خوفِ جہنم سے بے نیاز طفلانِ غزہ

وسعت اللہ خان

فلسطینیوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انرا کے سربراہ فلپ لزارینی نے کہا ہے کہ اکتوبر سے فروری تک کے پانچ ماہ میں غزہ میں کم ازکم بارہ ہزار تین سو بچے قتل کیے گئے ہیں۔

یہ تعداد دو ہزار انیس سے تئیس تک کے پانچ برس میں برپا تمام جنگوں میں قتل ہونے والے بچوں (بارہ ہزار ایک سو ترانوے) کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔۔ یہ جنگ بچوں، بچپن اور ان کے مستقبل کے خلاف ہے۔ مرنے والے بچوں کی تعداد سے تین گنا زائد وہ زخمی یا معذور بچے ہیں، جنہیں یہی نہیں معلوم کہ سوائے اس لمحے تک زندہ رہنے کے ان کے مستقبل میں اور کون سی خوشی باقی ہے۔

غزہ کی نصف آبادی کی عمر اٹھارہ برس یا اس سے کم ہے۔ غزہ پر پہلا بھرپور اسرائیلی وار دو ہزار آٹھ میں آپریشن ’کاسٹ لیڈ‘ کے نام سے ہوا۔ یہ حملہ تئیس دن جاری رہا۔ اس وقت جو بچہ دو برس کا تھا، وہ اگر آج زندہ ہے تو اس کی عمر سترہ سے اٹھارہ برس ہوگی۔ جب دو ہزار بارہ میں اسرائیلی یلغار آٹھ دن جاری رہی تو یہ بچہ چھ سال کا تھا۔ دو ہزار چودہ میں پچاس روز تک جاری فوج کشی کے وقت اس بچے کی عمر آٹھ برس تھی۔ دو ہزار اکیس کی گیارہ روزہ جارحیت کے وقت وہ پندرہ برس کا تھا۔

آج یہی بچہ سترہ سے اٹھارہ برس کی عمر میں چھ ماہ سے جاری قتلِ عام اور لامتناہی دربدری سے گذر رہا ہے۔ اتنی مختصر سی عمر میں وہ پانچ جنگیں دیکھ چکا ہے۔۔۔ سوچئے اس بچے کے لیے زندگی کے معنی اور موت کا مفہوم کیا رہ گیا۔۔!؟ وہ نارمل اور خوش و خرم انسانوں کو دیکھ کر یا ان کے بارے میں سن سن کر اپنے اور ان کے بارے میں کیا سوچتا ہوگا؟ سوائے اس ذہنی کش مکش میں رہنے کے اور کہاں ہوتا ہوگا کہ بندوق اٹھا لے یا پھر زندہ لاش کی طرح دو ٹانگوں پر گھسٹتا رہے۔۔۔

جب اقوامِ متحدہ کے ذیلی انسانی ادارے اور عالمی فلاحی تنظیمیں چیختی ہیں کہ یہ بچوں کے خلاف برپا سب سے بڑی جنگ ہے تو یہ کوئی لاف زنی نہیں۔ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار اکیس تک کی چار بار کی فوج کشی میں مجموعی طور پر غزہ کے ایک ہزار سے کم بچے شہید ہوئے۔ جب کہ موجودہ جنگ میں اب تک بارہ گنا زائد بچوں کے مارے جانے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

یونیسیف کے حالیہ سروے کے مطابق اب تک لگ بھگ اٹھارہ ہزار بچے ایسے ہیں، جن کا پورا پورا خاندان شہید ہو چکا ہے یا وہ اپنے پیاروں سے بچھڑ کے پرخطر راہوں یا کونوں کھدروں میں چھپتے اور نمودار ہوتے ہوئے موت و زیست کے گھڑیال کا پنڈولم ہیں۔

یقیناً ان میں سیکڑوں بچوں کا خیال رضاکار یا ان کے خاندان کے جاننے والے رکھ رہے ہیں۔ مگر ان طفلانِ لاوارث کی تعداد اس قدر زیادہ ہے اور ان کے ذہنی گھاؤ اتنے گہرے ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ چاروں جانب سے ہر اعتبار سے اس قدر غیر محفوظ ہیں کہ انہیں جہنم کا ڈراوا دے کے شاید مزید خوفزہ اور بے یقین نہیں کیا جا سکتا۔

غزہ کے بڑوں اور بچوں کی کہانی اتنی بڑی ہے کہ اس کے پیچھے مقبوضہ مغربی کنارے کی ابتلا بھی ماند پڑ گئی ہے۔سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی فوج نے غربِ اردن کے مختلف قصبات سے دو سو سے زائد بچے تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزام میں حراست میں لے رکھا ہے۔ ان پر ہر لمحہ عقوبت خانوں میں کیا گذر رہی ہے، اس بارے میں ان کے گھر والے بھی کچھ نہیں جانتے۔

تل ابیب سے متصل جافا شہر کا مذہبی مدرسہ شرات موشے یوں مشہور ہے کہ یہاں کے فارغ التحصیل طلبا براہِ راست فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ گویا شرات موسے مدرسہ ایک مذہبی کیڈٹ کالج ہے۔ مدرسے کے مہتمم ایلیاہو مالی کا اسرائیلی عسکری و سویلین اسٹیبلشمنٹ میں خاصا احترام ہے۔ گزشتہ ہفتے آپ نے اپنے وعظ میں فرمایا:

’’اس مقدس جنگ پر یہ شرعی اصول لاگو ہوتا ہے کہ کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے۔ بصورتِ دیگر دشمن تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔آج کے غنڈے (فلسطینی) وہ ہیں جو پچھلی لڑائی میں بچے تھے۔ چنانچہ انہیں چھوڑ دیا گیا۔ شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو تم رہو گے یا پھر وہ۔ اس سے پہلے کہ وہ تمہیں ختم کریں، تم ختم کر دو۔ بھلے وہ اٹھارہ سے تیس برس تک کے مسلح جوان ہوں یا چھوٹے بچے یا پھر ان بچوں کی مائیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔ سب کے سب قابلِ گردن زدنی ہیں۔‘‘

جب ان تعلیمات سے متاثر کوئی بھی لڑکا یا لڑکی اسرائیلی فوج میں بھرتی ہو کر کسی زندہ فلسطینی بوڑھے، جوان، نوزائیدہ بچے کو دیکھے گا تو کیا سوچے اور کرے گا؟ غزہ میں انہی توراتی تعلیمات پر مذہبی جوش و جذبے سے عمل کیا جا رہا ہے۔ ربائی ایلیاہو مالی کے شاگردوں کا کیا دوش جب ملک کا وزیرِ دفاع یوآوو گیلنٹ اپنے اولین ردِعمل میں یہ کہے کہ ہمارا سامنا دو ٹانگوں پر چلنے والے جانوروں (فلسطینی) سے ہے۔ جانور پگلا جائے تو سب جانتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے۔

اسرائیلی وزیرِ ثقافت امیچائی ایلیاہو پہلی بار نومبر اور پھر جنوری میں کہہ چکے ہیں کہ اگر غزہ کے باشندے اس پٹی کو خالی نہ کریں تو ایٹم بم مار دینا چاہیے۔ دو بار یہ بیان دینے کے باوجود وزیرِ ثقافت کرسی پر برقرار ہیں۔

جب کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو اپنے قومی خطاب میں امالک (دشمن) کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی مقدس توراتی ہدایات کا کھل کے حوالہ دیتا ہے۔ بیشتر اسرائیلی ان خوش قسمت بزرگوں کی دوسری اور تیسری نسل سے ہیں جو ہٹلر کے کنسٹریشن کیمپوں سے زندہ بچا لیے گئے۔ اس احسان کا بدلہ فلسطینیوں کو اپنی نسل کشی کی شکل میں لگ بھگ آٹھ عشروں سے چکانا پڑ رہا ہے۔

اور اب نیتن یاہو کی خونی نگاہ میں پندرہ لاکھ پناہ گزینوں سے ابل رہے چھوٹے سے آخری شہر رفاہ کو خون میں نہلانے کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔اس کا ہاتھ کسی نے نہ پکڑا تو یہ اس صدی کا پہلا بڑا قتلِ عام ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close