نیا کیا ہو رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ کچھ ہوگا؟ کچھ ہوا بھی تو ہم سے پوچھ کے تھوڑی ہوگا۔
دسمبر 1970 میں نہ فارم 45 تھا نہ فارم 47 کا ٹنٹا۔ بڑے پیمانے پر دھاندلی کی بھی شکایات نہیں موصول ہوئیں۔ پھر بھی واضح طور پر سب سے بڑی اکثریتی جماعت (عوامی لیگ) کو انتقالِ اقتدار نہ ہوا، چنانچہ متحدہ پاکستان کا انتقال ہو گیا۔
ستتر میں پہلی بار کسی فوجی ڈکٹیٹر کے بجائے منتحب سویلین حکومت نے انتخابات کروائے۔ حالانکہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی باآسانی جیت سکتی تھی مگر انہیں جانے کس نے مشورہ دے ڈالا کہ آپ بلامقابلہ منتخب ہوں گے تو یہ پیغام جائے گا کہ آپ کتنے عظیم لیڈر ہیں۔
لاڑکانہ سے ان کے مدِمقابل پی این اے کے امیدوار جان محمد عباسی کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے سے روکنے کے لئے پولیس نے انہیں اغوا کر لیا اور بھٹو صاحب کی مثال پر عمل کرتے ہوئے پنجاب اور سندھ کے وزراِ اعلٰی سمیت پیپلز پارٹی کے لگ بھگ سولہ امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ یوں ستتر کے انتخابات پر پولنگ سے پہلے ہی سوالیہ نشان لگ گیا۔
سونے پر سہاگہ سات مارچ 1977 کو قومی اسمبلی کی پولنگ کے روز ہوا، جب پیپلز پارٹی دو سو جنرل نشستوں میں سے 155 لے اڑی اور نو جماعتی اتحاد پی این اے کو صرف 36 سیٹیں ملیں۔ کئی جگہ تو جوش میں پچاسی سے نوے فیصد تک ووٹ ڈل گئے۔
پھر ہم سب نے دیکھا کہ بلی نے دودھ کی بالٹی الٹ دی۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان تھے (ان کے صاحبزادے وسیم سجاد بعد میں سینیٹ کے چیرمین اور صدرِ مملکت کے عہدوں پر رہے)۔
پچاسی کے انتخابات غیر جماعتی تھے، لہٰذا دھاندلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
اٹھاسی کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کے ابھری، مگر انہیں بھی کئی دن انتظار کروا کے اور غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کروانے، صاحبزادہ یعقوب خان کو بطور وزیرِ خارجہ برقرار رکھنے اور جوہری پالیسی اور افغان پالیسی میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی پر اقتدار سونپا گیا۔
بے بسی کی انتہا یہ تھی کہ نوابزادہ نصراللہ خان جیسے کلاسیکی صدارتی امیدوار کے مقابلے میں پیپلز پارٹی نے وعدے کے مطابق سپر بیورو کریٹ غلام اسحاق خان کے حق میں ووٹ دیا۔ نوابزادہ اتنے وضع دار شخص تھے کہ گلا تک نہ کیا اور باغ و بہار شخصیت کو چپ سی لگ گئی۔۔
مگر جسے پیپلز پارٹی نے صدر بنوایا، اسی نے ڈھائی سال بعد بے نظیر حکومت کو نااہل اور بدعنوان قرار دے کر چلتا کر دیا۔
ایوانِ صدر اور جی ایچ کیو کے پاس کرسی نشینی کے لئے نواز شریف کی شکل میں متبادل موجود تھا۔ نواز شریف نے چند ماہ بعد خود کو اصلی وزیرِ اعظم سمجھنا شروع کیا تو ان کے آس پاس بھی سیاسی سرنگیں بچھائی جانے لگیں۔
جب نواز شریف کو بھی بیچ آئینی میعاد کے فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا تو صدر غلام اسحاق نے نہ صرف آرمی چیف بلکہ قائدِ حزبِ اختلاف (بے نظیر بھٹو) کو بھی اعتماد میں لیا (حالانکہ بے نظیر بھٹو کا موقف یہ تھا کہ ان کی پہلی حکومت کی برطرفی کے بعد جو انتخابات ہوئے، ان کے نتائج ایوانِ صدر کی تائید سے ایجنسیوں کی مدد سے چرا لئے گئے تھے؟)۔
انتخابات کروا کے بی بی کو دوبارہ اقتدار دے دیا گیا۔ اس بار بدعنوانی اور نااہلی کا تاج برطرف نواز شریف کے سر پر رکھا گیا۔ پھر انیس سو چھیانوے میں یہ تاج بارِ دگر بی بی کے سر پر رکھ کے انہیں برطرف کیا گیا اور ’سابق نااہل اور کرپٹ‘ نواز شریف نے دو تہائی اکثریت سے حکومت بنائی۔
جب میاں صاحب کی دوسری حکومت کو پرویز مشرف نے چلتا کر دیا تو پیپلز پارٹی نے جمہوری عمل کو بار بار پٹڑی سے اتارنے اور خود بھی زخم پر زخم کھانے کے باوجود ایک اور سویلین حکومت کی جبری رخصتی پر خوشی کا اظہار کیا۔ پھر بھی نئے بے مروت فوجی ڈکٹیٹر نے دونوں رہنماؤں کو ملک سے باہر رکھنے کے انتظامات کر دئیے اور ایک اور کنگز پارٹی (مسلم لیگ ق) کو الیکشن رچا کے باگ ڈور تھما دی۔
جانے اسٹیبلشمنٹ کو کس فقیر کی بد دعا ہے کہ وہ جس پر بھی ہاتھ رکھتی ہے، پھر اسی کی دشمن ہو جاتی ہے۔۔ اور جس پر ہاتھ رکھا جاتا ہے، اقتدار میں لائے جانے کے کچھ عرصے بعد ہی اس پر بھی کوئی جن چڑھ جاتا ہے اور وہ خود کو گروم کرنے والے ہاتھوں کو ہی کاٹ کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بھٹو صاحب سے عمران خان تک ایک ہی کہانی ہے۔ نہیں بدلا تو بادشاہ گروں کا اسکرپٹ نہیں بدلا۔
ہر بار بیلٹ بکس میں ووٹ پڑتے ضرور دیکھا جا سکتا ہے مگر جب ڈبہ کھلتا ہے تو کبھی دستانہ برآمد ہوتا ہے تو کبھی بوٹ۔۔ بس ووٹ ہی نہیں نکلتا۔
ووٹر نے پہلی بار موقع ملنے پر انیس سو ستر میں من مانی کی کوشش کی اور سسٹم کو بھرپور دولتی جھاڑ دی۔ چنانچہ بد تمیز و نا سمجھ ووٹر کو قابو میں رکھنے کے لئے مینیجمنٹ سسٹم تیار کیا گیا۔
ستر کے بعد ووٹر نے دوسری بار آٹھ فروری کو رٹا رٹایا سبق ایک جانب پھینکتے ہوئے پھر رسی تڑانے کی کوشش کی۔ فی الحال پورا نظام اس رسی پر جھول رہا ہے اور نیچے گہری کھائی ہے۔
وہ دن گئے جب اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان سیاسی معاملات میں مسلسل مداخلت کے سوال پر جھگڑا تھا۔ اب لگ بھگ سب نے ہی سیاست میں فوج کے مستقل کردار کو ایک تلخ حقیقت سمجھ کے حلق سے اتار لیا ہے۔
جھگڑا بس اتنا بچا ہے کہ ظلِ سبحانی: جب ہم بار بار آپ کے جوتے کھانے کے باوجود مسلسل سیوا کر رہے ہیں تو ایک آؤٹ سائیڈر (عمران خان) کو محلِ سرا کا راستہ دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟
جبکہ عمران خان کا فوجی قیادت سے محض اس نکتے پر جھگڑا شروع ہوا کہ جب میں آپ کے قدم بہ قدم سعادت مندی سے چل رہا تھا تو پھر انہی کے ہاتھوں مجھے کیوں رسوا کیا، جن کو میں آپ کے کہنے پر چور اور ڈاکو کہتا رہا۔
ستر کا پہلا الیکشن آدھا ملک لے گیا جبکہ بارہویں انتخاب نے الیکشن کمیشن سمیت ہر ادارے پر یقین کی آخری بوتل بھی توڑ دی اور جن نکل بھاگا۔ اب یہ جن کن کن کو روپ بدل بدل کے ڈراتا ہے؟ بس دیکھتے جائیے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)