الفاظ کا سفر نامہ … اڑ

سعد اللہ جان برق

پہلے مضامین میں بتا چکا ہوں کہ حرف (اڑ) انسانیت کے بچپن کی پہلی آواز یا حرف ہے، جب انسان کا مخرج یا آلاتِ نطق کچے اور کھردرے تھے۔ اور ایسی ساری زبانیں اس خطے میں پائی جاتی ہیں جسے علماء نے جوف الارض قرار دیا ہے۔ جہاں سے انسانوں بلکہ سفید کاکشن نسل کے خروج نکل کر دنیا میں پھیلتے رہے ہیں۔ یعنی ہندوکش اور اردگرد کی اونچی زمینیں۔ دراصل یہاں سے انسانی خروجوں کے نکلنے کی وجوہات میں کثرتِ آبادی اور قلتِ خوراک سب سے زیادہ کارفرما ہے لیکن کثرتِ آبادی اور قلتِ خوراک کی بھی ایک وجہ تھی۔

یہ پہاڑی سلسلہ جو برما کے قریب دریائے برہم پترا سے شروع ہو کر ایران میں کوہِ بابا تک دراز ہے اور ہندوستان کے گرد ایک ہلالی دیوار کی شکل میں کھڑا ہے، علمائے ارضیات کے مطابق جب چالیس کروڑ سال پہلے کے ٹیکٹانک موومنٹ میں براعظم ایشیا اور ہندوستان کے ٹکرانے سے ابھرا تھا، ابتدا میں اتنا اونچا نہ تھا بلکہ بتدریج اونچا ہوتا گیا ہے۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ ارضیات کے مطابق اب بھی یہ سالانہ دو سنٹی میٹر اونچا ہو رہا ہے اور اتنا ہی ہندوستان ایشیا میں گھس رہا ہے۔

اول اول یہ سلسلہِ کوہ کثرتِ خوراک اور قلتِ آبادی کے باعث جنت کا نمونہ تھا، لیکن جیسے ہی یہ سلسلہِ کوہ اونچا ہوتا گیا تو ایک طرف اس کی چوٹیاں اور وادیاں برفستانوں میں بدلتی گئیں، جب کہ سمندر کی طرف سے بارشوں اور مرطوب ہواؤں کے لیے بھی ایک دیوار بن گئیں چنانچہ اس کے پیچھے وسطی ایشیا کے جنگلات اور چراگاہیں بنجر ہو کر ریگستانوں میں بدلتی رہیں، یوں یہاں کے انسانوں اور حیوانوں کے لیے خوراک کم ہوتی گئی اور نتیجے میں یہاں سے خروجوں اور نقل مکانیوں کا سلسلہ چل نکلا۔اس پورے سلسلے پر اگر گہرائی میں غور کیا جائے تو ایک عظیم انجینئر آبادکار اور منتظم کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

عام طور پر جب کھیت تیار اور موسم سازگار نہ ہو تو کاشت کار کسی محفوظ جگہ پر پنیری کو کھیت میں پھیلانا شروع کر دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا میں انسانوں اور حیوانوں کے پھیلانے میں بھی یہی سلسلہ کار فرما نظر آتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں سال میں جب کرہِ ارض کا زیادہ حصہ زیرِ آب تھا اور خشکی کے جانداروں کی رہائش کے لیے موزوں نہیں تھا تو ’’پنیری‘‘ اس محفوظ سلسلہ کوہ میں پلتی اور پنپتی رہی۔ ساتھ ہی لاکھوں سالوں پر مشتمل برفانی یا آئس ایج بھی جلتا رہا اور اونچائیوں میں برف کے ذخیرے جمع ہوتے رہے۔ دو انگریزوں (جن کے نام اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہے ہیں) نے ایک مشترکہ کتاب لکھی ہے۔ ’انڈس سویلائزیشن‘

انہوں نے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے اس پہاڑی سلسلے میں ایک بہت بڑا ڈیم ہو اور اچانک ٹوٹ گیا ہو۔ اور یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن وہ ’’ڈیم‘‘ پانی کا نہیں ’’برف‘‘ کا تھا۔ جب آج سے آٹھ دس ہزار سال قبل زمین کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوا تو برف کا دور ختم ہو گیا اور ایک بارانی اور سیلابی دور شروع ہو گیا۔ وہ برف پگھلتی رہی اور سیلاب کی صورت ان اونچائیوں سے ملبے لے جا کر نیچے پھیلانے لگی۔

جس کے نتیجے میں ہموار میدانی علاقے ابھرنے لگے۔ پھر پانی نے اپنی گزرگاہیں دریاؤں اور ندی نالوں کی صورت میں بنائیں، پانی کچھ ملاقات میں سمٹ کر سمندر بناتا رہا اور ہموار میدانی زمین یا ریگستان ابھرتے رہے، دوسرے الفاظ میں ’’کھیت‘‘ تیار ہونے لگا۔ دنیا کی تقریباً پانچ اقوام کی اساطیر میں’’سیلابِ عظیم‘‘ کی کہانیاں اسی ’’سیلابی دور‘‘ کے استعارے ہیں۔

قدیم بابل میں سیلاب عظیم کا یہ قصہ داستان گلگامش میں آیا ہے۔ سامی مذاہب میں یہ کہانی ’’طوفانِ نوح‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔ یونان میں اس سیلاب کا قصہ یوں ہے کہ دیوتاؤں نے انسانی نسل کو تباہ کرنے کے لیے سیلاب عظیم بھیجا تو انسان دوست ’’پرومیتھس‘‘ نے اپنے بیٹے ڈیوکلین اور بھتیجی ’’پررہ‘‘ کو، جو کم عقل اپی متھس اور پنڈورا کی بیٹی تھی، ایک لکڑی کے صندوق میں بٹھا کر بچا لیا پھر ان سے انسانی نسل چلی۔ ہندوستان میں اس سیلاب کا ہیرو ’منوہا راج‘ ہے۔

مطلب یہ کہ اس سیلاب کے ذریعے اونچائیوں سے ملبے بہا کر نیچے کے علاقوں میں پھیلائے گئے اور اس بات کا ثبوت آج بھی موجود ہے کہ پشاور، مردان اور نوشہرہ جیسے دوردراز علاقوں میں جب بھی کنواں وغیرہ کھودا جاتا ہے تو تیس چالیس فٹ نیچے بھالو ریت اور آبی مخلوقات کی سیپیاں اور فاسلز ملتے ہیں، اس کے اوپر انہی سیلابوں کی بنائی ہوئی زمینیں ہیں۔

خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ ادھر پہاڑوں میں ’’پنیری‘‘ پنپتی رہی اور ادھر کھیت تیار ہوتا رہا اور جب کھیت تیار تو موسم بھی سازگار ہو گیا۔ پہاڑ اونچے ہو کر قلتِ خوراک اور کثرتِ آبادی کی وجہ سے ’’خروج‘‘ اگلنے لگے۔

پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہ میں صرف دنیا کی تین بڑی نسلوں زرد، سیاہ اور سفید میں سے صرف سفید نسل کی بات کر رہا ہوں، انسانوں کی بھی اور زمانوں کی بھی۔۔ کہ انسان اور زمان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

انسان کے بچپن اور کچے مخرج میں حرف (اڑ) کا ذکر کر چکا ہوں اور انسان کا پہلا واسطہ زمین سے پڑا تھا، چنانچہ زمین کے لیے اس ابتدائی زبان میں’’اڑ‘‘ کا لفظ بولا گیا۔ جس کے معنی ہیں رکنے یا ٹھہرنے کی جگہ۔ یہ لفظ’’اڑ‘‘ اب بھی برصغیر کی زبانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ معنی وہی ’رکنے‘ اور ’ٹھہرنے‘ کے ہیں۔ کوئی جانور کام کرنے یا چلنے سے انکار کرکے رک جائے یا لیٹ جائے تو اسے بھی ’’اڑی‘‘ کہتے ہیں اور اس جانور کو بھی اڑی یا اڑی مار کہتے ہیں، کسی بات پر ’’ضد‘‘ کو بھی’’اڑنا‘‘ کہتے ہیں۔

ایک اور لفظ جو اردو اور ہندی زبانوں میں کثیرالاستعمال ہے ’’اناڑی‘‘ یہ اس زمانے کا لفظ ہے، جب زراعت ایک بہت بڑا ہنر تھی، چنانچہ زراعت کرنے والے یا جاننے والے ’’اڑی‘‘ کہلاتے تھے اور نہ جاننے والے کو اناڑی یا ان آڑی کہتے تھے۔ پھر ’’اڑی‘‘ کا لفظ متروک ہو گیا ، اس کے لیے کئی دوسرے نام مروج ہوئے، جب کہ ‘اڑی‘ کا لفظ ’اناڑی‘ کے لیے مروج ہو گیا، زراعت کاروں کے لیے ’ارائیں‘ کا لفظ بولا جانے لگا۔

پشتو میں ’’اڑول‘‘ زمین جوتنے کو کہتے ہیں:
کھیت جوتو (پٹے واڑوہ)
کھیت جوتتا ہوں (پٹے اڑوم)۔کھیت جوتا ہوا ہے (پٹے اوڑیدلے دے)

سوات، جہاں کی زبان میں زیادہ ملاوٹ نہیں ہوئی ہے، وہاں گرنے اور گرانے کے لیے ’اڑتاؤ‘ کا لفظ استعمال ہوا۔جیسے تیز مت چلو ’اڑتاؤ‘ ہو جاؤ گے، فلاں’اڑتاؤ‘ ہو گیا یعنی گر گیا۔ کسی چیز کو پھینکنے کے لیے بھی کہتے ہیں،’اڑتاؤ‘ کرو یعنی گرادو۔

ظاہر ہے، گرنے اور گرانے کا آخری مقام زمین ہی ہے۔ یہی ’’اڑ‘‘ کا لفظ ترقی کر گیا تو ’ار‘‘ہو گیا اور پھر جب زبانوں کے مادے دوحرفی سے سہ حرفی ہوئے تو ’’ار‘‘ سے پشتو میں ارت، انگریزی ارتھ، فارسی میں ’’ارد‘‘ اور عربی میں ارض ہو گیا۔ سنسکرت میں اردھ، پشتو میں ارت اور ارتہ کا مطلب وسیع فراخ، پھیلا ہوا ہے ۔ چونکہ انسان نے زمین کو ماں اور آسمان کو ’باپ‘ کہا ہے۔ اس لیے پشتو میں عورت یا بیوی کے لیے ’ارتینہ‘ کہا جاتا ہے۔

سنسکرت میں بھی عورت کو مرد کی ’اردھانجلی‘ کہا جاتا ہے، چنانچہ دیوتاؤں کی بیویوں کو بھی اردھانجلی کہا جاتا ہے، سرسوتی برہما کی، لکشمی وشنو کی اور پارتی شیو کی اردھانجلیاں کہلاتی ہیں۔

ایرانی اساطیر میں مادر ارض کا نام بھی ’’اردوی‘‘۔سورااناہتیا ہے، اردوی بہشت، ارد شہر۔ اور یہی وہ ’ار‘ ہے، جس سے ’اریہ‘ کا لفظ نکلا ہے، جو خالص زراعت کاروں کا نام ہے لیکن برہمنوں نے ہند میں وارد ہونے والے گلہ بان خانہ بدوش جنگلیوں اور کشتریوں کو ’آریا‘ بنا کر تاریخ میں ایک بہت بڑا غلط العام ڈالا ہے۔ یہ اتنا بڑا غلط العام ہے کہ اب اس کی تصیح ممکن نہیں رہی۔

پروفیسر محمد حبیب نے اپنی کتاب ’تاریخ تمدن ہند‘ میں لکھا ہے کہ ہمیں اب اس لفظ ’آریا‘ کو ترک کر دینا چاہیے، کیونکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نقل مکانی اور خانہ بدوشی کی ضرورت جانور پالوں کو ہوتی ہے کہ انہیں اپنی اور جانوروں کی خوراک کے لیے ہمیشہ کوچ یا سفر کی حالت میں رہنا پڑتا ہے، جب کہ زراعت کار اپنے کھیتوں کے ساتھ مستقل آبادیوں میں رہتے ہیں۔ خیر اس بحث کو ختم کرتے ہیں کہ ہمارا موضوع الفاظ کا سفرنامہ ہے۔

سفید کاکیشین نسل کی دو بڑی شاخیں ہیں، ایک آریائی دوسری سامی، اگرچہ بنی اسرائیل نے اس میں بہت ساری غلط فہمیاں، مغالطے اور مبالغے ڈالے ہیں۔ سامی لوگ، جن میں قابلِ ذکر عرب ہیں، وہ چرواہے تھے، اس لیے یہ لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ کرہ ارض کے مختلف خطوں تک پھیل گئے۔

حالانکہ یہ بھی دوسر ے نسلی گروہ کی طرح قفقاز سلسلہ کوہ کی اولاد تھے اور چونکہ بہت ہی قدیم اور نامعلوم زمانوں میں یہاں پہنچے ہیں، اس لیے بہت ہی قدیم زمانے کے کچھ الفاظ بھی ساتھ لائے تھے، جو اب بھی عربی میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

اب یہاں ضروری ہو گیا ہے کہ زبانوں کے بارے میں پھر تھوڑی سی بات کی جائے کیونکہ یہاں بھی ایک بہت بڑا غلط العام موجود ہے اور وہ یہ، کہ عربی دنیا کی قدیم ترین زبان بلکہ ام لاسنہ (زبانوں کی ماں) ہے جو بہت بڑا مغالطہ ہے۔

زبانوں کی ابتدا ’یک حرفی‘ الفاظ سے ہوئی، پھر دو حرفی مادے بننے لگے جیسے میں آریائی زبانوں کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ سر، بر، لر، چر، اپ، لپ، اڑ، جڑ، پڑ، جن، ان، من وغیرہ۔۔ اور پھر زبانوں کے مادے سہ حرفی ہوئے۔

عربی مادے، سہ حرفی یا ثلاثی مجرد ہوتے ہیں۔ جیسے راس، یاس، خاص، ارض، اسم، فعل، علم، عقل، اجر، فجر، قال، مال بلکہ اب تو کئی چار حرفی مادے بھی بننے لگے ہیں، ساتھ ہی کچھ ایسے حروف یا آوازیں بھی ہیں جو اور کسی بھی زبان والے ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ جیسے ث، ح، ذ، ط، ظ، ص، ض اور ع وغیرہ۔ ذخیرہ الفاظ کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو عربی ایک بہت ہی مالا مال زبان ہے۔

عام طور پر جب عربی زبان کی بات کی جاتی ہے تو اسے ’آرامی زبان‘ کی بیٹی کہا جاتا ہے، جو آرام بن سام بن نوح سے منسوب ہے لیکن یونانی حکماء ’آرامی‘ کو ’سریانی‘ بھی کہتے ہیں، جو انسان کی قدیم زبان بھی سمجھی جاتی تھی، لیکن ان تمام زبانوں میں لفظ ’عرب‘ کے اصلی بنیادی معنی موجود نہیں ہیں اور اسے مجازی معنی دیے جاتے ہیں۔ جو بنجر، بے آب و گیا کے ہیں۔

اکثر قدیم آرامی لغات میں لفظ عرب (ع) کے بجائے (الف) سے یعنی ارب یا آرب بھی لکھا جاتا ہے، اس لفظ کے بنیادی معنی بھی نا معلوم ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کی تلاش کسی نے ہند یورپی زبانوں یا قبل از ہند یورپی زبانوں میں نہیں کی ہے جو کاکیشیائی پہاڑی مخزن و معدن میں بولی جاتی ہیں۔

ہم جب ان زبانوں میں تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں دو لفظ ملتے ہیں، ایک ’آر‘ جو ’اڑ‘ کی شکل ہے اور معنی ہیں ’زمین‘ جب کہ دوسرا لفظ ’آب‘ ہے، جو پانی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اپ، اپہ، آب، اوبہ۔۔ اور ان دونوں لفظوں کو ملانے سے اراب یا ’’ارب‘‘ کا لفظ بنتا ہے یعنی زمین کا پانی۔ آبِ زمین یا ماء الارض۔

ہمارے ہاں کی اردو اور چند دوسری زبانوں میں ان نالوں کو ’’ارآب‘‘ کہا جاتا ہے جو’’سیم‘‘ کا پانی نکالنے کے لیے کھودی جاتی ہیں۔ یہ عام طور پر ان علاقوں میں کھودے جاتے ہیں جہاں واٹر لیول اوپر تک آ جاتا ہے تو سیم و تھور بنکر زمینوں کو بنجر کر دیتا ہے۔ لوگ عام طور پر ان اراب کو بھی اعراب کہتے اور لکھتے ہیں۔ اب سرزمینِ عرب کو دیکھا جائے تو یہاں آسمان کا پانی فوراً زمین میں جذب ہو جاتا ہے چنانچہ یہاں ندی نالے، جھیل اور تالاب وغیرہ نہیں پائے جاتے بلکہ زمین کا پانی چشموں کے ذریعے یا کنووں کے ذریعے کھینچ کر استعمال کیا جاتا ہے۔

مطلب یہ کہ یہ سرزمین صرف زمین کا پانی رکھتی ہے، آسمان کا پانی نہیں۔ پشتو میں’ سیم‘ کو زیم (zyam) کہا جاتا ہے۔ سیم زدہ زمین کو ’زیمی زمین‘ کہاجاتا ہے اور جہاں زمین بہت زیادہ ’زیمی‘ ہوتی ہے، اسے ’جبہ‘ کہتے ہیں جو ’جائے آب‘ کا مخفف ہے۔جیسے مالم جبہ، تاروجبہ، جبہ خٹک، جبہ جھیل۔ جبن یا جبین اور ماتھے کو بھی ’جبین‘ اس لیے کہتے ہیں کہ ہر وقت پسینے سے تر رہتا ہے۔بلکہ زبان، جوبان، جِیب بھی ہر وقت تر رہتی ہے۔ پشتو میں بولنے والی زبان کو جبہ کہتے ہیں،

آخر میں’ار‘ یا ’آر‘ سے بنے ہوئے چند انگریزی الفاظ: ایریا، ایری گیشن، ارائیول، ایرینا وغیرہ اسی سے مشتق ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close