میں نے جب پہلی دفعہ کینیڈا میں اپنے سائیکو تھراپی کلینک کی دیواروں پر قدرتی مناظر، جانوروں اور پرندوں کی تصویریں لٹکائی تھیں تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کا کوئی تعلق نفسیاتی علاج سے بھی ہو سکتا ہے لیکن میری مریضہ نیٹیلی نے مجھے ان کے بارے میں نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ویسے تو مجھے بچپن سے تصویریں اتارنے کا شوق تھا لیکن اس شوق میں اضافہ اس وقت ہوا جب مجھے سان فرانسسکو کے سفر کے دوران ایک ایسا کیمرہ ملا جو بیک وقت آٹومیٹک بھی تھا اور اس میں زوم لینز بھی تھا۔ یہ سیل فون کے دور سے بہت پہلے کی بات ہے۔
اس کیمرے کو خریدنے کے بعد میں نے مختلف ممالک کے سفر کے دوران بہت سے مناظر کی تصویریں اتاریں اور پھر ان میں سے چند ایک اپنے کلینک کی دیواروں پر لگا لیں۔ کلینک کی دیواروں پر لٹکی تصویروں میں سے
ایک و ینیزویلا کے غروبِ آفتاب کی تھی،
ایک میں باربیڈوس کا ایک کچھوا پودے کے پتے کھا رہا تھا،
ایک میں کینیڈا کا ایک آبی پرندہ جھیل کے ساحل پر ایک ٹانگ پر کھڑا تھا
اور ایک نیاگرا فالز کی تھی جس میں بہت سے پرندے ہوا میں اڑ رہے تھے۔ یہ تصویریں کلینک کی دیواروں پر ایک سال سے لٹکی ہوئی تھیں اور پھر میری ملاقات نیٹیلی سے ہوئی جس نے مجھے ان تصاویر کے بارے میں نئے انداز سے سوچنے کی دعوت دی۔
نیٹیلی سے میری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب اسے ہسپتال کے ایک وارڈ سے ہسپتال کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کی سزا میں نکال دیا گیا تھا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ مجھے اپنے دفتر کے ایک کونے میں ایک کرسی میں دبکی ہوئی ملی۔ وہ شکل سے چوبیس پچیس برس کی عورت نظر آ رہی تھی۔ اس کا جسم کافی فربہ تھا۔ وہ ایک سٹفڈ نما جانور کو اپنی آغوش میں دبائے بیٹھی تھی۔
میں نے، ہیلو، کہا تو اس نے مجھے غصے میں گھورا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو پھر بھی اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے پوچھا،
آپ کے پاس یہ کس قسم کا کھلونا ہے؟
میرا یہ کہنا تھا کہ وہ غصے میں چیخی
“میں نے کسی مرد سے علاج نہیں کروانا۔ میں ایک عورت تھراپسٹ سے علاج کروانا چاہتی ہوں”۔
میں نے اسے بتایا کہ میرے ساتھ کئی نرسیں کام کرتی ہیں اور اگر اس کی خواہش ہے کہ وہ کسی عورت سے علاج کروائے تو میں اس کا انتظام کروا سکتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اس کا تعارف اپنی نرس جون سے کروایا۔
اگلے ہفتے جب میں جون اور نیٹیلی سے ملا تو نیٹیلی نے مجھ سے کہا ”میں سب مردوں سے نفرت کرتی ہوں اور تم سے سب سے زیادہ“
میں نے کہا ”تمہیں نفرت کرنے کا حق ہے لیکن مجھ سے کون سی خطا سرزد ہوئی ہے؟“
کہنے لگی ”تم نے میرے دوست کو ( اس نے اپنے پرندے نما جانور کی طرف اشارہ کیا) کھلونا کہا تھا۔ یہ اس کی بھی توہین ہے اور میری بھی“۔
میں نے جواب دیا ”میرا مقصد خیریت پوچھنا تھا توہین کرنا نہیں تھا۔ میں معذرت کرتا ہوں۔ آئندہ سے محتاط رہوں گا“
اس کے بعد ہم نے چند منٹ باتیں کیں اور وہ جون کے ساتھ چلی گئی۔ اس میٹنگ میں اس نے مجھ سے ہر ہفتے ملنے کا وعدہ کر لیا۔
اگلے ہفتے آئی تو کہنے لگی
”میں تمہارے دفتر میں کرسی پر نہیں زمین پر بیٹھوں گی“
میں انتظار گاہ سے اس کے لیے ایک کشن لے آیا تا کہ وہ ٹھنڈے فرش پر نہ بیٹھے۔ اس نے وہ کشن قبول کر لیا۔
نیٹیلی نے مجھے اگلے دو انٹرویوز میں بتایا کہ وہ انسانوں سے نفرت کرتی ہے اور پرندوں اور جانوروں سے محبت۔ وہ نہ تو کسی انسان کو چھوتی ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے آپ کو چھونے دیتی ہے۔ وہ عورت میرے لیے ایک معمہ بن گئی تھی۔
ایک دن کہنے لگی ”میں کبھی کبھار نظمیں لکھتی ہوں“
میں نے کہا، میں انہیں پڑھنا چاہوں گا۔
اگلے ہفتے وہ اپنی ڈائری تو لے آئی لیکن مجھے نہ دی۔ کہنے لگی ”میں ابھی تم پر اعتبار نہیں کرتی“ ۔ میں نے بھی اصرار نہیں کیا۔
اس سے اگلے ہفتے کہنے لگی
”میں تمہیں ڈائری تو دے دوں گی لیکن اسے میرے جانے کے بعد پڑھنا“۔
اس کے جانے کے بعد جب میں نے اس کی نظمیں پڑھیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ اسے بچپن میں اس کے والد نے جسمانی، ذہنی اور جنسی طور پر اذیتیں پہنچائی تھیں۔ جب اس کی ماں کو پتہ چلا تو اس نے طلاق لے لی لیکن اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔ ان واقعات کی تلخی نے نیٹیلی کے ذہن اور شخصیت میں زہر گھول رکھا تھا۔ شاید اسی لیے وہ تمام انسانوں سے خاص طور پر مردوں سے نفرت کرتی تھی۔ میرے دل میں اس کے لیے بہت ہمدردی پیدا ہوئی۔ میں نے اگلے انٹرویو میں اسے بتایا کہ مجھے اس کی نظمیں پڑھ کر بہت دکھ اور افسوس ہوا لیکن مجھے امید ہے کہ نفسیاتی علاج سے ایک دن وہ صحتمند زندگی گزار سکے گی۔
اس نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو ”سب تھراپسٹ ایسی باتیں کرتے ہیں“۔
اس دن کے بعد ہر ہفتے مجھے یوں لگتا جیسے اس کے غصے میں کمی آ رہی ہو اور اس کا مجھ پر اعتماد بڑھ رہا ہو۔
آخر ایک دن میں اپنے دفتر میں آیا تو بلیک بورڈ پر، جو میں مریضوں کو نفسیاتی مسائل کے بارے میں باتیں سمجھانے کے لیے استعمال کرتا ہوں، ایک پرندے کی تصویر بنی دیکھی۔ اس پرندے کی شکل نیٹیلی کے پرندہ نما جانور سے ملتی جلتی تھی اس لیے میں سمجھ گیا کہ وہ نیٹیلی کا تحفہ ہے۔
نیٹیلی اگلے دن آئی تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ حسبِ دستور زمین پر کشن رکھ کر بیٹھ گئی اور بات چیت کرنے لگی۔ اس دن مجھے احساس ہوا جیسے اس کی نفرت کی دیوار گر گئی ہو۔ آخر میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا
”نیٹیلی اب یوں لگتا ہے جیسے تم مجھ سے نفرت نہیں کرتیں“،
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
”اور تمہارا رویہ بھی بدل گیا ہے“،
اس نے پھر اثبات میں سر ہلایا۔
”آخر اس کی وجہ؟“ ، میں سراپا سوال تھا
”آپ کی تصویریں“، اس نے پہلی دفعہ مجھے احترام سے مخاطب کیا تھا
”تصویریں۔ میں سمجھا نہیں“
”میں کئی ہفتوں سے دیواروں پہ لٹکی تصویریں دیکھ رہی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ اگر آپ جھیل، پرندوں اور جانوروں کی اتنی پیاری تصویریں اتار سکتے ہیں تو آپ اتنے برے انسان نہیں ہو سکتے“
اور وہ پہلی دفعہ مسکرا دی۔ ایسی مسکراہٹ جس کا ہر ماہرِ نفسیات کو انتظار رہتا ہے۔ ایسی مسکراہٹ جو صحتمند رشتوں اور منزلوں کی طرف پہلا موڑ ثابت ہوتی ہے۔
اس دن نیٹیلی کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک دیواروں پہ لٹکی تصویروں کے بارے میں سوچتا رہا اور آج بھی سوچ رہا ہوں۔
بشکریہ: ’ہم سب‘
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)