کہاوت ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ کہاوتوں کے اساتذہ سے معذرت کے ساتھ، میں اس کہاوت میں ڈنڈی مارنا چاہتا ہوں۔ جوانی دیوانی نہیں ہوتی، جوانی ہمیں دیوانہ بنا دیتی ہے۔ اس بات کا علم ہمیں بہت دیر سے، بہت بعد میں ہوتا ہے۔ تب تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہوتا ہے۔ بہت سے خواب تعبیروں سے پہلے ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکے ہوتے ہیں۔ زندگی میں جو کچھ ممکن لگتا تھا، تب ناممکن لگنے لگتا ہے۔ تب، کہاوت کے برعکس، پتہ چلتا ہے کہ جوانی دیوانی نہیں ہوتی، جوانی کے آتے ہی ہم دیوانے ہو جاتے ہیں۔ جوانی میں کئے ہوئے کئی وعدے بچگانہ اور احمقانہ لگتے ہیں۔ آسمان سے تارے توڑ کر کسی کی جھولی میں ڈالنے جیسی باتوں پر کبھی ہنسی اور کبھی شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ’’تمہارے بغیر میں جی نہ پاؤں گا۔‘‘ جیسے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ جدا ہو جانے کے بعد وہ زندہ رہتی ہیں، ہم بھی ان کے بغیر زندہ رہتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ نانی اور دادی ہو جاتی ہیں، ہم ان کے بغیر نانا اور دادا بن جاتے ہیں۔
وہ کوئی اور ہوتے ہیں جو کسی سے بچھڑ جانے کے بعد جوگ لے لیتے ہیں۔۔ وہ ہوتے تو ہمارے درمیان ہیں مگر ہم ان کو پہچان نہیں سکتے۔ بڑھاپا دراصل زندگی کے گزرے ہوئے ادوار بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی اور ادھیڑ عمری کا محاصرہ کرنے کا دور ہوتا ہے۔ بڑھاپا ماضی میں جھانک کر دیکھنے کا دور ہوتا ہے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ کا ہر طرح کا جو بھی نقصان ہونا ہوتا ہے، وہ ہو چکا ہوتا ہے۔ آپ کی وجہ سے جس کسی کا نقصان ہو چکا ہوتا ہے، وہ ہو چکا ہوتا ہے۔ جو بازی الٹ چکی ہوتی ہے، وہ الٹ چکی ہوتی ہے۔ آپ الٹ چکی ہوئی بازی کو بڑھاپے میں پلٹ نہیں سکتے۔ اپنی جوانی میں آپ نے جن جن کو اجاڑ دیا ہوتا ہے، وہ اجڑ چکے ہوتے ہیں۔ عمرِ آخر میں یعنی بڑھاپے میں آپ کے پچھتانے سے اجڑے ہوئے لوگ پھر سے آباد نہیں ہو سکتے۔ آپ کے رونے دھونے اور گڑگڑانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ اپنے ماضی میں ترمیم نہیں کر سکتے۔ آپ اپنے ماضی کی حماقتوں کا ازالہ نہیں کر سکتے۔ آپ اپنے ماضی کو ایڈٹ Edit نہیں کر سکتے۔ جاتے ہوئے آپ اپنا ماضی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
ایک نوجوان نے کہا، ’’جب بڑھاپا آئے گا، تب دیکھا جائے گا۔ فی الحال ہمیں بڑھاپے کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔‘‘
تقریباً اسی نوعیت کی سوچ ہوتی ہے، جب ہم نوجوان ہوتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے بھی ہم سوچ نہیں سکتے کہ ایک نہ ایک روز ہم بوڑھے ہوجائیں گے۔ بڑھاپے کو بھگتتے ہوئے نوجوانی اور جوانی کے چند برسوں کو یاد کریں گے۔ اپنے ایک ایک فعل پر سوچیں گے۔ نوجوانی اور جوانی کے عالم میں کیوں ہمیں خیال نہیں آتا کہ زندگی کا ڈرامہ جس کی ابتدا ہمارے جنم سے ہوتی ہے، اس ڈرامے کا ایک اختتامیہ بھی ہوتا ہے۔ نوجوانی اور جوانی کے دور میں ہم لمحہ بھر کے لئے قدرت کے دستور پر توجہ نہیں دیتے۔ سب کچھ ظاہر ظہور ہے۔ ہماری نگاہوں کے سامنے کھیل کھیلا جارہا ہے۔ بچے جنم لے رہے ہوتے ہیں۔ چھوڑنے والے یہ دنیا چھوڑتے رہتے ہیں۔ ابتدا اور انتہا کے درمیان ہم زندگی گزار دیتے ہیں۔ بہت کچھ یاد رہ جاتا ہے۔ بہت کچھ ہم بھول جاتے ہیں۔
’’جو وقت ابھی آیا نہیں ہے، اس وقت کی فکر ہم کیوں کریں۔‘‘ ایک نوجوان نے کہا۔ ’’میں سمجھتا ہوں بڑھاپا فرصت اور فراغت کا دور ہوتا ہے۔ ذمہ داریوں سے نجات، دفتر، نہ بیزار کن میٹنگیں، کام نہ کاج، پڑے رہیں گے بستر پر، زندگی کی تھکن خوب آرام کر کے اتاریں گے۔‘‘
ہم سب نوجوانی اور جوانی کے عالم میں تقریباً اسی طرح سوچتے ہیں مگر چند برس بعد جب نوجوانی اور جوانی کا نشہ اترنے کے بعد بڑھاپے سے آمنا سامنا ہوتا ہے، تب دماغ ٹھکانے لگتا ہے۔ زندگی بھر کی بھاگ دوڑ آپ کو تھکاتی ضرور ہے مگر بڑھاپے میں آپ نوجوانی اور جوانی کی بھاگ دوڑ کی تھکن محسوس نہیں کرتے۔
بھاگ دوڑ سے دوری آپ کو زندگی کا خالی پن اور پھکڑپن دکھاتی ہے۔ غمِ روزگار اور اپنی ذات کی تصدیق کے لئے ہم بہت بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ بڑھاپے میں آپ اس نوعیت کی بھاگ دوڑ نہیں کر سکتے۔ تب آپ کو اپنی حیات کے ایک لازمی جز سے محرومی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ بھاگ دوڑ سے آپ کو اپنے ہونے کی تصدیق ہوتی رہتی تھی۔ بڑھاپے میں آپ اپنے ہونے کی تصدیق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے روگ ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جینے کے جتن دشوار ہو جاتے ہیں۔ وقت کٹتا نہیں، وقت ہمیں کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ آپ خود کو مصروف رکھنا چاہتے ہیں مگر آپ کے پاس خود کو مصروف رکھنے کا ہنر نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں کوئی ہنر سیکھنا ممکن نہیں لگتا۔ وبائیں آپ کو نیا ہنر سیکھنے نہیں دیتیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ بڑھاپے سے نبرد آزما ہونے کے لئے آپ جوانی میں باڈی بلڈنگ سیکھ لیں، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ رستمِ زماں گاما پہلوان کا بڑھاپا دردناک تھا۔ جوانی میں مستقل مزاجی سے سیکھے ہوئے ہنر بڑھاپے میں کام آتے ہیں۔ ہنر سیکھنے سے میری مراد مشینیں چلانا نہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر پگڑی اچھالنے اور ایک دوسرے کو گالیاں دینے کا ہنر نہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا سے دل لگانے کے بعد دنیا آپ کو اپنی مٹھی میں محسوس ہوتی ہے۔ آپ اچھی سے اچھی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی پسند کے رواں کھیل دیکھ سکتے ہیں۔ مختلف ممالک کی دستاویزی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر کی لائبریریز، میوزیم، تھیٹر، آرٹ گیلریز میں جا سکتے ہیں، وہاں رکھی ہوئی اشیا اور نوادرات دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ بیٹھے بٹھائے موبائل فون اور ریموٹ کنٹرول سے کر سکتے ہیں۔ آپ ڈیجیٹل میڈیا پر شطرنج اور لڈو کا کھیل، کھیل سکتے ہیں۔ آپ کرکٹ میچ دیکھ سکتے ہیں۔ فٹ بال کے میچز دیکھ سکتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی تاریخ اور جغرافیے کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کام کی ابتدا نوجوانی اور جوانی بلکہ اس سے پہلے لڑکپن سے ہوتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)