوچ کو ناقابل بیان سختیوں اور خطرات کا سامنا کرنے و ان پر قابو پانے کا حوصلہ دیتا ہے اور بحیثیت قوم بلوچ کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور اسے ٹوٹنے نہیں دیتا۔
تاریخی حوالے سے سرزمین بلوچ تین اطراف سے ایران، افغانستان اور ہندوستان کی ریاستوں سے سے گرا ہوا تھا جبکہ جنوب میں بحر بلوچ واقع ہے۔ مذکورہ تینوں ریاستیں بلوچستان سے زیادہ منظم و مضبوط اور طاقتور ریاستیں تھیں۔ سمندری راستے سے بھی طاقت آزما بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہوئی ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف مہم جوہ بلوچستان کے مختلف حصوں پر قابض رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ سماج میں قبائلی مفادات و بالادستی پر مبنی طرزعمل اور آپسی خون ریز لڑائیاں، پھر انگریزوں کی آمد اور بلوچوں کی مزاحمت اور قربانیاں، یہ سب وہ حالات و واقعات اور وجوہات ہیں جنہوں نے بلوچ اقدار کو مخصوص سانچے میں ڈھالا ہے جس میں مزاحمت بلوچ اوصاف کا ایک لازمی جز ہے۔
اصولاً بلوچ سماج میں مزاحمت بلوچیت کا استعارہ ہے اور ”اصل بلوچ“ اس کو مانا جاتا ہے جو طاقتور سے مرعوب اور اپنے جائز حق سے دستبردار نہیں ہوتا اور جابر کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچی زبان میں مزاحمتی بیانیہ پر مبنی ادب کا بیش بہا خزانہ موجود ہے جو مختلف تاریخی واقعات پر مبنی داستانوں، زرمیہ شاعری اور کہاوتوں پر مشتمل ہے اور بلوچ مزاج اور زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر بلوچ تاریخ کے سب سے مشہور داستانوں میں سے ایک ”بالاچ بیرگیر“ (بلوچی زبان میں بدلہ یا انتقام لینے والے کو بیرگیر کہتے ہیں جو ایک خطاب ہے ) کے داستان میں بالاچ سے ماخوذ طویل نظم کے ایک بند میں شاعر کہتا ہے کہ ”یہ سنگلاخ پہاڑ بلوچوں کے اصل قلعے ہیں، جو چاروں طرف سے مضبوط و محکم اور بلوچ کے محافظ ہیں“
اسی داستان میں بالاچ کا مقتول بڑا بھائی دودا سے ماخوذ شعر میں (روایت ہے کہ شہید دودا اپنے چھوٹے بھائی کے خواب میں آتا ہے ) کہتا ہے کہ ”اے بالاچ! اس سچائی کو قبول کرلو کہ میں مر چکا ہوں، تم خوشی مناؤ کہ مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی، سر کو بلند رکھو! کیونکہ تمہارے بھائی نے ننگ و ناموس کے لئے جام شہادت نوش کی ہے“ ۔ ایک اور تاریخی داستان میں مرکزی کردار جس کا نام قمبر ہے جو بندی بنائے گئے اپنے لوگوں کو دشمن سے آزاد کرانے کے لئے جنگ پر جانے سے پہلے اپنی والدہ کو رخصت کرنے اور دعائیں لینے کے ان کے پاس آتا ہے تو اس واقعہ کی نسبت سے والدہ سے ماخوذ شعر ہے (جس میں والدہ اپنے بیٹے کو گلے لگا کر اور پھر اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہے ) کہ ”اگر اپنے لوگوں کو آزاد کرانے میں تمہاری جان بھی چلی جائے مگر ہرگز پیچھے نہ ہٹنا، تمہارے موت کی خبر سے مجھے ذرہ برابر بھی ملال نہ ہو گا، جب تمہارے لوگ آزاد ہو کر آئیں گے، مجھے تمہارے بے خوف لڑنے اور لڑ کر مرنے کے قصے سنائیں گے، تو میرا سر فخر سے بلند ہو گی، تمہارے والد کا نام روشن ہو گا، تمہارے آبا و اجداد کی قبریں خوشبوؤں سے مہک اٹھیں گی، اور ان کی قبروں سے تمہاری لئے نیک دعاؤں کا نزول ہو گا، تمہارے دلیرانہ موت پر میں سوگ نہیں مناؤں گی، بلکہ خود کو دلہن کی طرح سجاؤں گی، خوشی کے شادیانے بچاؤں گی“ والدہ پھر اپنے جوان بیٹے کو متنبہ کر کے کہتی ہے کہ ”اگر تم میدان سے خالی ہاتھ زندہ لوٹ آئے تو میں سمجھوں گی تمہیں پال پوس کر جوان کرنے پر میں نے جنتی تکلیفیں سہی ہیں، میری وہ تمام تکالیف اور محنت بیکار گئی ہیں، میری سر شرم سے ہمیشہ جھکی رہے گی، ہمیشہ پچھتاوے کے احساس میں گھٹتی رہوں گی، تمہیں جنم دینے اور بڑا کرنے کا مجھے ہمیشہ ملال رہے گا“
تحمل سے یہ سب باتیں سننے کے بعد قمبر اپنی والدہ کی ہاتھوں کو ہاتھوں میں لے کر اطمینان سے جواب دیتا ہے کہ ”اے میری قبلہ جیسی والدہ! تمہاری تمام نصیحتیں سر آنکھوں پر ، مگر مجھے تلخ طعنے نہ دو ! آپ اپنے خون (اولاد) پر غیر متزلزل یقین اور اطمینان رکھیں! میں نے آپ کے پیٹ سے جنم لیا ہے، آپ کی چھاتیوں کا دودھ پیا ہے، پھر بلا کیسے پیٹھ دکھا سکتا ہوں! میدان سے کیسے بھاگ سکتا ہوں!“ اسی طرح ”بیبگر اور للا“ کے تاریخی اور عشقیہ داستان میں جب سچ سے ناآشنا ایک شخص گراناز کو یہ غلط اطلاع دے دیتی ہے کہ تمہارا شوہر للا جنگ کے میدان سے بھاگ گیا ہے تو وہ شوہر کو خود پر حرام قرار دے کر بیوہ کا روپ دھار لیتی۔
حالانکہ حقیقت میں جنگ میں شریک ایک قریبی رشتہ دار زخموں سے چور نیم مرگ للا کو گھوڑے کی پشت پر لٹا کر اسے ایک محفوظ مقام پر منتقل کرتا ہے۔ مگر گراناز اس وقت تک اپنے شوہر کا چہرہ نہی دیکھتی اور نہیں ملتی تا وقت کہ وہ صحت یاب ہو کر دشمن کا سر قلم نہیں کرتا۔ اس جیسے بے شمار داستان اور اشعار بلوچی کلاسیکل ادب کا ناقابل فراموش حصہ ہیں۔ صدیاں گزرنے کے باوجود بلوچ گھرانوں میں آج بھی سنے اور سنائے جاتے ہیں۔ یہ اشعار لوریوں کی شکل میں ماں اپنے شیرخوار اور جوان ہوتے بچوں کو سناتی ہیں، بہنیں اپنے بھائیوں کے لئے گنگناتی ہیں۔ مختلف تقریبات اور محفلوں میں کہے جاتے ہیں۔ یہ اشعار اور داستان سینہ در سینہ صدیوں کا سفر طے کر کے یہاں تک پہنچی ہیں جنہیں اب کتابوں سمیت مختلف جدید طریقوں سے محفوظ کیا جا رہا ہے۔
1950 ء کی دہائی میں باقاعدہ بلوچی زبان میں لکھنے اور اشاعت کا آغاز ہوا۔ 1950 ء سے لے کر تاحال بلوچی زبان میں جو ادب تخلیق ہو رہی ہے وہ جدید ادب کہلاتی ہے۔ بلوچی جدید ادب میں بھی غالب حصہ قومی شناخت، زمین، خاک، زبان، محکومی و مظلومیت اور انتقام کے احساسات و جذبات پر مشتمل ہے۔ یہاں تک کہ اب فائن آرٹس اور فنون لطیفہ کے دیگر اصناف میں بھی مزاحمتی رنگ نمایاں ہے۔ کیونکہ فن و ادب کو حقائق و حالات اور احساسات کا آئینہ کہا جا تا ہے۔ اور تاحال پاک و ایران سرحد میں منقسم بلوچ و بلوچستان کو جن مسائل اور حالات کا سامنا ہے فطری طور پر اس کا تخلیقی اظہار انہی حقائق و حالات اور تجربات سے متاثر اور جنم لینے والے جذبات و احساسات اور خیالات و نظریات سے متعلق ہی ہوں گے۔
رواں صدی کے آغاز سے ہی بلوچستان کے حالات نے ایک اور کروٹ لی ہے۔ دو دہائیاں گزرنے کے باوجود مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مذکورہ حالات نے بلوچستان میں ہر شعبۂ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا گھرانا و خاندان ہو جو ان حالات سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بلوچستان میں اور بلوچستان سے باہر حصول علم اور روزگار یا بلوچستان کے مخدوش حالات سے فرار اور خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر ملک کے دیگر حصوں یا شہروں میں عارضی طور پر مقیم بلوچوں کو مختلف منفی رویوں اور غیر مساوی سلوک کا سامنا ہے وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
مختصراً یہ کہ بلوچ پر جو بیت رہی ہے، جن اذیت ناک تجربات و احساسات اور جذبات سے بلوچ گزر رہا ہے! وہ کس طرح بکھر رہا ہے اور اپنے بکھرے وجود کو کس طرح سمیٹ رہا ہے؟ یہ صرف بلوچ ہی جانتا ہے۔ اور بلوچستان کی ان تمام صورتحال اور بلوچ قوم کے اجتماعی و انفرادی احساسات و جذبات اور خارجی و داخلی جزئیات کا صحیح عکس بلوچی ادب اور فنون لطیفہ میں نمایاں ہے۔ 2000 ء کے بعد شاعری سمیت بلوچی ادب کے دیگر اصناف اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں ”مزاحمتی بیانیہ“ پر مبنی جتنا کام اور تخلیقات ہوئی اور ہو رہی ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
23 نومبر 2023 کو تربت میں بالاچ مولابخش کے ماورائے عدالت قتل، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی سربراہی میں تاریخی بلوچ لانگ مارچ اور میلوں کا سفر کر کے انصاف کے حصول میں شہر اقتدار میں جا پہنچے بلوچ خواتین و معصوم بچوں اور سفید ریش بوڑھوں کی بے حرمتی، ان پر تشدد اور غیرانسانی سلوک، اسلام آباد میں بلوچ دھرنا کے دوران پیدا کردہ درپیش مسائل و مشکلات سمیت اس تحریک اور دھرنے کا ہر کردار، ہر پہلو اور تمام جزئیات تصاویر ویڈیوز سمیت بلوچی ادب و آرٹ کا تاریخی حصہ بن چکے ہیں جو بلوچ نوجوانوں کو درس دی رہی ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہیں۔
بلوچی کہاوت ہے کہ ”صدیاں گزرنے کے باوجود انتقام کی چنگاریاں بج بجھ نہیں جاتی ہیں اور قاتل کو معاف نہیں کیا جا سکتا“
آخر میں بلوچی جدید ادب کا نمائندہ اور نامور بلوچ شاعر عطا شاد کے ایک آزاد نظم کے چند مصرعے اردو لفظی ترجمہ کے ساتھ قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں:
آنکھیں نور سے محروم ہیں مگر دیکھ رہی ہیں!
سماعت سے محروم ہیں کان، مگر سب سن رہی ہیں
روح تو موجود ہے، مگر زندگی کا نام و نشان نہیں
میں ابن آدم ہوں، ازل سے میرے حقوق متعین ہیں
زندگی کی خوشیوں اور آزادی کا حقدار ہوں
اے ابن آدم! دو انتہاؤں میں کھڑے ظلم اور مظلومیت کو دیکھ
وجود باطن نوحہ کنا ہے
روح کی چیخیں عرش تک گونج رہی ہیں
مگر افسوس کہ تم سماعت سے یکسر محروم ہو چکے ہو
جبکہ میں زبانی اظہار سے محروم ہوں
تم طاقت کے زور پر حاصل کامیابیوں پر متکبر ہو
جب کہ میں اپنے آبا و اجداد کی وراثت اور مادر وطن کے لئے تڑپ رہا ہوں
کیا سروں کو کچلنے سے ان جذبات اور نظریات کو قتل کر سکتے ہو جن پر زندگی کا انحصار ہے! ؟
پھول کو مسلنے سے کیا اس کی خوشبو کو الگ یا ختم کیا جا سکتا ہے؟
یہ خون ناحق جو تم نے بہائے ہیں
یہ خون نئی کیاریوں کی آبیاری کرے گا
یہ سرخ خون سرخ مشعل کی طرح رہنمائی کرے گا۔
بشکریہ ’ہم سب‘
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)