تاریخ دو راہے پر

ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ کے بارے میں مُفکرین کی دو اَراء ہیں۔ ایک یہ کہ تاریخ عالمی تہذیب کو ترقی کی جانب لے جاتی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ تاریخ تہذیبوں کو تباہ و برباد کر دیتی ہے، جس کے بعد اُن کے لیے ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔

بعض مُفکرین کے نزدیک تاریخ ایک ارتقائی عمل ہے۔ یہ عمل انسانیت کو مختلف مراحل سے گزار کر ترقی کی راہ پر لایا ہے۔ جیسے جیسے تاریخ کا عِلم پھیلتا جا رہا ہے، دنیا کے بہت سے گمنام گوشے بھی دریافت ہو رہے ہیں اور تاریخ کا حصّہ بنتے جا رہے ہیں۔ تاریخ کے علم نے افراد کے بنیادی حقوق کا بھی شعُور دیا ہے اور سیاسی اور سماجی نظاموں کو بدلنے کے بعد کوشش کی ہے کہ ایک ایسا نظام وجود میں آئے جو اَمن و اَمان اور خوشگوار زندگی کے لیے آسانیاں فراہم کرے۔

یہ تاریخ کا رومانوی تصوّر ہے۔ لیکن حقیقت میں ہم تاریخی عمل کو ایک اور ہی راستے پر دیکھتے ہیں۔ تاریخ کا یہ وہ نظریہ ہے، جس میں طاقتور کو فوقیت حاصل ہے اور کمزور کو غلامی کی زندگی گزارنا ہے۔ جب کسی بھی قوم کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ تو اُس کے لیے اخلاقی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

تاریخ کے نظریے کے تحت مورخین بھی تاریخ کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ مثلاً جب رومی سلطنت نے خونریز جنگوں کے ذریعے مغرب سے لے کر مشرق تک اپنا اقتدار قائم کر لیا تو مورخوں نے اسے”رومی اَمن‘‘ کا نام دیا۔ یہی دلیل مَنگولوں کے بارے میں بھی دی گئی، جب اُنہوں نے وسطِ ایشیا اور مَشرقِ وُسطیٰ میں قتلِ عام کر کے اور کُتب خانوں کو جلا کر اپنا اقتدار قائم کیا۔ تو اس کے نتیجے میں جو خاموشی ہوئی اُسے مَنگول امن کا نام دیا گیا، اور ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ منگول امن کی وجہ سے تجارتی راستے محفوظ ہو گئے اور تاجروں کو خوب مُنافع مِلا۔ لیکن رُومی سلطنت اور مَنگولیا کے اَمن کے پسِ منظر میں جو جنگیں ہوئی تھیں، قتل و غارت گری ہوئی تھی اس کو کسی نے جرم قرار نہیں دیا تھا۔

اسی طرح روایتی مورخین مُزاحمت، بغاوت اور تبدیلی کی ہر تحریک کو ترقی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ جیسے انگلستان کے سیاستدان Edmund Burk نے فرانسیسی انقلاب پر اس لیے تنقید کی کیونکہ اس نے قدیم روایات اور اداروں کو ختم کر کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھی۔

جو مورخین اور فلسفی روایتوں کو مُقدّس سمجھتے ہیں۔ اُن کی دلیل یہ ہے کہ روایتوں کی بنیاد تاریخی تجربات پر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان میں مضبوطی آ جاتی ہے، اور لوگوں کا ذہنی رِشتہ اِن سے گہرا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر قدیم روایات اور اداروں کو توڑا جائے تو سماج میں انتشار پیدا ہو گا۔ قدیم روایتوں کے استحکام کی وجہ سے تبدیلی کا عمل ہمیشہ خونریز ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرانسیسی انقلاب میں ہوا۔

ہم تاریخی عمل کو ایک اور نقطۂ نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔ جب قوموں کو قوم پرستی نسل پرستی، مذہبی انتہا پسندی اور سوشل ازم اور کمیون ازم کے نظریات اُنہیں دوسری قوموں سے علیحدہ کر دیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی انسانیت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قومی اور نسلی مُفادات کے نام پر کبھی کلونیل ازم اور کبھی امپیریل ازم کا تسلّط ہوتا ہے، اور کولونیز میں کلونیل طاقتیں قتل اور خونریزی کے ذریعے اپنے خلاف بغاوتوں کو ختم کرتی ہیں اور اُن کے ذرائع کو اس دلیل پر لوٹتی ہیں کہ اس سَرزمین کے لوگ اِنہیں استعمال کرنا نہیں جانتے ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ عالمی تہذیب میں عدم مساوات ہے۔ طاقتور قوموں نے سائنسدانوں کی مدد سے ایک سے ایک ہلاکت خیز ہتھیار تیار کیے ہیں، جن سے دنیا تباہ ہو سکتی ہے، جیسا کہ جوہری بم۔ جن مُلکوں میں آمریت کا نظام ہے۔ ان کے عوام بھی غربت و افلاس میں زندگی گزارتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ میں عام لوگوں کا کردار نہیں ہے۔ اس لیے اشرافیہ کی نظروں میں وہ کاہل سُست اور جاہل ہیں۔ اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخی عمل دُنیا کو اندھیرے سے نکالے گا یا اور مزید اندھیرے میں لے جائے گا۔ اس کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوتا ہے کہ قدیم دَور میں تو جنگیں اُمراء کے لیے مَشغلہ تھیں لیکن اب یہ تباہی و بربادی کا ذریعہ ہیں۔

تاریخ طاقتور اور کمزور قوموں کے درمیان بھی فرق پیدا کرتی ہے۔ طاقت کی بنیاد فوجی قوّت پر ہوتی ہے۔ اَگر کمزور تہذیبی، اَخلاقی اور ذہنی اعتبار سے کتنا ہی اعلیٰ معیار کا حامِل ہو، فوجی قوّت اُس کو شکست دے کر غلام بنا لیتی ہے۔

جب تاریخ کو تقسیم کر دیا جائے تو اُس کے ساتھ ہی سچائی بھی تقسیم ہو جاتی ہے۔ ہر قوم کا مورخ تاریخ لکھتے ہوئے اپنی سچائی کو بیان کرتا ہے۔ جب سچائی کی کوئی بنیاد نہ رہے تو اُس پر اعتبار کرنا مُشکل ہو جاتا ہے۔ سَرد جنگ کے دوران امریکی اور رُوسی مورخوں کی تاریخ میں اپنی اپنی سچائیاں ہیں۔ اگر تاریخ میں سچائی کو ڈھونڈا جائے تو تاریخ اُسے ذہنی بحران میں مُبتلا کر دے گی۔ اس لیے تاریخ نویسی کے قوم پرستی اور نظریے کی گرفت سے نکالنا ضروی ہو گا۔ تا کہ ذہن ہر طرح کی سچائی کو تسلیم کرے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close