قدیم تاریخ میں محروم طبقے کو کوئی سماجی درجہ نہیں دیا گیا۔ اس کا تعلق نچلے طبقوں سے تھا اور اس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ یہ بے شعور اور کوڑے کرکٹ کی طرح ہیں، جن کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب موجودہ زمانے میں مورخ ان کی گمشدہ تاریخ کو تلاش کر کے ان کے کردار کو سامنے لا رہے ہیں۔
ایتھنز کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی ابتدا یہاں سے ہوئی، لیکن درحقیقت ایتھنز کا معاشرہ کئی سماجی درجوں میں تھا۔ غلاموں، عورتوں اور غیرملکیوں کو ووٹ کی اجازت نہیں تھی۔ ایتھنز کے شہریوں کو یہ حق تھا کہ وہ جمہوری عمل میں حصہ لیں۔ شہری وہ ہوتا تھا، جس کے دونوں ماں باپ کی تعلق ایتھنز سے ہو۔
اس سماجی تقسیم کی وجہ سے ایتھنز کے معاشرے میں ہم آہنگی نہیں تھی۔ غلاموں کا طبقہ تمام حقوق سے محروم تھا۔ غلام جنگی قیدی بھی ہوتے تھے اور وہ شہری بھی جو قرض لے کر اس کی ادائیگی نہیں کر پاتے تھے۔ قرض دینے والا ان کو غلام بنا لیتا تھا۔ ان غلاموں کو وہ ایتھنز سے باہر بھی فروخت کر دیتا تھا۔ اس وجہ سے اس کے معاشرے میں امیر و غریب کے درمیان تصادم پیدا ہوا۔
اس صورت حال کو ختم کرنے کے لیے قانون دان سولن (c.560 bc) نے قوانین مرتب کیے، جن کے تحت شہریوں کو غلام بنا کر ایتھنز سے باہر بھیج دیا تھا، انہیں واپس لایا گیا اور یہ شرط لگا دی کہ ایتھنز کے شہری کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ سولن کے قوانین نے ایک حد تک طبقاتی فرق کو روکے رکھا، مگر اشرافیہ اور عام لوگوں کے درمیان معاشی فرق کو دور نہیں کر سکا۔
ایتھنز کے عام لوگ غربت اور مفلسی کا شکار تھے۔ کاشت کاری کے لیے زمین کم تھی۔ زیادہ تر کام غلام کر دیتے تھے، اس لیے عام لوگوں میں بیروزگاری تھی۔ یہ اپنی آمدنی کے ذرائع ڈھونڈتے تھے۔ مثلاً روز صبح لوگوں کا مجمع عدالت کے سامنے جمع ہو جاتا تھا جہاں کے لیے لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ جیوری میں ہزار لوگ تک شامل ہوتے تھے اور ان کو معاوضہ دیا جاتا تھا۔ غربت کی وجہ سے بعض خاندان بچوں کی پیدائش پر انہیں کھلی جگہ چھوڑ آتے تھے۔ یہاں سے یا تو بے اولاد لوگ انہیں لے جاتے تھے یا پھر وہ گرمی سردی میں جانوروں کا لقمہ بنتے تھے۔ غریب لوگوں کے لیے کھانے کی بھی سہولتیں نہ تھیں۔ ان میں سے کچھ تو بھیک مانگ کر گزارا کرتے تھے اور کچھ لوگوں کو اس وقت گوشت نصیب ہوتا تھا جب دیوی دیوتاؤں کے لیے قربانی کی جاتی تھی۔ بیروزگار نوجوان فوج میں شامل ہو کر فوجی مہمات میں دوردراز کے علاقوں میں چلے جاتے تھے۔ سالوں ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں آتی تھی کہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔
ایتھنز کی اسمبلی میں اگرچہ عام شہری شریک ہوتے تھے، مگر اس کی کارروائی پر اشرافیہ کے سیاست دانوں کا قبضہ تھا۔ کیونکہ دور تک مقرر کی آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس لیے اکثر قوانین ان کو شامل کیے بغیر سیاست دان پاس کروا لیتے تھے۔ اس لیے ایتھنز کی جمہوریت میں ہمیں محروم طبقے خاموش نظر آتے ہیں۔ انہیں سیاست دان اور اشرافیہ نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا مگر ان کی غربت اور افلاس کو ختم نہیں کیا۔
یہی صورت حال ہم رومی سلطنت میں پاتے ہیں، جہاں غلاموں کی اکثریت تھی۔ غلام کاشت کاری بھی کرتے تھے۔ معدنیات کی کانوں سے معدنیات نکالتے تھے۔ گھریلو کام کاج بھی کرتے تھے اور اپنی تعداد کی وجہ سے رومیوں کو خوفزدہ بھی رکھتے تھے۔ جب سختی بڑھ جاتی تھی تو بغاوتیں کر کے اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے تھے۔ مثلاً اسپارٹکس کی بغاوت بڑی مشہور ہے، جس نے رومی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
رومی شہر میں غریبوں اور اسیروں کی رہائش اور طرزِ زندگی جدا جدا تھی۔ امرا پہاڑیوں پر اپنی حویلیاں تعمیر کر کے عام لوگوں سے دور رہتے تھے۔ جبکہ عام لوگ خستہ اور ٹوٹے ہوئے فلیٹوں میں رہتے تھے جن میں کھانا پکانے کی سہولتیں نہیں تھیں۔ یہ عمارتیں انتہائی کمزور تھیں اور اکثر گرتی رہتی تھیں، جس کی وجہ سے جانی نقصان ہوتا تھا اور جب مالک نئی عمارت بناتا تھا تو کرائے میں اضافہ کر دیتا تھا۔
غربت کی وجہ سے لوگوں کے لیے کرایہ دینا مشکل تھا، اس لیے مالک مکان انہیں بے دخل کر دیتا تھا۔ بے دخلی کے وقت ایک خاندان جس میں چار بچے اور ایک بیٹی تھی، اپنے ٹوٹے پھوٹے سامان کے ساتھ سڑک پر آ گئے۔ ان کے پاس نہ تو اتنا پیسہ تھا کہ نیا فلیٹ کرائے پر لیں یا قرض دے کر وقتی طور پر اپنی رہائش کا بندوبست کریں۔
قرض دینے کے لیے سود خوروں کا ایک طبقہ موجود تھا۔ جو غریبوں کو ان کی مجبوری پر سخت شرائط پر سود پر قرض دیا کرتا تھا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ بےدخل ہونے والے لوگ شہر سے دور کسی خالی جگہ پر مٹی سے اپنی رہائش کی جگہ بنا لیتے تھے، لیکن ساتھ ہی میں انہیں یہ ڈر بھی تھا کہ ان کا زمین پر قبضہ غیر قانونی ہے۔
روم میں باہر سے آنے والے پناہ گزین بھی ہوتے تھے۔ جب ان کو کوئی رہائش نہیں ملتی تھی، تو یہ بےگھر لوگ پلوں کے نیچے یا عمارتوں کے سائے میں راتیں گزارتے تھے۔ یہ بے گھر اور بیروزگار لوگ اپنا گزارہ بھیک مانگ کر کرتے تھے۔ رومی فلسفی سینیکا نے لکھا ہے کہ فقیروں کی اپنی منظم جماعتیں تھیں جو شہر کی سڑکوں اور چوکوں پر کھڑے ہو کر بھیک مانگتے تھے۔ یہ بیروزگار اور آوارہ گرد لوگ سیاست دانوں کے مفادات کو بھی پورا کرتے تھے۔ اگر الیکشن میں اشرافیہ کے امیدوار کی جیت نظر نہیں آتی تھی تو آوارہ گرد لوگوں کا یہ مجمع سیاست دانوں سے پیسے لے کر بیلٹ بکس اٹھا کر لے جاتا تھا اور اگر لڑائی جھگڑا ہو تو یہ اس میں بھی حصہ لیتے تھے۔
رومی سلطنت میں ہمیں اشرافیہ جو Patrician کہلاتی تھی اور عوام جو Pleboian کہلاتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان سماجی فرق کا اظہار ان کی زندگی اور مرنے کے بعد بھی ہوتا تھا۔ Patrician کی قبروں پر مقبرے بنائے جاتے تھے۔ تدفین کے قطبوں پر ان کے کارنامے درج ہوتے تھے اور ان کے خاندان والے اکثر ان کی قبروں کی زیارت کرتے تھے جبکہ غریب لوگوں کی قبریں بغیر کسی کتبے کے ہوتیں تھیں اور مرنے کے بعد بھی انہیں فوراً ہی بھلا دیا جاتا۔
یونان اور روم کی تاریخ میں نچلے طبقے کی تاریخ کو ماخذوں کی کمی کی وجہ سے مشکل سے تشکیل کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس عمل میں آثارِ قدیمہ کی شہادتیں شامل ہیں لیکن یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اپنی غربت، بے بسی اور طاقت سے محروم ہونے کے باوجود محروم لوگوں نے عملی طور پر اپنے کردار سے تاریخ کی ترقی میں حصہ لیا۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)