(اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پچیس مارچ کو خصوصی نمایندے فرانسسیکا البانیز نے ایک مفصل رپورٹ پیش کی۔ اس میں اس بنیادی سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے یا نہیں؟ یہ رپورٹ سب سے بڑے عالمی ادارے کے ایک زمہ دار سینئر اہلکار نے مرتب کی ہے۔ چنانچہ اس رپورٹ کا قسط وار خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ آپ اسرائیل کی نسل کش پالیسیاں اقوامِ متحدہ کے نقطہ نظر سے دیکھ اور پرکھ سکیں)۔
گزشتہ قسط میں ہم نے نسل کشی کی سات نکاتی تعریف کے دو نکات پر اسرائیل کے پورا اترنے کے ثبوت پیش کیے۔تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جان بوجھ کے ایسے حالات پیدا کرنا، جس میں زندگی کا پنپنا ناممکن ہو جائے۔ اگر بم نہ بھی گریں، ایک گولی نہ بھی چلے تب بھی ہدف شدہ آبادی مرتی چلی جائے۔ اس مقصد کے لیے ان بنیادی ضرورتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جن سے زندگی کا چراغ ٹمٹاتا ہوا بالاخر بجھ جائے۔
مثلاً سات اکتوبر کے بعد محض ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں غزہ کی ستتر فیصد طبی سہولتیں تباہ کر دی گئیں۔ مواصلات و رابطہ کاری کا اڑسٹھ فیصد نظام ختم ہو گیا۔ شروع کے پچھتر دن میں بَہتر فیصد بلدیاتی سہولتیں، چھہتر فیصد کاروباری و صنعتی مراکز، پچاس فیصد گذرگاہیں، ساٹھ فیصد سے زائد گھر، اڑسٹھ فیصد رہائشی عمارات، ساٹھ فیصد تعلیمی مراکز بشمول تمام یونیورسٹی کیمپسز، تیرہ لائبریریاں، ڈیڑھ سو برس کی مقامی تاریخ کا ذخیرہ مرکز، ایک سو پچانوے قدیم عمارات و آثار، دو سو آٹھ مساجد اور تین چرچ ختم ہو گئے۔ جب کہ جنوری کے وسط تک غزہ کی نصف آبادی شمالی و وسطی غزہ سے جنوبی علاقے میں منتقل ہو چکی تھی۔
غزہ کی سولہ برس کی مسلسل ناکہ بندی کے سبب دنیا کی سب سے گنجان آباد کھلی جیل کیا کم عذاب تھا کہ نو اکتوبر سے پانی، بجلی، خوراک اور پٹرول کی رسد بھی مکمل رک گئی۔ گویا بمباری رک بھی جائے تب بھی مرنے کا عمل نہ رکے۔ مسلسل بمباری، ناکہ بندی اور لاکھوں لوگوں کو چند گھنٹے کے نوٹس پر ایک محفوظ جگہ سے دوسری محفوظ مقام تک منتقل ہونے کے بار بار کے احکامات نے زندگی کو گویا بے یقینی کی ٹکٹکی پر باندھ دیا۔
تین چوتھائی آبادی جان بچانے کے لیے اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انرا کی سہولتوں کے رحم و کرم پر آ گئی اور انرا کے چند اہلکاروں پر دھشت گردی کے الزامات لگا کے لاکھوں مصیبت زدوں کے سر پر تنی آخری چھتری چھیننے کی بھی بھرپور کوشش جاری ہے۔
ہزاروں خاندانوں نے اسپتالی احاطوں کو محفوظ جان کے وہاں پناہ لے لی، مگر یکے بعد دیگرے ایک ایک اسپتال کو موت کا پھندہ بنا دیا گیا۔ محاصرہ کر کے تباہ کیا گیا۔ فروری کے وسط تک چھتیس میں سے محض گیارہ اسپتال جزوی طور پر فعال تھے، اب ان کی تعداد مزید کم ہو چکی ہے۔
اسرائیلی فوج نے اسپتالوں کے احاطے میں نہ صرف پناہ گزینوں بلکہ طبی عملے اور مریضوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ وسیع گرفتاریاں کیں یا پھر ان جگہوں کو خالی کروا کے تباہ کر دیا۔ حتیٰ کہ نوزائیدہ بچوں کو بھی اسپتال چھوڑنا پڑا، ان میں سے بہت سے راستے میں مر گئے۔ ایمبولینسوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔
زمینی پیش قدمی نے نہ صرف زرعی زمین بلکہ کھڑی فصلیں، جانور، ماہی گیری اور بستیاں اجاڑ دیں۔ مقامی ماحولیات کو بارودی دھوئیں اور تباہی سے اٹھنے والے عمارتی گردو غبار سے کتنا نقصان پہنچا، اس کا فی الحال ٹھیک ٹھیک تخمینہ لگانا مشکل ہے۔
(گزشتہ ہفتے کے تخمینے کے مطابق اگر آج جنگ بند ہو جائے، تب بھی غزہ کے بنیادی ڈھانچے کی جزوی بحال کے لیے کم ازکم اٹھارہ ارب ڈالر درکار ہیں)
فروری کے وسط تک شمالی غزہ میں رہ جانے والے بیشتر فلسطینی مویشیوں کی غذا اور گھاس پھونس سے پیٹ بھرنے تک آ گئے۔ صاف پانی کی فراہمی بند ہے، لہٰذا پیاس بجھانے کے لیے آلودہ یا سمندری پانی ہی دستیاب ہے۔اس کے استعمال سے بچوں میں شرحِ اموات اور امراض کی شرح یک دم بلند ہو گئی۔ پچاس ہزار حاملہ خواتین اور بیس ہزار نوزائیدہ بچوں کی زندگی داؤ پر لگ گئی۔ اسقاطِ حمل کی شرح سات اکتوبر سے پہلے کے مقابلے میں تین سو فیصد بڑھ گئی۔ گویا غزہ کو ہر طرح سے انسانی زندگی کے لیے ناقابلِ استعمال بنا دیا گیا۔
کسی المئے کو نسل کشی قرار دینا آسان ہے مگر ٹھوس ثبوتوں کے بغیر ثابت کرنا اور مجرموں کو قانونی کٹہرے میں کھڑا کرنا مشکل ہے۔ کسی نسل کش منصوبہ بندی کا تحریری ریکارڈ نہ بھی ملے، تب بھی چین آف کمانڈ میں شامل سرکاری و عسکری عمل داروں کے بیانات اور ان کے مطابق زمین پر نسل کشی کے مختلف اقدامات کافی سمجھے جاتے ہیں۔
جیسے نازی جرمنی نے کاغذ پر نسل کشی کا کوئی مینوئیل یا نقشہ تو نہیں چھوڑا مگر معروضی ثبوتوں سے ایک فردِ جرم تیار ہو گئی اور دنیا اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں اور نازی مخالف گروہوں کی باقاعدہ صنعتی پیمانے پر نسل کشی ہوئی۔ انہی معروضی ثبوتوں کی بنیاد پر نورمبرگ عدالت نے مجرموں کو سزا سنائی۔
اعلیٰ سطح پر اسرائیل کے بااختیار اہلکاروں نے کھل کے ایسے بیانات دیے اور ان پر جس طرح سے عمل کیا گیا، وہ بذاتِ خود ایک جامع فردِ جرم کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
مثلاً اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے کہا کہ ایک پوری قوم سات اکتوبر کے حملوں کی زمہ دار ہے اور اسرائیل ان کی کمر توڑ دے گا۔ وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے فلسطینیوں کو ایک عفریت اور ’امالک‘ قرار دیا۔
(تورات کی تعلیمات کے مطابق امالک وہ دشمن گروہ ہے، جس کے بارے میں ساؤل نبی کو خدا نے حکم دیا کہ امالک کے مرد، عورتوں، بچوں اور مویشیوں میں سے کوئی ایک بھی نہ بچنے پائے)۔
وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے فلسطینیوں کو انسان نما جانور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔ غزہ کی زمین کبھی بھی پہلے جیسی نہیں رہے گی۔
فوج کے ترجمان کرنل ڈینئل ہگاری نے کہا کہ ہماری حکمتِ عملی زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے۔ وزیر ثقافت امیائی ایلیاہو نے تجویز دی کہ غزہ پر ایٹم بم گرا دیا جائے۔ حکمراں لخود پارٹی کے ایک رکنِ پارلیمان نے ٹویٹ کیا کہ ایک ایک عمارت گرا دی جائے، غزہ کو ہموار کر دیا جائے، رحم کرنے کی اب کوئی گنجائش نہیں۔
پچھتر برس سے فلسطینیوں کو نیم انسان سمجھنے کی اجتماعی نفسیات کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اوپر سے نیچے تک ہر ذہن نسل کشی پر آمادہ ہو جاتا ہے اور جب یہی نسل ایک فوجی کے روپ میں مدِمقابل پر ٹوٹ پڑتی ہے تو نیت شکست دینے یا فتحیاب ہونے کی نہیں، بلکہ صفحہِ ہستی سے مٹانے کی ہوتی ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے نسل کش ماحول ابھارنے والے بیانات صرف بااختیار شخصیات کی جانب سے ہی نہیں آئے بلکہ سماجی حلقوں، مذہبی رہنماؤں، صحافیوں، فن کاروں، مبصرین، ڈاکٹرز، سوشل میڈیا انفلوئنسرز، نجی و سرکاری و عسکری نشریاتی چینلز اور انفرادی طور پر اسرائیل فوجیوں کی بنائی ہوئی وڈیوز، ٹک ٹاک، انسٹا گرام وغیرہ کا ایک ذخیرہ ہے، جو نسل کش پالیسی کی جیتی جاگتی فردِ جرم میں ڈھل سکتا ہے۔
اسرائیلی صدر، وزیرِ اعظم اور دیگر اعلیٰ اہل کار اس نسل کشی کو باقی دنیا کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل مہذب دنیا کو وحشیوں سے محفوظ رکھنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کئی حکومتیں اس نسل پرستانہ موقف میں بھی معقولیت کے پہلو دیکھتی ہیں۔
اسرائیل کس طرح بین الاقوامی انسانی قوانین کو توڑ مروڑ کے نسل کشی کو ان قوانین کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔اس کا احوال اگلی قسط میں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔