’سبالٹرن‘ کی اصطلاح اٹلی کے مفکر گرامچی نے اپنی قید کے دوران لکھی گئی نوٹ بک میں استعمال کی تھی۔ اس کا مطلب ہے معاشرے کے نچلے طبقے کے لوگ کمزوروں سے ہے اور جو محرومی کا شکار ہیں۔
تاریخ نویسی میں اشرافیہ کی اجارہ داری کو سب سے پہلے دو فرانسیسی مورخوں نے چیلنج کیا، ان میں سے ایک لوئسں فیب تھا اور دوسرا مارک بلوخ۔ انہوں نے محروم طبقے کی تاریخ پر توجہ دی۔ 1966 میں انگریز مورخ ایڈورڈ پی ٹامسن نے ٹائم سپلیمنٹ میں ایک مضمون History from Ballow لکھا۔
اس میں اس نے ذکر کیا ہے کہ معاشرے کے عام لوگ، جن میں موچی، لوہار، سنار، بڑھئی، جولاہے شامل ہیں، ان سب کو گم نامی سے نکال کر تاریخ کا حصہ بنانا چاہیے۔
یورپ میں عام لوگوں کا کردار اس وقت ابھر کر آیا، جب انگلستان میں صنعتی انقلاب آیا، جس نے ورکنگ کلاس کو پیدا کیا۔ صنعتی انقلاب میں ورکنگ کلاس غربت و افلاس اور معاشرے نے نچلے طبقے میں شامل تھی، مگر انہی مسائل کی وجہ سے ان میں سیاسی شعور آیا، ٹریڈ یونین کی ابتدا ہوئی اور ورکنگ کلاس نے اپنے حقوق کے لیے احتجاج، مظاہرے اور ہڑتالیں کیں۔
ان کی اس عملی جدوجہد سے ان کے بارے میں یہ تاثر ختم ہوا کہ وہ جاہل سوچ و فکر سے عملی اور معاشرے کا کم تر حصہ ہیں۔ دوسری اہم تبدیلی اس وقت آئی، جب 1789 میں فرانس میں انقلاب آیا، جس میں عام لوگوں نے بھرپور حصہ لیا۔ ان میں عورتیں، دوکاندار، مزدور، دست کار و ہنرمند شامل تھے، جو آزادی، مساوات اور اخوّت کے اصول کے لیے جنگ کر رہے تھے۔
محروم طبقے کے لوگوں کا کردار پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران ابھرا، کیونکہ یہ جنگیں فوجیوں کے درمیان ہی میں لڑی گئیں بلکہ ان میں شہری بھی شامل ہوئے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جب مرد جنگی محاذوں پر گئے تو عورتوں نے ان کی جگہ لے کر کارخانوں اور دفتروں میں کام کیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد یہ واپس اپنی گھریلو زندگی پر نہیں لوٹیں بلکہ عملی زندگی میں رہیں۔ اس تبدیلی نے خاموش اور محروم طبقے کو طاقتور بنانے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا موقع دیا۔
عام لوگوں کا کردار اس وقت مزید ابھرا، جب دوسری جنگِ عظیم کے دوران غیرملکیوں نے ان کے ملک پر قبضہ کیا، جس کی مثال فرانس پر قبضے کی ہے۔ اس غیرملکی اقتدار کے خلاف عام لوگوں نے مزاحمت کی۔ اپنی جانوں کی قربانیاں دیں اور باشعور ہونے کا احساس دلایا۔
لہٰذا سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے عام لوگوں کی اہمیت ظاہر ہوئی۔ اپنے حقوق کے لیے انہوں نے مختلف تنظیمیں قائم کیں، تاکہ متحد ہو کر اپنے حقوق حاصل کے جا سکیں۔
ان میں ٹریڈ یونین کے علاوہ طالب علموں کی تنظیمیں تھیں، جنہوں نے تعلیمی اداروں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ موجود حالات پر بھی توجہ دی۔ سیاسی جماعتوں کو جب بھی ضرورت پڑی، انہوں نے عوامی مظاہروں کو اپنی مقبولیت کے لیے استعمال کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے تحریکِ نسواں شروع کی اور اس کے ذریعے پرتشدد احتجاج کیا۔
ان تبدیلیوں نے مورخوں کو متاثر کیا اور انہیں یہ احساس ہوا کہ ان کو تاریخ کی تشکیل سے محروم کر کے تاریخ کو گھٹا دیتے ہیں۔ محروم لوگوں کی شمولیت سے تاریخ کو نئی زندگی ملی۔ یورپ میں تو عام لوگ اب محروم نہیں رہے اور وہ سیاسی اور معاشی بحرانوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں، جیسے جنگ کے خلاف ویتنام اور عراق میں امریکی حملوں پر احتجاج، سرمایہ داری کے خلاف مظاہرے، انتخابات میں شرکت اور ایسے ووٹوں کا استعمال۔
اب تک عام لوگوں کی تاریخ مورخ لکھا کرتے تھے اور اپنے نقطۂ نظر سے تاریخ کی تشکیل کرتے تھے۔ وہ ریاستی دستاویزات کو استعمال کرتے تھے، جن میں عام لوگوں کے بارے میں بہت کم معلومات ہوتی تھیں۔ ایک نئی تبدیلی اس وقت آئی، جب زبانی تاریخ کو استعمال کیا جانے لگا۔ عام لوگوں سے ان کی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں ان کے کام کے اوقات ان کے سرمایہ داروں سے تعلقات اس زبانی تاریخ نے ان کی نمائندگی کی۔ وقت کے ساتھ عام لوگوں نے اپنی یادشتیں بھی لکھیں، جنہوں نے ان کے کردار کو اور زیادہ واضح کیا ہے۔
برصغیر میں بھی عام لوگوں کی تاریخ لکھنے پر توجہ دی گئی۔ مارکسی مورخوں نے ٹریڈ یونین کی تاریخیں تو لکھیں مگر ان میں کسانوں، چرواہوں اور کاریگروں کا کوئی خاص ذکر نہیں تھا۔
1980 کی دہائی میں ہندوستان کے کچھ مورخوں نے ’سبالٹرن اسٹڈیز‘ کے نام سے تاریخ نویسی میں تبدیلی کی، خاص طور سے وہ تاریخ جسے انگریزی دور میں اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ اس مکتبۂ فکر کے مورخوں نے اس گمشدہ تاریخ کو لکھ کر اس کی اہمیت کو ظاہر کیا۔
انڈیا میں عرفان حبیب کی ادارت میں ’پیپلز ہسٹری آف انڈیا‘ کے عنوان سے عوام کی تاریخ شائع کی جا رہی ہے، جو 40 جلدوں میں ہوگی۔ اس منصوبے میں وہ مورخ شامل ہیں، جو تاریخ کے کسی ایک شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں عرفان حبیب کی نگرانی میں ’پیپلز ہسٹری آف انڈیا‘ کے نام سے ایک علیحدہ کتابی سلسلہ شروع ہوا ہے۔
اس کتابی سلسلے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تاریخ پر اشرافیہ کی اجارہ داری رہے گی تو عام لوگوں کے ذہن پر ان کا سیاسی تسلط قائم رہے گا اور عام لوگ خود کو ان کا محتاج سمجھتے رہیں گے۔ اس لیے تاریخ سے ان کے تسلط کا خاتمہ ضروری ہے، تاکہ عام لوگوں کا احساس کمتری دور ہو، ان کی طاقت کو چیلنج کریں۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ریاستی تاریخ نویسی ہے۔ ریاست کے نظریات عوام کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ سیاسی شخصیتیں ہیروز کا درجہ رکھتی ہیں، اور عام لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ان کی تقلید کریں اور نئے افکار تخلیق نہ کریں۔
پاکستان میں عوامی تاریخ کی اس لیے بھی کوئی جگہ نہیں ہے، کیونکہ یہاں نہ ٹریڈ یونینز ہیں، نہ طالب علموں کی یونینز ہیں اور اب تحریکِ نسواں بھی خاموش ہو گئی ہے۔ اس لیے پاکستان کے معاشرے میں عام لوگوں کو خاموش کر کے تاریخ سے بھی ان کو بےدخل کر دیا ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)