کراچی سے خیرپور میرس، قومی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے جب کوٹ ڈیجی سے گزرا جاتا ہے تو ذہن پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ایک طرف پہاڑی پر کوٹ ڈیجی کا عالی شان قلعہ میران خیرپور کی عظمتِ رفتہ کی داستانیں سنانے کے لیے اپنی طرف کھینچتا ہے تو دوسری طرف عین قلعہ کے سامنے وادیِ سندھ کی شان دار تہذیب و تمدن ایک برباد ٹیلے کی صورت میں اپنا حال بیان کرنے کے لیے بلانا شروع کر دیتی ہے۔ آدمی اپنے دائیں اور بائیں اطراف حیرت و استعجاب سے دیکھنے لگتا ہے۔ بالآخر اس کی نظریں اس ٹیلے پر جم جاتی ہیں، جہاں کبھی لوگ ہنسی خوشی رہا کرتے تھے۔ اب وہاں خاموشی ہے، اداسی ہے، ٹیلے کی طرف جاتے ہوئے سورۃ القصص کی آیات ذہن کو جھنجھورنے لگتی ہیں۔
ترجمہ: ’’دیکھ لو، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں، جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے۔ آخرکار ہم ہی وارث ہوکر رہے۔ تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے، وہ محض دنیا کی زندگی اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘ (سورۃ القصص، آیات 28-29)
وادیِ سندھ کے شان دار دور کی علامت کوٹ ڈیجی کے آثار حیرت کا ایک جہاں ہیں۔ یہ ٹیلہ ایک حیرت کدہ اور عبرت کدہ ہے۔ کیسے سگھڑ، باسلیقہ، ذہین اور باوقار لوگ یہاں رہتے تھے۔ ان کی ذہانت اور سلیقہ مندی کے نشانات اس ٹیلے کے چہار سو بکھرے پڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تہذیب یافتہ لوگوں کی تعریف میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر مارٹیمر ویلر کو کہنا پڑا کہ ’’یہ خطہ دنیا کی قدیم قوم کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ اس کی عظمت کی داستان یہ آثار دہرا رہے ہیں۔‘‘
واقعی یہ بات سولہ آنے سچ ہے۔ کوٹ ڈیجی کے قدیم آثار وہاں سے گزرنے والے ہر ایک کو یہ بتاتے ہیں کہ وادیِ سندھ دنیا کا ایک قدیم خطہ ہے، اس کی تہذیب اعلیٰ اور شان دار رہی ہے۔ اس تہذیب کا زبردست تسلسل کوٹ ڈیجی شہر بھی ہے جو قدیم عمارات کے باعث پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ لہٰذا اس شہر کو مثالِ زندہ تہذیب کہا جاتا ہے اور بلاشک و شبہ اس زندہ تہذیب کے پیش رو وہ لوگ تھے، جنہوں نے اس آبادی کی بنیاد رکھی، جو کوٹ ڈیجی کے آثار کی صورت میں تاریخِ عالم میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق وادیِ سندھ میں کوٹ ڈیجی کی تہذیب مکمل انسانی آبادی کی ایک شان دار مثال ہے۔
کوٹ ڈیجی کے آثار خیرپور میرس شہر سے تقریباً 22 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر چونے کی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر موجود ہیں۔ اس کے عین سامنے مغرب میں 70 کلو میٹر کی مسافت پر موئن جو دڑو ہے۔ یہ آثار نومبر 1955ء میں دریافت ہوئے اور ایک ماہ تک ان کی کھدائی کی گئی۔ بعدازاں 26 فروری 1958ء کو سرمارٹیمر ویلر کی نگرانی میں ان کی باقاعدہ کھدائی ہوئی، جس کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تہذیب موئن جو دڑو سے تین سو سال پرانی ہے۔
اس کے آثار 700 فٹ طویل اور 400 فٹ عریض رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ چوں کہ کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات کی مکمل کھدائی تاحال نہیں ہو سکی ہے، لہٰذا اس تہذیب کے بہت سارے گوشے ابھی تک زمن میں دفن ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور کیا کرتے تھے؟ لیکن یہ طے ہے کہ یہ فنونِ لطیفہ کے بڑے ماہر تھے، خصوصاً دستکاری میں تو ان کا کوئی جواب ہی نہیں تھا، نہ صرف یہ بلکہ ایک ترقی یافتہ رسم الخط بھی جانتے تھے۔
اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ زمانہِ قدیم سے یہاں بودوباش رکھتے تھے اور دو دور آفرین تہذیبوں، موئن جو دڑو اور ہڑپا کے لوگوں کے رہنما اور استاد تھے۔ ان کی ثقافت بہت عمدہ اور اعلیٰ درجے کی تھی۔ موئن جو دڑو اور ہڑپا کے لوگوں نے ان سے فنی اور تعمیراتی حوالے سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ عین ممکن ہے کہ موئن جو دڑو اور ہڑپا کے باشندوں نے ان سے شہروں کی تعمیر، کوزہ گری اور فصیل بندی کا ہنر سیکھا ہو۔ یہ لوگ جدید طرز کی کوزہ گری کے ماہر مانے جاتے ہیں۔
تقریباً 3500 سال قبلِ مسیح کی یہ قدیم اور خوش حال آبادی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ امراء اور دفاع سے متعلق لوگوں کی رہائش گاہوں پر مشتمل ہے، جو 40 فٹ بلند، 350 فٹ چوڑا اور 500 فٹ لمبا ہے۔ اس کے اطراف 15 فٹ اونچی دیوار تعمیر کی گئی ۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رائے ہے کہ یہ وہ پہلی دیوار ہے، جو برصغیر میں قلعہ بندی کے طور پر تعمیر کی گئی تھی، اس میں چونے کا پتھر استعمال کیا گیا تھا، مناسب فاصلوں پر برجیاں بھی تعمیر کی گئیں۔
اس حصے کی کھدائی کے بعد بہت کشادہ کمرے دریافت ہوئے ہیں۔ کمروں کی دیواروں کی بنیادوں میں پتھر استعمال کیا گیا ہے جبکہ اوپر والے حصے چھت تک پکی اینٹوں سے اٹھائے گئے ہیں۔ چھتوں پر مٹی کے گارے سے لیپا گیا، ان پر بیل بوٹے اور گلکاری کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کی طرزِ تعمیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بہت ہی منظم، خوش حال اور ترقی یافتہ تھے۔ شہر کے بالائی حصے کے گھروں میں جگہ جگہ جلی ہوئی چیزوں کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔ قرینِ قیاس ہے کہ اس شہر کو آگ لگائی گئی ہو، اتفاقی آگ لگنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات کا دوسرا حصہ پیشہ ور لوگوں کے مکانات پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں میں زیادہ تر ہنرمند یا دستکار ہی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے مکان مٹی کی اینٹوں سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اینٹوں کی موٹائی 5 فٹ جبکہ لمبائی 15 فٹ تک ہے۔ مکانوں میں راہ داریاں بھی بنائی گئی ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کمروں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی تھیں۔فرش پر مٹی کی لپائی کی جاتی تھی۔
بعض امراء کے گھروں کے فرش تو پکی اینٹوں سے بنائے گئے ہیں۔ ان پیشہ ور لوگوں کے گھروں کی چھتوں میں بانس کے ڈنڈوں کے اوپر موٹی چٹائیاں ڈال کر ان کے اوپر مٹی کی موٹی لپائی کی گئی، اس سے چھتیں بے حد مضبوط رہتی اورکمرے ٹھنڈے رہتے تھے۔ کچھ مکانوں سے بڑے بڑے چولہے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ خود کھانا پکا کر کھاتے تھے۔ ان کی زندگی بے حد منطم اور باسلیقہ تھی۔
کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات میں موجود ایک تعمیر بے حد متاثر کرتی ہے اور وہ ہے قلعہ، جو ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا، اس کے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مورچے بھی بنائے گئے تھے۔ قلعے کی دیواریں آٹھ فٹ چوڑی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس قلعے میں حکمران طبقہ قیام کرتا ہو۔ یہاں سے جو اشیا ملی ہیں، وہ بے حد نفیس اور اعلیٰ درجے کی ہیں، خاص طور پر کوزہ گری کے نمونے تو حیران کر دیتے ہیں۔ برتن تو بے حد خوب صورت اور دلکش ہیں، جو برصغیر پاک و ہند کی دوسری قدیم تہذیبوں میں کہیں بھی نہیں ملتے۔
کوزہ گری کے سامان میں دیگچیاں، کھلے منہ والے جگ، صراحیاں، مرتبان، پلیٹیں، چھوٹی رکابیاں، پیالے وغیرہ کثرت سے ملے ہیں۔ ان پر نقوش، پیپل کے پتوں اور مچھلی کی مصوری، آڑی ترچھی اور لہریا لکیریوں سے سجاوٹ کی گئی ہے۔ ان پر سادے مثلث بھی بنائے گئے ہیں۔ برتنوں کی ساخت سے معلوم ہوتا ہے کہ برتن بنانے سے پہلے عمدہ مٹی کا انتخاب کیا جاتا تھا اور پھر اس مٹی کو اچھی طرح گوندھا جاتا تھا، جس سے برتن بہت نفیس اور نازک بنتے تھے۔ یہ برتن چک (برتن بنانے والی ہاتھ اور پائوں سے چلنے والی گول مشین جو آج بھی کمہار استعمال کرتے ہیں۔) پر بنائے جاتے تھے۔ ان برتنوں پر روغنی رنگ کیا جاتا تھا۔ ان رنگوں میں سرخ، بھورا، کالا اور جامنی رنگ زیادہ استعمال کیے جاتے تھے۔
ان نقش و نگار کو دیکھا جائے تو آج کے جدید دور کے سیرامک (Ceromics) میں بھی یہی نقش و نگار استعمال ہو رہے ہیں۔ یہاں سے برآمد ہونے والے برتنوں کی بناوٹ اور ان کے خدوخال چوڑے اور نمایاں ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان برتنوں کی ساخت ابتدا سے لے کر آخر تک ایک جیسی ہی رہی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے سجاوٹ میں نمایاں تبدیلیاں آتی رہیں۔ ان سارے برتنوں پر ’’ایک سینگ والے دیوتا‘‘ کی اشکال بنی ہوئی ہیں۔ یہ سارے برتن بہت ہلکے، پتلے اور نفیس بنے ہوئے ہیں جبکہ موئن جو دڑو اور ہڑپا سے ملنے والے برتن بہت موٹے اور بھاری ہیں۔ لہٰذا اس سے کوٹ ڈیجی اور موئن جو دڑو اور ہڑپا کی کوزہ گری کی صنعت میں بنیادی فرق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حاصل مطلب یہ کہ کوٹ ڈیجی میں برتن سازی کی صنعت موئن جو دڑو اور ہڑپا سے بے حد مختلف اور ترقی یافتہ تھی۔ اس کے علاوہ ان برتنوں پر کی گئی نادر اور عمدہ نقش نگاری سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کوٹ ڈیجی کی تمدن مذکورہ دونوں تمدنوں کی پیش رو بھی تھی۔
کوٹ ڈیجی کے لوگ پتھر سے بنائے گئے ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ کانسی کے تیر بھی یہاں سے برآمد ہوئے ہیں۔ مزید برآں خوب صورت تراش والے قیمتی پتھر بھی کثیر تعداد میں ملے ہیں۔ پتھر سے بنائی گئی چھریاں، چاقو، تیر اور درانتیاں بڑی مہارت اور نفاست سے بنائی گئی ہیں۔
کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات سے پکی مٹی کی دیوی ماتا کی مورتیاں، جانوروں کی مورتیاں وغیرہ بھی ملی ہیں۔ کچھ ظروف پر بیل کی تصویر بھی پائی جاتی ہے۔ یہ تصویر وادی سندھ سے ملنے والی بیل کی تصاویر سے اپنے اسٹائل کے باعث بے حد منفرد اور مختلف ہے۔ بیل کی یہ تصویر اس بیل کی تصویر سے مشابہ ہے جو جنوب، مغربی ایران میں 2800 سال قبلِ مسیح کے لال برتنوں پر موجود ہے اور آرٹ کا ایک بہترین نمونہ ہے۔
یہاں پر بچوں کے کھلونے بھی بڑی تعداد میں دستیاب ہوئے ہیں۔ گیند، گولیاں اور مٹی کی تختیاں بھی بے حد نفیس ہیں، جس کو چلانے کے لیے بہت سارے پہیے لگائے گئے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہیہ موئن جو دڑو والوں کی ایجاد ہے لیکن اس بیل گاڑی کی دریافت کے بعد بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پہیہ کوٹ ڈیجی والوں نے ہی ایجاد کیا تھا۔
کوٹ ڈیجی سے جو اشیا ملی ہیں، ان میں سادہ اور رنگین چوڑیاں بھی ہیں۔ یہ چوڑیاں مٹی اور سیپ سے بنائی گئی ہیں۔ چوڑیوں کے یہ نمونے موئن جو دڑو اور ہڑپا سے بھی ملے ہیں۔
کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات کے متعلق ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی آراء مختلف ہیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں یہ تہذیب موئن جو دڑو اور ہڑپا سے قدیم ہے۔ کچھ کی رائے یہ ہے کہ کوٹ ڈیجی کی تہذیب موئن جو دڑو اور ہڑپا کی ہم عصر تہذیب ہے۔
کچھ ماہرین کوٹ ڈیجی کی ثقافت کو بہاولپور اور چولستان کی ثقافت سے ملاتے ہیں۔ تاہم آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ کوٹ ڈیجی کی تہذیب، موئن جو دڑو اور ہڑپا کی پیش رو ہے، کیوں کہ ان کے خیال میں موئن جو دڑو اور ہڑپا کی ثقافت کے کئی پہلو کوٹ ڈیجی کی ثقافت سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔
کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات کے مطالعے اور مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے باشندوں نے اپنے بنائے ہوئے قلعہ بند شہر میں صدیوں تک قیام کیا ہوگا۔ بعد میں اس شہر کو آگ نے تباہ کر ڈالا۔ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شاندار تہذیب کی تباہی کی وجہ آگ ہی تھی۔ آگ کے باعث اس تہذیب کا جل کر راکھ ہوجانا ایک سوالیہ نشان ہے۔
کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات سے مادری اشیا تو کثرت میں دریافت ہوئی ہیں لیکن اتنی مستحکم تہذیب کے بانی لوگ وادیِ سندھ کے کس علاقے سے آئے تھے؟ کہاں چلے گئے؟ ان کا ذریعہ معاش کیا تھا؟ یہ لوگ ابلاغ کے کون سے طریقے استعمال کرتے تھے؟ ان کا مذہب کیا تھا؟ ان کا رہن سہن اور رسم و رواج کیا تھے؟ زیورات کا استعمل عورتیں کرتی تھیں یا مرد بھی کرتے تھے؟ اس طرح کے کئی سوالات کے جواب دینا ابھی باقی ہیں؟
بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)