پڑھنے سے پہلے ذہن بنا لیں کہ یہ ایک مزاحیہ تحریر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بیان کئے گئے حقائق بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے ہوں۔
ایک تو یہ پریشانی لاحق ہے کہ افطاری میں کون سا فروٹ کھائیں۔ تربوز اول تو لال نہیں ہیں، اگر لال ہیں تو پھر میٹھے نہیں ہیں، اوپر سے دو سو روپے کلو ہے۔ خربوزے دیکھنے میں تو اچھے ہیں مگر کھانے میں گھاس جیسے ہیں۔ چیکو مزہ نہیں دیتے۔ ملیر کے پپیتے ترقی کی آڑ میں قربان ہو گئے۔ کیلے بغیر کسی فتوے کے 200 سو روپے درجن بیچے جا رہے ہیں اور کینو، فارم 45 اور 47 کی طرح اپنی افادیت اور اہمیت کھو چکے ہیں۔
جہاں ایک طرف کلائمٹ چینج کا واویلا مچا ہوا ہے۔ آئرلینڈ میں برف پڑ رہی ہے۔ مڈل ایسٹ میں بارشوں کا زور ہے۔ دوسری جانب ہم ہیں، جنہیں اس چینج کی وجہ سے مچھروں کی بھرمار اور بدن خراش گرمی کا سامنا ہے۔ گرمی ایسی ہے کہ جس میں پیاس بالکل بھی نہیں لگتی۔ عصر کی نماز کے بعد سوچتے ہیں کہ آج افطاری میں تین لیٹر پانی پیئیں گے، مگر حقیقت میں پہلی رمضان المبارک کو خریدی گئی، 450 والی روح افزا ابھی تک آدھی بوتل پڑی ہوئی ہے۔ افطاری کے نام پر سموسوں، روٹی اور بریانی سے گھمسان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شُتر مرغ کڑاہی والی جنگِ عظیم کا تو خیر ذکر ہی کیا۔۔
سلطنتِ عثمانیہ، برصغیر، اور پاکستان و بنگلہ دیش کے بٹوارے کی کہانیاں ہم نے پڑھی ہیں۔۔ مگر حال ہی میں گڈاپ اور ابراہیم حیدری ٹاؤن کا بٹوارہ بھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ گھگھر پھاٹک سے لے کر شیرپاؤ کالونی تک چاروں طرف خون سے لت پت لاشیں ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ آخر وہ کیا حالات تھے کہ ملاح، جت اور جاموٹ جیسی پُر امن اقوام بلوچ، میمن اور جوکھیہ کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔ تقسیم کی اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق چار ہزار لوگ قربان ہوئے۔ بٹوارے کے بعد مچھروں نے گڈاپ ٹاؤن چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے، اور اپنی املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی مانگ کی ہے، اور فیصلہ نہ ہونے تک اسی جوش و جذبے کے ساتھ خون چوسنے کی دھمکی دی ہے۔
بٹوارے کے بعد گڈاپ میں بجلی نہیں، پانی نہیں، آٹا نہیں، چینی نہیں۔۔۔ اور غضب یہ کہ پیسہ بھی نہیں۔ اگر ہے تو صرف مچھر ہیں۔ گڈاپ کو یہ گمان تھا کہ دنیا کے حالات ہمیشہ یکساں رہیں گے اور کراچی اس کو اپنی خدمات کا ہمیشہ ’بھاڑا‘ دیتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ اب گڈاپ کرے تو کرے کیا! ایک ہی راستہ ہے کہ وہ جدید ترقی کی راہ اختیار کرے۔ مگر کیسے؟ کے ای والوں کا پاور پلانٹ ابراہیم حیدری میں ہے۔۔ اور وہ اسے اپنی مرضی کے مطابق آن اور آف کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں کراچی میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھنے والے گڈاپ ٹاؤن میں صرف تین سے چار گھنٹے بجلی ملتی ہے۔ پہلے ہم 20 رکعات تراویح پڑھتے تھے، پھر آٹھ رکعات پر آ گئے۔ مگر اب مچھروں اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی رکعت نہیں پڑھتے۔ رات جاگ کر گزارتے ہیں، اس لئے تہجد پڑھنے سے بھی قاصر ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس سال رمضان المبارک میں گڈاپ ٹاؤن میں فروٹ سے زیادہ مورٹین، فنس اور ٹائیگر کی مچھر کش ادویات خریدی گئی ہیں۔
ہم اس ماہِ مبارک میں اللہ پاک سے اپنی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مچھر قومی موومنٹ کے باغی اراکین آخری عشرے میں ہتھیار پھینک کر امن قائم کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور عید کے بعد کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر کچھ ٹولے ابراہیم حیدری شفٹ ہو جائیں گے۔۔ اور ہمیں آلودہ ہوا میں سکون سے گندی سانس لینے دیں گے۔