’آنکھوں میں کیسے خواب لیے تم کسی سفر پہ نکلتے ہو اور جب واپس آتے ہو تو تمہاری پیشانی پہ کتنی تعبیریں نہ ملنے کا غم درج ہوتا ہے۔
’تم خوشی اور نئے تجربوں کی آس میں نکلتے ہو اور واپسی پہ تمہارے ہاتھوں میں تھکن اور چند تصویروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
’سفر کی رغبت ایک مسلسل مایوسی اور اداسی کے علاوہ کیا ہے؟
’شاید یہ سفر اس وقت شروع ہوتا ہے، جب تم اپنے آپ سے گھبرا جاتے ہو، اکتائے ہوتے ہو اور نئی دنیا کی تلاش میں نکلنا چاہتے ہو، لیکن واپسی۔۔۔ واپسی تو اپنے اندر ہونی ہے اور کسی بھی وقت ہو جانی ہے، اس سے کب تک بھاگو گے؟‘
ایک شدید مصروف شہر کے بیچوں بیچ استاد جی اپنے چوبارے پہ رہتے تھے۔ گرمی، سردی، بہار، خزاں، ان کا ٹھکانہ وہی تھا۔ ہم لوگ، ان کے شاگرد، پتہ نہیں کہاں کہاں کی سیریں کر کے آتے اور انہیں اپنی کہانیاں سنایا کرتے۔ وہ ایک مطمئن اور بے نیاز قسم کی مسکراہٹ لیے سب کچھ سنتے اور بغیر کوئی سوال کیے ساتھ موجود کتاب اٹھا لیتے۔
ان کی ایک لگی بندھی روٹین تھی۔ صبح چار پانچ بجے سونا، دن چڑھے جاگنا، دو انڈے دو سلائس کا ناشتہ کرنا، کڑک قسم کی دودھ پتی پینا اور نہا دھو کے اخبار پڑھنے قریبی ہوٹل چلے جانا۔
باہر کی دنیا اتنی مصروف تھی جتنا کوئی جھوٹ بولے۔ رکشوں کا شور، موٹرسائیکلوں کی آواز، دو مخالف پارٹیوں کے لاؤڈ اسپیکر، گاڑیوں کے ہارن اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ، لیکن شام کو جس وقت ہم ان سے ملنے جاتے، وہ سب کچھ باہر ہی رہ جاتا۔ کمرہ کبھی کبھی ان سے بھی زیادہ پرسکون حالت میں ہوتا۔
ایک شام شدید بارش تھی، کوئی اور کام کرنے کو تھا بھی نہیں، ہم دو تین دوست استاد جی کی طرف جا کے بیٹھ گئے۔
بات وہ اسی وقت کرتے تھے جب اپن لوگ کوئی سوال کرتے۔ ہم میں سے ایک نے پوچھا کہ ’استاد جی کس طرح آپ ساری زندگی اس کمرے میں گزار گئے ہیں، کھڑکی تک کھول کے باہر لوگوں کو نہیں دیکھتے، کیا آپ کو خواہش بھی نہیں ہوتی کہ ایک دن کسی اجنبی ساحل کی گیلی ریت آپ کے پیروں تلے گدگدی کرتی ہوئی سرک رہی ہو، کوئی عالیشان پرانی عمارت آپ کو اپنی کہانی سنائے، کوئی نئے ذائقے ہوں، نئے لوگ ہوں۔۔۔ دس پندرہ دن کے لیے ہی سہی لیکن آپ اپنے اس پیلی روشنی والے اداس کمرے سے باہر ہوں، کبھی دل تک نہیں کرتا؟‘
استاد جی دیواروں کے پار کہیں دیکھ رہے تھے۔ دوبارہ پوچھا، ’سر کبھی دل نہیں کرتا گھومنے گھامنے کو؟ اپنی دنیا سے باہر نکلنے کو؟‘
وہ بڑے پرسکون طریقے سے زون میں آئے اور تب باہر برستی بارش کی آواز کے ساتھ اس دن جو جو کچھ ہمارے کان سن رہے تھے، ان میں سے کچھ باتیں میں اوپر کہہ چکا، باقی یوں تھیں:
’بیٹا میں نے لوگوں کی مہم جوئیاں دیکھی ہیں، لیکن انہی کی توقعات کو ادھورا رہتے بھی دیکھا ہے۔ وہ اپنی بے چینی دور کرنے دور دراز ملکوں میں جاتے تھے، عجائبات دیکھتے تھے، خطروں کا سامنا کرتے تھے لیکن خالی ہاتھ جب وہ لوٹتے تو اگلے سفر کی ہڑک ان کے دل کو لگی ہوتی تھی۔
’میں نے انہیں کہیں رکتے نہیں دیکھا، اِلا یہ کہ انہیں موت آ گئی۔ مرنا سب کو ہے، کسے انکار ہے؟ لیکن مجھے اگر اپنی زندگی اسی شہر میں گزارتے ہوئے سکون سے کسی دن یہیں مر جانا پسند ہو تو میں کیوں نکلوں باہر؟
’اس میں برائی کیا ہے؟ میرا ہر اگلا دن کیسا ہوگا، مجھے علم ہے، تم سب کو بھی پتہ ہے۔ ابھی دیکھو، باہر بارش ہو رہی ہے، میں آرام سے تم لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ تم جاؤ گے تو کافی بناؤں گا اور چھوٹے چھوٹے گھونٹوں کے ساتھ یہ کتاب پڑھنے میں لگ جاؤں گا۔ وہ سب کچھ، جسے دیکھنے کی خواہش میں تم دنیا گھومتے ہو، مجھے ان صفحوں پر مل چکا ہے۔ میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو سوئٹزر لینڈ بھی گھوم سکتا ہوں اور آنکھیں کھول لوں تو سب کچھ میرے سامنے ہے۔ ٹیڑھے میڑھے راستے ہیں، پرپیچ گلیاں ہیں، غار ہیں، پہاڑ ہیں، دنیا کی پیچیدگی ہے، تصوراتی مخلوق، دور دراز کے پراسرار نئے جہان، سبھی کچھ ہے ان صفحوں میں۔۔ اور میں ان سب کے ساتھ یہاں رہتا ہوں، باہر قدم رکھے بغیر ان سے زیادہ مطمئن ہوں، جن کے پاسپورٹ ٹھپوں سے بھرے ہوتے ہیں۔
’مجھے لگتا ہے میں جس دن سیر کو نکلا، گم ہو جاؤں گا۔ یہاں اس کمرے میں آنکھیں بند کر کے میں گھوم سکتا ہوں۔ سو کے اٹھوں تو بغیر بتی جلائے اندازہ ہوتا ہے کدھر ضرورت کی کون سی چیز پڑی ہوگی، میں کیوں خود کو بے سکونی میں ڈالوں؟
’عقل کا سفر جسم کے سفر سے مشروط نہیں ہوتا یار۔۔ فلمیں دیکھنے والوں کے پاس بھی اتنا ہی علم ہو سکتا ہے، جتنا کتابیں پڑھنے والے کے پاس، تو یہی معاملہ سفر کا ہے۔ یہاں موجود ہوں لیکن ہر براعظم میری دسترس میں ہے، یہ فون، یہ انٹرنیٹ، ان کی بھی کیا ضرورت ہے بتاؤ؟ اتنا کیوں جانوں کہ جسے ہضم کرنے کے لیے مجھے کہیں چلنے پھرنے کی خواہش ہو؟‘
تو اس دن جب ہم نے استاد جی سے رخصت لے کر دروازہ کھولا اور شہر کی آوازوں نے ہمیں خوش آمدید کہا تو ہم جان چکے تھے کہ اس کمرے کی دیواروں کے اندر عین ویسی ہی ایک دنیا آباد ہے، جیسی کہ وہ جس میں ہم قدم بڑھاتے اپنی اگلی منزل کو جا رہے ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ استاد جی کی دنیا میں شور نہیں ہے، فالتو کی جلدیاں نہیں ہیں، لمبی قطاریں نہیں ہیں، پیسے کی ضرورت محدود ہے، کل کا خوف نہیں ہے، رنگ برنگے کھانے نہیں ہیں، گھڑیوں کے الارم نہیں ہیں، ڈیجیٹل بے چینی نہیں ہے اور سفر کی رنگینیاں نہیں ہیں۔
لیکن یہ دنیا ہر کسی کی قسمت میں بھی نہیں ہے!
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)