پنجابی مزدور، پنجابی دانشور

محمد حنیف

فوجی جب اپنی ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلتا ہے، چاہے کسی سرحدی چوکی پر ہو یا ملک کے اندر کسی شورش زدہ علاقے میں، اس کی تربیت اسے یہ سکھاتی ہے کہ چوکس رہو، دشمن کسی وقت بھی وار کر سکتا ہے۔ نالائق اور سست پولیس والا بھی جب گشت پر نکلتا ہے تو آنکھیں کُھلی رکھتا ہے کہ کسی گلی کی نکڑ پر، کسی چور اچکے سے مڈبھیڑ ہو سکتی ہے، لیکن جب کوئی مزدور اپنا گھر چھوڑتا ہے تو اسے صرف یہی فکر ہوتی ہے کہ مزدوری ملے گی یا نہیں اور اگر ملی تو کتنی ملے گی۔

اگر مزدوری کے لیے اپنا گاؤں، اپنا صوبہ، اپنا ملک چھوڑ کر جا رہا ہو تو یہ سوچتا ہے کہ مزدوری میں سے کتنا بچا کر پیچھے گھر والوں کو بھیجے گا اور واپس آ کر اپنے پیاروں کی شکل دیکھنا کب نصیب ہو گی۔

منڈی بہاؤ الدین سے مزدوریوں کے خواب دیکھتے، رمضان کے آخری دنوں میں بسوں میں سوتے جاگتے، نوشکی کے پاس پہنچتے ہیں تو مبینہ طور پر بلوچ باغی ان کے شناختی کارڈوں سے ان کی پنجابیت ثابت کر کے انہیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیتے ہیں۔

جن مزدور خاندانوں نے مزدوری سے پیسے بچا کر نوجوانوں کو دور دیس مزدوری کے لیے بھیجا تھا انھیں اپنے بچوں کی لاشیں عید پر ملتی ہیں۔

نوشکی میں بربریت کا نشانہ بننے والے منڈی بہاؤ الدین کے نوجوانوں نے شاید نوشکی اور بلوچستان زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ہوگا۔ نہ بلوچستان میں بغاوت کی خبریں منڈی بہاؤ الدین پہنچی ہوں گی۔ ان کی آخری سانسوں کی معصوم حیرت، دردناک ہے کیونکہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ آخر پنجابی ہونا کب ایک قابلِ قتل جرم بن گیا؟

اگر بلوچستان میں مسئلہ پنجابی مزدوروں کو قتل کر کے حل ہو سکتا تو ابھی تک کچھ بہتری آ چکی ہوتی، کیونکہ اس سے پہلے استاد بھی مارے گئے ہیں، حجام بھی، زائرین بھی، نانبائی بھی اور مزدور اور پھر مزدور اور مزدوری کے خواب دیکھنے والے بس میں اونگھتے نوجوان۔

اگر بلوچستان کا مسئلہ ہزارہ برادری کا قتلِ عام کر کے حل ہو سکتا ہے تو وہ اتنے ہو گئے کہ اپنا ہنستا بستا کوئٹہ چھوڑ کر ہزاروں کی نسل دنیا میں دربدر ہو گئی۔

پرانے فیشن کے محب الوطن یاد دلاتے رہتے تھے کہ اگر شیعہ قتل ہو تو یہ کہو کہ مسلمان قتل ہوا، اگر بلوچ بچہ اٹھایا جائے تو کہو کہ دہشت گرد اٹھایا گیا، مسیحی بستی جلا دی جائے تو یہ کہو کہ پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں، احمدی مارا جائے تو کچھ بھی نہ کہو اور کم از کم یہ مت کہو کہ جان بحق ہوئے ہیں۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے منڈی بہاؤ الدین کے مزدوروں کے ورثا سے تعزیت کی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ پنجاب کے دانشور ابھی بھی دھوکے میں ہیں۔

سرفراز بگٹی حالیہ نگران حکومت میں نوشکی سے لے کر منڈی بہاؤ الدین اور اس سے آگے کے بھی وزیر داخلہ تھے۔ ان کے اپنے وزیراعظم لاہور کی یونیورسٹی میں بیٹھ کر طلبا کو بتا گئے تھے کہ پنجابی ہو تو بلوچستان میں مارے جاؤ گے، شیعہ ہو تو مارے جاؤ گے۔ ان سے کوئی نہیں پوچھ سکا کہ اگر آپ کو یہ سب پہلے ہی سے پتا ہے تو آپ وزیراعظم کے طور پر کیا کر رہے ہیں؟ صرف ہماری موت کی پیشگوئی؟

سابق نگران وزیراعظم اور ان کے ساتھی اور اب بلوچستان کے وزیراعلیٰ ایک ہی مشن کے ساتھ آئے ہیں کہ پنجابیوں کی غیرت جگاؤ تاکہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ ان بلوچوں سے ہمارے مزدور بچوں کا بدلا لو۔

یقین ہے کہ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نہ کبھی پنجابی مزدور سے ملے ہیں، نہ کسی پنجابی دانشور سے۔

فوجی میسوں میں اور باہر عوام میں بھی دو ہی مستند پنجابی دانشور ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ اداکار اور ٹی وی پرسنیلٹی سہیل احمد اور شہرہ آفاق ٹی وی پرسنیلٹی آفتاب اقبال۔۔ وہ آج کل آپس میں طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اصلی تے وڈا دانشور کون ہے۔

سرفراز بگٹی پنجابی دانشوروں کی طرف سے بے فکر رہیں کیونکہ وہ تو آخر میں ہاتھ باندھ کر کہہ دیں گے کہ ہمارے دل ہمارے مزدور بھائیوں کے غم میں بھرے ہیں لیکن نوشکی کی چیک پوسٹوں پر ڈیوٹی تو سہیل احمد اور آفتاب اقبال نہیں دے سکتے۔ یہ تو وہی فوجی مزدور دے گا، جو اپنی ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلے گا۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close