بالخصوص 2018 سے اب تک جتنے بھی بجٹ پیش کیے گئے، ان کا ڈھانچہ آئی ایم ایف نے بنایا۔ ہم نے صرف اس ڈھانچے پر لیپا پوتی کی۔ اب جو بجٹ آنے والا ہے، وہ بھی اس سیریز کی اگلی کڑی ہے۔
آسان لفظوں میں قیدی کو زنجیر کی لمبائی تک چہل قدمی کی آزادی میسر ہے۔ یہ ان اللوں تللوں کی قیمت ہے، جو ادھار کو آمدنی سمجھ کے ہضم کرنے سے جنم لیتی ہے۔
اللے تللے اشرافیہ کے (فوج ، بیورو کریسی، تاجر و صنعت کار و بارسوخ زمیندار و ٹھیکیدار و بچولیے، کارپوریٹ سیکٹر اور سبسڈی کے خون پر پلنے والے نیم دیوالیہ پبلک سیکٹر ادارے وغیرہ وغیرہ) اور قیمت چکائی جاتی ہے ٹیکس دینے والی اقلیت، کمرشل شرحِ سود پر اٹھائے جانے والے قرضوں، برادر ممالک کے مہربند ڈپازٹس اور واجب الادا اقساط کے رول اوور کے ذریعے۔
دو سو بَہتر ارب ڈالر کا اندرونی و بیرونی قرضہ، جس کی قسط و سود کی ادائیگی ڈالر کے مد و جزر کے سبب ایک برس میں 64 فیصد بڑھ چکی ہے۔
دو ہزار گیارہ میں پاکستان کے ہر شہری پر یہ قرضہ 823 ڈالر فی کس تقسیم ہو رہا تھا۔آج بارہ برس بعد اس شہری کی گردن پر قرضے کا بوجھ مزید 36 فیصد (1122 ڈالر) بڑھ گیا ہے۔ جبکہ اسی دورانیے میں فی کس قومی پیداوار میں چھ فیصد کمی ہوئی۔
گذشتہ ماہ ’دوبئی ان لاک‘ کے نام سے ایک تحقیقاتی رپورٹ کیا سامنے آئی کہ تمام لوکل چینلز ایک ٹانگ پر ناچنے لگے۔ حالانکہ ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ کوئی تو رپورٹ ایسی آئی جس میں پاکستان چوٹی کے تین ممالک میں شامل ہے۔ یعنی دوبئی میں جن غیر ملکی شہریوں کی جائیدادیں سب سے زیادہ ہیں، ان میں سرِ فہرست انڈیا، پاکستان اور برطانیہ ہیں۔ اس کے بعد کہیں جا کے روس ووس کے شہری آتے ہیں۔
اس انکشاف میں اچھلنے کی بات اس لیے نہیں کہ تمام جائیدادیں قانونی ہیں۔ سب کے کاغذ پورے ہیں۔ بلکہ میں تو دعاگو ہوں کہ زرداری خاندان، شریف خاندان، اومنی گروپ اور ایس ایس پی راؤ انوار اور درجن بھر ریٹائرڈ جرنیلوں سمیت جن سترہ ہزار پاکستانی شہریوں کو یہ جائیدادیں خریدنا نصیب ہوا، اللہ ان کی خون پسینے کی کمائی میں اور برکت دے (آمین)۔
مجھ جیسے کنگلوں کی تو بس اتنی سی خواہش ہے کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ پاکستان کے خوار شہری کو سر چھپانے کے لیے تین مرلہ فی کنبہ پلاٹ رعایتی قیمت پر فائلوں کے بجائے زمین پر مل جائے۔
ایک ہسپتالی بستر دو دو کے بجائے صرف ایک مریض کو میسر ہو تو کیا ہی کہنے۔۔ اور بستر اتنے ہوں کہ مریض وارڈوں کے فرش یا برآمدوں میں نہ لیٹے ہوں۔ جان بچانے والی دواؤں کی قیمت بھلے آسمان چُھولے مگر کم از کم دستیاب ہوں اور جعلی نہ ہوں تو مزہ آ جائے۔
جو دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے تعلیم کا منھ نہیں دیکھ پاتے یہ ان کی قسمت۔۔ البتہ جن کے داخلے ہو چکے ہیں، ان کے اسکولوں میں پینے کا پانی، بیت الخلا، چار دیواری اور فرنیچر بھلے نہ بھی ہو تو چلے گا، تاہم ایک ایسا استاد ضرور مقرر ہو، جسے اپنا مضمون پڑھانا آتا ہو اور وہ اپنی جگہ کسی ملازم یا دوست کو حاضری لگوانے کے لیے نہ بھیجا کرے۔
سڑکیں بھلے نہ بنوائیں مگر جو تھوڑی بہت بنوائیں، وہ کاغذ کے بجائے زمین پر دکھائی دیں اور کم از کم اتنی سخت جان ضرور ہوں کہ مون سون کی ایک بارش تو جَھیل جائیں، تاکہ ایک ہی سڑک سال میں تین تین بار بنانے کا ڈھونگ نہ دیکھنا پڑے۔
عام شہری کو کسی بھی دیدہ نادیدہ جرم میں بھلے پکڑ لیں، کوئی مسئلہ نہیں، مگر اس کو تشدد یا پولیس مقابلے میں مارتے وقت بس یہ نہ کہیں کہ قیدی تفتیش کے دوران دل کا دورہ پڑنے یا پولیس کی گرفت سے فرار ہوتے ہوئے مارا گیا۔
اسی طرح اگر جبری اغوا کے برس ہا برس بعد کوئی ’مبینہ دہشت گرد یا ملک دشمن‘ لاش کی شکل اختیار کر لے تو مردہ کسی سناٹے میں نہ پھینکیں بلکہ چپ چاپ گھر والوں کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اس فانی دنیا میں تدفین کی عیاشی تو پا لے۔۔ یعنی لاش کو عزت دو۔
یہ ملک کون چلا رہا ہے، کیوں چلا رہا ہے؟ اس کے بنیادی اقتصادی، سماجی و سیاسی مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟ حل کیا ہے اور کن کے پاس ہے؟ یہ سب بے کار کے سوالات ہیں۔۔ بس اتنی سی بات ہے کہ آئین، قانون، جمہوریت، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق اور قومی اتحاد جیسی کھوکھلی اصطلاحات کی مقدار اپنے بیانات میں ذرا سی کم رکھیں تاکہ زخموں پر نمک کی مقدار بھی کچھ گَھٹ جائے اور وہ ناسور نہ بن جائیں۔
قانونی و نیم قانونی جوازوں اور من مرضی منطق کی آڑ میں قومی اثاثوں کی لوٹ مار، بندر بانٹ اور کلیرنس سیل سے عام آدمی کا کوئی سروکار نہیں، اس کی وضاحت و صفائی بھی کوئی نہیں مانگ رہا نہ مانگ سکتا ہے۔ بس آخر میں اتنا رہنے دیجیے گا، جتنا دوبارہ دہی جمانے کے لیے ’جامن یا جاگ‘ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
رہی دال روٹی، بجلی گیس کی مہنگائی تو اس کا ذمہ دار آئی ایم ایف ہے۔۔ لہٰذا آپ اس سے بھی بری ہیں۔
جیوندے رہو صاحب بہادر، جگ جگ جیو میرے آقا۔ بھاگ لگے رہن موتیاں والیو۔۔۔۔
بشکریہ بی بی سی اردو۔