مطالعہ: میرے بچپن کا شوق، جس نے میری زندگی تشکیل دی

رائن کوگن

مجھے بچپن میں کتابوں سے عشق کی خاصی قیمت چکانا پڑی، لیکن انہی کتابوں نے مجھے وہ بنایا جو آج میں ہوں۔

کونسل سٹیٹ (سستے سرکاری گھر) سے تعلق رکھنے والے ایک غریب بچے کی حیثیت سے، میرے پاس بڑے ہو کر کچھ بننے کے خواب نہیں تھے، لیکن میری ماں نے یہ بات یقینی بنائی کہ ہمارے پاس کچھ اور نہیں تو کم از کم پڑھنے کے لیے کتابیں ضرور ہوں۔

میں پڑھنے کا شوقین تھا۔ سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ سے پہلے کے زمانے میں، مجھے اکثر کہا جاتا تھا کہ تمہاری آنکھیں کتاب پر گڑی ہوتی ہیں، چاہے میں رات کا کھانا کھا رہا ہوتا تھا، یا کسی بڑے کی بات سن رہا ہوتا تھا، یا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا تھا۔ بہت سے طریقوں سے کتابوں نے مجھے ایک بہت بھرپور اندرونی زندگی گزارنے میں مدد کی۔

لیکن ایک اور بہت فوری اور عملی طریقے سے انہوں نے مجھے بہت نقصان بھی دیا۔

مائیکل مورپرگو اور میلری بلیک مین سمیت کئی مصنفین نے برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سات سال سے کم عمر کے بچوں، خاص طور پر محنت کش طبقے کے پسِ منظر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے کتابوں اور پڑھنے کے پروگراموں پر زیادہ سرمایہ کاری کرے۔

اس خط پر گذشتہ پچیس برسوں کے تمام بچوں کے ادب کے انعام یافتہ مصنفوں نے مشترکہ طور پر دستخط کیے ہیں۔

یہ بظاہر ایک اچھا قدم ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے اس بات پر غور کیا ہے کہ انہوں نے کتنے بچوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، جہاں انہیں پر فقرے کَسے جائیں گے اور انہیں تنگ کیا جائے گا؟

کیا وہ بچوں کو سماجی اچھوت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟

میری پرورش ایک ایسے علاقے میں ہوئی، جہاں پڑھنے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا بلکہ اس کی سزا بھی دی جاتی تھی، لہٰذا مجھے ہائی اسکول اور کالج کے زیادہ تر دنوں میں اپنے شوق کی قیمت چکانا پڑی۔

اچھے دنوں میں مجھے ’خاموش بچہ‘ کہا جاتا تھا۔ برے دنوں میں ۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ الفاظ قابلِ اشاعت ہیں۔

تاہم، اہم سوال یہ ہے: کیا انجامِ کار یہ قیمت چکانا درست تھی؟ ٹھیک ہے، مجھے انگریزی پڑھنے کے لیے بہت سارے وظائف ملے، میں نے پی ایچ ڈی کی، میری تحریریں کتابوں، رسالوں اور اخبارات میں سینکڑوں بار شائع ہوئیں۔ میں نے یونیورسٹی کی سطح پر انگریزی پڑھائی، اور تحریر ہی میرا ذریعۂ روزگار ہے۔

لہٰذا نہیں، واقعی نہیں۔ سوشل میڈیا، مصنوعی ذہانت اور عالمی دانشور مخالف تحریکوں کے درمیان اب پڑھا لکھا ہونے میں کوئی پیسہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے مجھے ریاضی پڑھنی چاہیے تھی۔

ظاہر ہے میں مذاق کر رہا ہوں۔ اسکول میں تنگ کیے جانے کے بارے میں نہیں۔۔ یہ حصہ بہت حقیقی تھا، اور کئی لحاظ سے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے –

لیکن میرے علاقے کے بچوں کو کسی کو تنگ کرنے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر کتابیں نہ ہوتیں تو کچھ اور ہوتا۔

(میں ریاضی کے بارے میں مذاق نہیں کر رہا – مصنوعی ذہانت شاید اگلے دس سالوں میں واقعی ہم سب مصنفین کی جگہ لے لے گی، یہ واحد چیز ہے، میں جس سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔)

لیکن کم عمری میں پڑھنے کا میری بالغ زندگی پر زبردست اثر پڑا۔ اس نے میری شخصیت کو تشکیل دینے میں مدد کی، نہ صرف میرے کیریئر کے لحاظ سے، بلکہ میری اندرونی تخلیقی زندگی کے لحاظ سے بھی۔

کتابیں ایک ایسی چیز ہیں جو تمام بچوں کے لیے دستیاب ہونی چاہییں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا پسِ منظر یا والدین کی آمدنی کی سطح کیا ہے۔ چاہے یہ کتابیں شیکسپیئر کی ہوں یا گوزبمپس (ڈراؤنے ناولوں کی مشہور سیریز)، پڑھنے کا عمل اپنے آپ میں اہمیت رکھتا ہے، اور بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو کوئی اور ذریعہ کم ہی کر سکتا ہے۔

چاہے اس کے لیے آپ کو تھوڑی بہت رکاوٹوں کا کیوں نہ سامنا کرنا پڑے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close