بچن کا پچھتاوا اور کنگنا کی طراری: فلم اسٹار سیاست میں کیا لینے جاتے ہیں؟

فاروق اعظم

140 سے زیادہ فلمیں کرنے کے بعد چھ بار وزیر اعلیٰ بننا، حیران کن ہے نا؟ ہم میں سے کتنوں کو فلم اسٹار اور سیاست دان جے للیتا کی طرح زندگی ایسا موقع دے تو ہم انکار کریں گے؟

جب تک میسر نہیں پیسہ اور حسن ہی سب کچھ نظر آتا ہے۔ مل جائے تو انسانی خواہشات کی بریک نہیں لگتی۔ اس کی ایک مثال فلمی ستاروں کا سیاست کے میدان میں قدم رکھنا ہے۔

1983 میں من موہن ڈیسائی کی فلم ’قلی‘ کی شوٹنگ کے دوران امیتابھ بچن کو غیر معمولی چوٹ لگی اور وہ سیٹ سے ہسپتال جا پہنچے۔

یہ خبر ملک میں متعدی بخار کی طرح پھیل گئی اور دور دراز دیہی علاقوں تک لوگ سب کام چھوڑ کر دیوی دیوتاؤں سے پرارتھنا کرنے لگے۔ انہیں ہر حال میں اپنا سپر اسٹار تندرست حالت میں دیکھنا تھا۔

ہمدردی اور سپر اسٹارڈم کی یہی لہر تھی، جس نے امیتابھ بچن کو فلم سے سیاست کے میدان میں لاکھڑا کیا۔

اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی نے پارٹی سنبھالی تو امیتابھ سے کانگریس کی مہم چلانے اور پارٹی میں شمولیت کی درخواست کی۔

بچن صاحب کے بقول ’گاندھی خاندان سے پرانا رشتہ انکار کے آڑے آیا۔ مجھے لگا مشکل وقت میں ایک دوست دوسرے دوست کے پاس آیا ہے انکار کیسے کروں۔ یہیں میں نے ایک جذباتی فیصلہ کیا جس پر 40 سال بعد بھی پچھتاوا ہوتا ہے۔‘

بچن صاحب الہ آباد سے ریکارڈ ساز مارجن سے جیتے اور پارلیمنٹ میں جا پہنچے۔ راجیو گاندھی کے قریب ترین دوست اور بالی وڈ کے سب سے بڑے سٹار سیاست میں آ کر ایسے حیران و پریشاں تھے جیسے گاؤں سے اٹھ کر کوئی بچہ پہلی بار کراچی یا لاہور جیسے بڑے شہر پہنچ جائے۔

اگر وہ دو ہفتے اپنے حلقے میں نہ جاتے تو لوگ ’تلاش گمشدہ‘ کے پوسٹر اٹھا کر سڑکوں پر انہیں تلاش کر رہے ہوتے تھے۔

سال ڈیڑھ بعد ایک اسکینڈل آیا کہ سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی سے ڈیل کرتے ہوئے بچن صاحب نے دیہاڑی لگائی ہے۔ میڈیا میں طوفان برپا ہو گیا۔

2012 میں بچن صاحب کو کلین چٹ دے دی گئی، مگر وہ آج تک صفائیاں دیتے پھرتے ہیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔

بچن دوبارہ فلموں میں آئے اور ایک بار پھر خود کو بالی وڈ کا شہنشاہ ثابت کیا، مگر سوال یہ ہے کہ وہ سیاست میں کیا کرنے گئے تھے؟

فلم اسٹار کے پاس شہرت ہے، دولت اور حسن ہے، پھر سیاست سے کیا چاہتا ہے؟ پرتھوی راج کپور کو ان کے نظریاتی ساتھی اور دوست نہرو نے ایوان بالا کا رکن منتخب کروایا۔

پرتھوی جی کے ساتھ جن لوگوں نے کام کیا ان کی گواہی ریکارڈ پر ہے۔ اگر وہ کہیں کہ ’عوامی خدمت‘ کے لیے سیاست کا رخ کیا تو سمجھ میں آتا ہے مگر امیتابھ بچن، راجیش کھنہ، شترو گھن سنہا، نرگس، ہیما مالنی اور کنگنا رناوت جیسے لوگوں کے منہ سے ’جنتا کی سیوا‘ مخول لگتا ہے۔

ہیما مالنی متھرا سے لگاتار تیسری بار لوک سبھا کا انتخاب جیت چکی ہیں۔ حالیہ انڈین الیکشن کے موقعے پر انہوں نے ٹوئٹر پر اپنی کچھ تصویریں شیئر کیں جن میں وہ درانتی تھامے گندم کاٹ رہی ہیں۔

ان کے ساتھ دیہی خواتین تصاویر میں موجود ہیں۔ تصویر31 مئی کو لی گئی ہے۔ دوپہر کا وقت ہے جس سے دیکھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کون سے کسان اس تپتی دوپہر میں کھیتوں میں گندم کاٹنے جاتے ہیں۔

پھر ذرا ان لوگوں کے لباس دیکھیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ انہیں صاف ستھرے کپڑے مہیا کیے گئے تاکہ بنی ٹھنی ’ڈریم گرل‘ کو کراہت محسوس نہ ہو۔ ایسا اجلا لباس غریبوں کو بھلا کہاں نصیب ہوتا ہے۔

کنگنا راناوت نے ہماچل پردیش کے ایک حلقے سے چھ بار کے وزیر اعلیٰ ویر بھدرا سنگھ کے بیٹے اور ریاست میں کانگریس کی سربراہ پرتیبھا سنگھ کو شکست دی۔

وہ مودی جی کی پرستار ہیں اور جتنی تیز طرار ہیں عجب نہیں کوئی وزارت نہ لے اڑیں۔ جیت کے بعد ان کا بھی کہنا تھا کہ ’عوامی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دوں گی۔‘

عوامی خدمت تو بس چورن ہے۔ یہ لوگ نہ پرتھوی راج کی طرح زندگی کی مشکلات سے گزرے ہیں نہ انہیں اندازہ ہے۔

یہ اشرافیہ کا حصہ ہیں جو اپنی طاقت منواتے اور اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ فلم ان کے لیے ایک گلیمر تھا، سیاست بھی ایک گلیمر سے زیادہ کچھ نہیں۔

آپ سوچ سکتے ہیں کہ ’امراؤ جان‘ سے امر ہونے والی ریکھا بھی خصوصی نشست پر پارلیمان کی رکن ہیں۔

کہاں ہمارے ذہنوں پر لکھنؤ کی طوائف کی شبیہ نقش کرنے والی، چھلکتی ہوئی شراب جیسی تیکھی رس بھری حسینہ اور کہاں پارلیمنٹ کے ایوان میں جھاگ اڑاتے سیاست دان۔

ریکھا منتخب ہو گئیں اب ان کا کام ختم۔ ان کے نام ریکارڈ بن چکا ہے کہ پارلیمان میں سب سے کم حاضر ہونے والی ممبر ہیں۔

بھئی جب آنا ہی نہیں تو رکنیت لے کر کیا کرنا تھا؟ شاید انہیں احساس تحفظ ملتا ہے کہ وہ آج بھی اہم ہیں۔ وہ خود کو یقین دلانا چاہتی ہیں۔

بالی وڈ میں سے کسی نے سیاست کو سنجیدہ نہیں لیا۔ دوسری طرف تمل ناڈو میں جے للیتا کے مداحوں کی تعداد کا بالی وڈ ستارے صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔

جے للیتا اتنی مشہور ہیں کہ ان کی 2016 میں وفات کے بعد سے اب تک پانچ سوانحی فلمیں پروڈکشن میں جا چکی ہیں اور مزید فلم ساز بھی اپنے منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں۔

انہوں نے سیاست میں آ کر ایسی متحرک اننگز کھیلی کہ کوئی سیاست دان بھی کیا کھیلے گا۔ چھ بار وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں اور فلموں سے جو شہرت کمائی تھی سیاست سے اس میں اضافہ ہی کیا۔

امیتابھ بچن صاحب سمجھ دار نکلے، جلد فلموں کی طرف لوٹ گئے۔ ہیما مالنی وغیرہ کے لیے سیاست محض سرگرمی ہے کہ زندگی میں سب کچھ ہے اب کچھ نہ کچھ کرنے کو بھی تو چاہیے۔

کنگا رناوت جوان اور تازہ دم ہیں۔ ان کے عزائم غیر معمولی ہیں۔ زبان کی تیزی ان کے کام آئے گی۔

1991 میں راجیش کھنہ کانگریس کی طرف سے نئی دہلی کی سیٹ پر لال کرشن اڈوانی کے مقابلے میں اترے۔ سپرسٹار محض 15 سو ووٹوں سے ہار گئے۔

اڈوانی نے یہ سیٹ چھوڑ دی تو ضمنی الیکشن میں کاکا اور شترو گھن سنہا مدمقابل آئے۔

شتروگھن سنہا کے مطابق انہیں ’زندگی میں سب سے زیادہ افسوس نئی دہلی کی سیٹ پر راجیش کھنہ کے خلاف الیکشن لڑنے کا ہے، کیوں کہ اس کے بعد میں ایک ایسے دوست سے محروم ہو گیا جس سے روز کا ملنا جلنا تھا۔‘

شترو گھن سنہا راجیش کھنہ کے قریب ترین دوستوں میں سے ایک تھے۔ انہیں الیکشن میں بھی شکست ہوئی اور کاکا جیسا دوست بھی کھو دیا۔

شترو جی گذشتہ 30 برس سے سیاست میں ہیں اور ابھی چند روز پہلے بھی جیت کر آئے ہیں۔ انہوں نے ایسا کیا تیر مار لیا ہے؟

مگر طاقت کے ایوان، ٹی وی سکرین کا نشہ اور سب سے بڑھ کر اپنی موجودگی ظاہر کرنے کی ازلی و ارزل انسانی خواہش۔

ہم سوچتے ہیں اتنا پیسہ آ جائے تو کسی ساحل سمندر پر لیٹے قطرہ قطرہ زندگی کا رس چوستے رہیں، ساتھ پنچم اور گلزار کے گیت ہوں۔

مگر یہ فلم اسٹار پہلے سینیما سے عزت کماتے ہیں، پھر اسے برباد کرنے کے لیے سیاست کا رخ کرتے ہیں۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close