کراچی کی ساحلی پٹی کو بھی کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر غور کیا جا رہا ہے۔ جہاں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ساحلی پٹی پر ایک اور ڈیفنس ہاؤس اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے قیام کے منصوبے پر کوششیں جاری ہیں۔ زرعی اراضی اور قدرتی جنگلات پر ایک نیا شہر بسایا جائے گا، جس سے کراچی شہر کے ’ہیٹ ویو‘ میں مزید اضافہ ہوگا۔
ڈی ایچ اے ہاکس بے کے منصوبے سے ’انڈیجینس کمیونٹی‘ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ یہ منصوبہ چھ ہزار ایکڑ پرمحیط ہوگا، جو ہاکس بے کی ساحلی پٹی سے شروع ہو کر حب ندی کے کنارے سے ہوتا ہوا ’سنہرا بیچ‘ کے قریب ختم ہوگا۔ اس منصوبے میں دیہہ لال بکھر، دیہہ چھتارہ، دیہہ میندیاری اور دیہہ اللہ بنوں کے علاقے شامل ہوں گے۔
اس حوالے سے پاکستان ڈیفنس آفیسرز ہاؤسنگ اتھارٹی نے سندھ حکومت کو ایک لیٹر لکھ دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایچ اے کراچی کو مزید توسیع دینے کے لئےچھ ہزار ایکڑ اراضی ساحلی پٹی پر درکار ہے۔ مزید لکھا ہے کہ یہ منصوبہ شہدا کی فیملیز اور فوجی افسران کے لئے ہوگا۔ حالانکہ اس سےقبل بھی ڈی ایچ اے کراچی کو توسیع دیتے ہوئے سپرہائی وے پر بارہ ہزار ایکڑ اراضی دی گئی تھی، جہاں ڈی ایچ اے ’فیز نائن‘ اور ’فیز ٹین‘ بننے جا رہا ہے۔
’ہاکس بے‘ سے لے کر ’سنہرا‘ تک کے منصوبے کے قیام سے انڈیجینس کمیونٹی اپنی جدی پشتی زرعی اراضی سے محروم ہو جائے گی۔ جہاں کا ذریعہ معاش زراعت اور ماہی گیری سے منسلک ہے۔ یہاں پاکستان کے بننے سے پہلے کی قدیم بستیاں قائم ہیں، جہاں سینکڑوں سالوں سے لوگ آباد ہیں۔ ان علاقوں میں مقامی لوگوں کی زرعی اراضی کے علاوہ پولٹری فارمز بھی قائم ہیں، جس سے ان کا گزر بسر ہوتا ہے۔
مقامی افراد نےخدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس منصوبے سے ان کی آباد زندگی اجڑ جائے گی اور وہ ڈیموگرافک تبدیلی کا شکارہوں گے۔
اس وقت سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہے اور مذکورہ علاقے پیپلز پارٹی کا گڑھ مانے جاتے ہیں، جہاں سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوتے رہتے ہیں۔ اس منصوبےکے قیام کے بعد پیپلز پارٹی کا ’ووٹ بینک‘ ہمیشہ کے لئے اقلیت میں تبدیل ہوگا۔ اگر سندھ حکومت نے اس منصوبے کی منظوری دی تو یہ اَپنے پیر پَر کُلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ پیپلزپارٹی آئندہ ہونے والے انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی نشستیں کھو دے گی۔ اس کے بعد ڈی ایچ اے ہاکس بے میں بسنے والی آبادی کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ دوسری جانب مقامی افراد کی اراضی زبردستی چھیننے سے پیپلز پارٹی کے ووٹرز پارٹی سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت یعنی بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری نے کرنا ہے۔
مقامی افراد کے پاس زیادہ تر ‘فارم سکس‘ کی زرعی اراضی موجود ہیں۔ ان دستاویزات کی ایک قانونی حیثیت ہے مگر سندھ حکومت کی کرپٹ بیوروکریسی اس قانونی ڈاکومنٹس سے منہ موڑ لیتی ہے اور بڑے بڑے بلڈرز سے پیسے بٹور کر ان کے حوالے کر دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو چاہیئے کہ انڈیجینس کمیونٹی کو ایک ’اسپیشل آئینی پیکج‘ دیں اور ان کے ’فارم سکس‘ کی اراضی کو ’فارم سیون‘ میں تبدیل کریں اور صدیوں سے آباد گوٹھوں کو مزید توسیع دیں، جو یہاں کے مقامی سندھی اور بلوچوں کا حق بنتا ہے۔
ڈی ایچ اے ہاکس بے کے علاوہ مبارک ولیج سے لےکر ’کیپ ماؤنز‘ (راس موری) سے ہوتا ہوا سنہرا بیچ تک تَقْرِیباً گیارہ ہزار ایکڑ اراضی پر پاکستان نیوی نے اپنے نشانات لگائے ہیں، تاہم سندھ حکومت نے پاکستان نیوی کو مذکورہ اراضی ’ہینڈ اوور‘ نہیں کی, ۔ جس کے باعث مبارک ولیج کے بلوچ ماہی گیروں اور حکام کے درمیان زمینی تنازعہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، کیونکہ مبارک ولیج کی آبادی گنجان ہو گئی ہے۔ گوٹھ کو مزید توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ مبارک ولیج تین سو سال پرانی قدیم آبادی ہے، جس کا قدیمی نام ’بنگلو‘ ہے۔ تاریخی طورپر ’آبنائے ہرمز‘ (ایران) سے لے کر ’بنگلو‘ بلوچ گلزمین ہے اور بلوچ قوم کبھی بھی اپنی ’وراثت‘ سے دستبردارنہیں ہوگی۔ اس ساحلی پٹی کو بلوچی میں ’بحرہ بلوچ‘ کہا جاتا ہے۔
مبارک ولیج، کیپ ماؤنز اور سنہرا کے علاقے میں ایک قدرتی جنگل ہے، جہاں ہر قسم کے جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں۔ جن میں گیدڑ، لومڑی، خرگوش، جنگلی بلی، تیتر، تلور، بٹیر، باز، کوبرا سانپ سمیت دیگر شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اس علاقے میں نایاب سمندری مخلوق موجود ہیں، جن میں وہیل، ڈولفن اور کچھوے شامل ہیں۔ اب اس سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر "میرین پروٹیکٹڈ ایریا” (ایم پی اے) کا قانون موجود ہے، جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں۔ جبکہ جنگلی جانوروں کو تحفظ دینے کے لئے جنگلی حیات کو تحفظ دینے کے لئے "وائلڈ لائف سینکچوری” کا قانون بھی موجود ہے۔ میں (راقم) نے مذکورہ علاقے میں پائے جانے والے نایاب سمندری حیات اور جنگلی حیات کو تحفظ دینے کے لئے "میرین پروٹیکٹڈ ایریا” اور "وائلڈ لائف سینکچوری” قوانین کے مطابق ایک "پریزنٹیشن” تیار کی تھی۔ مذکورہ علاقے کے رکن قومی اسمبلی اورسابق وفاقی وزیرعبدالقادر پٹیل نے میری تیار کی گئی "پریزنٹیشن” سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کو دی تھی۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے مذکورہ علاقے کو "میرین پروٹیکٹڈ ایریا” اور”وائلڈ لائف سینکچوری” قراردینے کی منظوری بھی دی تھی۔ اور یہ معاملہ ہنوز بھی سرکاری فائلوں میں زیرِغور ہے۔ رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل "میرین پروٹیکٹڈ ایریا” اور "وائلڈ لائف سینکچوری” کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے اگر اس منصوبے پر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو کراچی کے شہریوں کو ایک ’میرین پروٹیکٹڈ ایریا‘ اور ایک ’وائلڈ لائف سینکچوری‘ مل جائے گی، جس سے نہ صرف یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات تعلیمی حوالے سے مستفید ہو سکتے ہیں بلکہ کراچی ’گلوبل وارمنگ‘ جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھ سکے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔‘ کیا سویلین حکومت کو اتنی جرأت و ہمت ہوگی کہ وہ اداروں کو ناراض کر سکے۔؟
اس وقت گلوبل وارمنگ، دہشتگردی جیسے چیلنج سے زیادہ گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں ملک میں ہر سال ہتھیاروں سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی سے اموات ہوتی ہیں۔ ایک غیر ملکی تحقیقی ادارے ’انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوایشن‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 25 ہزار افراد آلودگی سے ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ دہشتگردی کے خلاف برسوں سے جاری جنگ میں اب تک 60 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔ پاکستان آلودگی سے ہلاکتوں میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔
سنہ 2015 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو لکھے گئے خط میں کراچی کے سمندر میں ڈوب جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ وہ خط گلوبل وارمنگ کے تناظر میں لکھا گیا تھا اور خط میں مزید کہا گیا تھا کہ اگر فوری طور پر توجہ نہیں دی گئی تو 2060 تک کراچی، ٹھٹہ اور بدین سمیت سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے سمندر میں تبدیل ہو جائیں گے۔
اس وقت موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ٹھٹہ اور بدین میں دو ملین ایکڑ اراضی کو سمندر نگل چکا ہے جبکہ بلوچستان کے ساحلی شہر گڈانی میں سمندری کٹاؤ جاری ہے۔ گڈانی شہر کی آدھی اراضی کو سمندر نگل چکا ہے۔ اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ علاوہ ازیں سنہرا بیچ کے مقام پر سمندری پانی مبارک ولیج سڑک کےقریب پہنچ گیا ہے۔ کسی بھی وقت سمندر مبارک ولیج کی سڑک کو کھا جائے گا اور شہر سے مبارک ولیج کا رابطہ منقطع ہو سکتا ہے۔
کیونکہ کراچی سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔ گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے بہترین راستہ جنگلات کی حفاظت ہے۔ درخت اور پودے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کردیتے ہیں اور ماحول میں اس کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ جنگلات کسی بھی ملک یا شہر کی معیشت کا لازمی جز ہیں۔ ملک کی متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات پھیلے ہوں۔ جنگلات قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ کراچی میں صرف 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں اور وہ جنگلات بھی ساحلی پٹی پر قائم ہیں۔ ان جنگلات کو بھی نئے نئے شہروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جہاں بڑی بڑی ہاؤسنگ اسکیمز بنائے جارہے ہیں۔
ہمارے سامنے متحدہ عرب امارات کی مثال موجود ہے، جس نے مصنوعی بارشیں کروائیں اور قدرت کے ساتھ کھلواڑ کیا جس کے نتیجےمیں طوفانی بارشوں نے متحدہ عرب امارات کو ڈبو دیا۔
اگر کراچی شہر کو بچانا ہے تو کراچی کی ساحلی پٹی پر نئے بننے والی ڈی ایچ اے ہاکس بے کے منصوبے کو ترک کرنا پڑے گا۔ اور مبارک ولیج کے اطراف میں پاکستان نیوی کو دینے کے بجائے اس اراضی کو ’میرین پروٹیکٹڈ ایریا‘ اور ’وائلڈ لائف سینکچوری‘ میں تبدیل کیا جائے۔ وگرنہ کراچی شہرکی آبادی صفحہِ ہستی سے مٹ سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی اب نہیں رہا۔ یہ شہر لاوارث ہو گیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ "جاگ کراچی جاگ” کا نعرہ لگانا پڑے گا۔
بشکریہ روزنامہ انتخاب، کوئٹہ۔